جب انقلاب ھمہ گیر ھو اور اسکی بنیاد عقیدہ توحید پر ھو تو مشکلات کی پرواہ کیے بغیر عوام آگے بڑھتے رھتے ہیں اور انکے قدموں میں لرزش
پیدا نھیں ھوتی، بلکہ ھر آنے والی مشکل انکی استقامت میں اضافہ کا باعث بنتی ہے۔
ایک طرف عقیدہ توحید اور دوسری طرف حکومت قائم (عج) کیلئے زمینہ کی ھمواری نے اس انقلاب کو ھمہ گیر بنا دیا۔ جو ھر روز یہ سوچ کر صبح کرتے تھے کہ بس آج شاید انقلاب اسلامی کا آخری دن ھوگا، وہ مایوسی کی دلدل میں دھنستے چلے گئے۔ ظھور امام زمانہ (عج) کیلئے زمینہ کی ھمواری قوم کو قوت و توانائی عطا کرتی ہے۔
ایک سچے انقلاب کی تعریف مقصود ھو تو کھا جا سکتا ہے کہ حقیقی انقلاب وھی ہے جس میں کسی معاشرہ کے تمام امور بنیادی طور پر انقلاب کے مقاصد کی طرف اس طرح تیزی کے ساتھ حرکت کریں کہ انکا اصل محور اور معیار، انقلاب کا بنیادی نقطہ نظر اور نظریہ ھو۔
تمام جدوجھد چاھے وہ فردی ھو یا اجتماعی، علمی ھو یا صنعتی، سیاسی ھو یا قانونی، رفاہ عامہ کی غرض سے ھو یا خدمت خلق کے جذبے کے تحت، ان سب کا اصل پیمانہ اور میزان وھی نقطہ نظر ھو، جس کے لئے انقلاب برپا ھوا ہے۔
ھر عمل و حرکت ،سکوت و گفتگو، تیزی و سستی، اجتماع و افتراق، دوستی و دشمنی، صلح و جنگ، تعریف و تنقید، تعمیر و تخریب، انقلاب کے اصل ھدف و مقصد تک رسائی حاصل کرنے کی غرض سے ھی ھونا چاھئے۔
یھی وہ جذبہ ہے جو انفرادی کوششوں کو اجتماعی کوشش میں تبدیل کر دیتا ہے اور ان کوششوں کا پھل کسی خاص فرد تک مخصوص ھونے کے بجائے پورے معاشرے کو ملتا ہے۔
نظریہ انقلاب گویا قبلے کی حیثیت اختیار کرلیتا ہے اور ایسے انقلابی معاشرے میں تمام افراد ایک ھی مقصد و ھدف کیلئے کام کرتے ہیں، انانیت و خودپسندی کا نام و نشان نھیں ملتا، تضاد و اختلاف، جنگ و نزع، رقابت و حسد، فریب و ریاکاری، جھوٹ و بھتان طرازی جیسے الفاظ اپنے معنویت کھو دیتے ہیں اور اتحاد و ھم آھنگی، محبت و آتشی، تعاون و ھمدردی، خلوص اور نیک نیتی کے جلوے اپنی اصل آب و تاب کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ زبانیں مختلف مگر بات ایک، قلم بے شمار لیکن تحریر یکساں، اذھان بے شمار لیکن فکر ایک، قلب میں امنگیں انگنت لیکن دھڑکن یکساں۔۔۔۔۔اسے کھتے ہیں حقیقی انقلاب۔
دنیا میں رونما ھونے والے مختلف انقلابات کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو یقیناً وہ انقلابات جو انبیائے الھی کی ذریعے رونما ھوئے، عمیق ترین اور شاندار ترین انقلاب کھے جانے کے مستحق قرار پائیں گے اور انھی انقلابات کے گھرے نقوش ھمیں معاشرے پر بھی ملیں گے۔
تمام اولوالعزم پیغمبر ایک مستقل انقلابی منشور کے حامل نظر آتے ہیں، لیکن بنیادی طور پر سب کے سب ایک ھی ھدف و مقصد کے داعی اور علمبردار رھے ہیں۔ آدم علیہ السلام سے لیکر خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک تمام کے تمام رھبران انقلاب گویا ایک ھی زنجیر سے منسلک رھے ہیں اور ان سب کے انقلاب کا محور اسلام اور عقیدہ توحید رھا ہے۔ بھلا وہ کونسا انقلاب ھوسکتا ہے جو اسلام و شریعت پر مبنی انقلاب سے زیادہ جامع اور ھمہ گیر انقلاب ھو۔
جھاں انقلاب کے ان تینوں عناصر پر نظر نھیں ھوتی اور انقلاب محض بشری اغراض و مقاصد، وقتی جوش و خروش یا وقت اور ماحول کے عمل در عمل کا نتیجہ ھوتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ پھلے جھاں ایک قوم، طبقہ اور حالات اور ماحول کا شکار رھے ھوں، انقلاب کے بعد دوسری قوم اور دوسرے افراد انکی جگہ لے لیں، پھلے جس معاشرے میں سماجی و اقتصادی بدحالی رھی ھو، وھاں اب اخلاقی و مذھبی بدحالی پھیلنا شروع ھو جائے اور اھل مذھب کا استحصال ھونے کے بجائے خود مذھب کا استحصال ھونے لگے، انفرادی غلامی سے نکل کر اجتماعی غلامی کی زنجیریں پھن لیں، غریبوں اور کمزوروں کا حق شخصی ملکیت سے نکال کر قومی پلیٹ فارم سے مخصوص افراد میں تقسیم و نیلام کر دیا جائے اور بھتر سے بھتر کی طرف بڑھنے کے فطری رحجان کو مشترکہ منافع کی جاذب نظر تلوار سے کاٹ کر انسان کے جذبہ عمل کو ناکارہ کر دیا جائے۔۔۔ایسا انقلاب حقیقی انقلاب نھیں ھوسکتا۔
اسکے علاوہ کوئی بھی تحریک اور انقلاب کتنا ھی اچھا اور ھمہ گیر کیوں نہ ھو، اگر اپنے اصل مقصد و ھدف سے منحرف ھوجائے تو بے وقت ھو کر رہ جاتا ہے۔
تاریخ جدید کے عالمی ورق پر ابھرنے والے انقلابات یقیناً اپنی انھی بنیادی کمزوریوں کا شکار ھوئے اور اصولاً ھونا بھی چاھئے، کیونکہ جب تک ایک ھمہ گیر نقطہ نظر نہ ھو، انقلاب اپنے ھدف و مقصد تک رسائی حاصل نھیں کرسکتا، ھمہ گیر انقلاب کیلئے ھمہ گیر نقطہ نظر بھی ضروری ہے، اسی لئے اسلام نے اپنے انقلاب کا اصل محور عقیدہ توحید کو قرار دیا۔ یھی وجہ ہے کہ انقلاب اسلامی ایران 34 سال کے طویل عرصے سے مشکل و دشوار ترین راستوں سے گزرتا اپنی منزل کی جانب پوری آب و تاب کے ساتھ رواں دواں ہے ۔۔۔۔۔ نہ جوش میں فرق ہے اور نہ ھی سوچ میں۔ ھدف ایک ہے، مقصد ایک ہے۔
جب انقلاب ھمہ گیر ھو اور اسکی بنیاد عقیدہ توحید پر ھو تو مشکلات کی پرواہ کیے بغیر عوام آگے بڑھتے رھتے ہیں اور انکے قدموں میں لرزش پیدا نھیں ھوتی، بلکہ ھر آنے والی مشکل انکی استقامت میں اضافہ کا باعث بنتی ہے۔
ایک طرف عقیدہ توحید اور دوسری طرف حکومت قائم (عج) کیلئے زمینہ کی ھمواری نے اس انقلاب کو ھمہ گیر بنا دیا۔ جو ھر روز یہ سوچ کر صبح کرتے تھے کہ بس آج شاید انقلاب اسلامی کا آخری دن ھوگا، وہ مایوسی کی دلدل میں دھنستے چلے گئے۔
ظھور امام زمانہ (عج) کیلئے زمینہ کی ھمواری قوم کو قوت و توانائی عطا کرتی ہے۔ امام خمینی (رہ) نے انقلاب اسلامی کو ظھور امام زمان (عج) کا مقدمہ قرار دیا اور فرمایا:
"آئمہ معصومین علیھم السلام اور امام زمانہ (عج) کے اس ملک کو ایسا ھونا چاھئے کہ آنحضرت کے ظھور تک اپنے استقلال کو قائم رکھے اور اپنی تمام طاقت کو امام (ع) کی خدمت کیلئے قرار دے، جو اس جھاں کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے اور مستضعفین پر ھونے پر ظلم و ستم کا خاتمہ کریں گے۔ (صحیفہ نور، ج۱۴، ص۱۹۵)
ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
"ھم اللہ تعالٰی کے لطف و کرم سے تمام اسلامی ممالک سے ظالموں کے ظلم و ستم کا قلع قمع کریں گے اور اپنے انقلاب (جو درحقیقت احکام محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کو بیان کرنے والا سچا انقلاب ہے) کو صادر کرکے ان ظالموں کے تسلط کا خاتمہ کریں گے اور اللہ تعالٰی کی مدد سے مصلح کل امام زمانہ علیہ السلام کے ظھور کے لئے میدان ھموار کریں گے۔" (صحیفہ نور، ج۲۰،ص۱۳۲)
تو اب ھم اسلامی بیداری کو حالات و واقعات کا پیش خیمہ ھی سمجھتے رھیں گے یا اس بات پر قانع ھوجائیں گے کہ اسلامی بیدری دراصل اسی ھمہ گیر انقلاب اسلامی کی بدولت ہے اور اس انقلاب اسلامی کی کرنیں جھاں جھاں پڑ رھی ہیں، وھاں وھاں روشنی پھیلاتی جا رھی ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی رھبر معظم حضرت آیۃ اللہ خامنہ ای نے بھی فرمایا ہے: ھمیں معلوم ھونا چاھئے کہ جس طرح اس انقلاب کے ذریعے امام عصر علیہ السلام کا ظھور ایک قدم نزدیک ھوا ہے، اسی انقلاب کے ذریعے اس سے بھی زیادہ نزدیک ھونا چاھئے، یعنی یھی انقلاب کرنے والے لوگ ھی اپنے اقدامات کے ذریعے اس انقلاب کو امام زمانہ علیہ السلام کے انقلاب سے متصل کرسکتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی ان دونوں انقلاب کے باھمی واسطے کے بارے میں فرماتے ہیں: امام زمانہ علیہ السلام جس مقصد اور ھدف کے لئے ظھور کریں گے، ھمارا انقلاب اس ھدف کے راستے کا ایک عظیم اور لازمی آغاز ہے ۔۔۔۔"
تحریر: سید رضا نقوی