امام خمینی(رہ) نے امت اسلامیہ کو اتحاد و وحدت کی دعوت دی۔ انھوں نے کھا کہ جو شیعہ و سنی میں تفرقہ پیدا
کرتا ہے وہ نہ شیعہ ہے نہ سنی بلکہ استعمار کا ایجنٹ ہے۔
امام خمینی (رہ) کی قیادت میں انقلاب کی بڑھتی ھوئی آواز کو طرح طرح کے فتنوں اور انتشار و تفریق کے عنوانوں سے روکنے کی کوشش کی گئی۔ افسوس اس مقصد کے لیے مسلمانوں میں موجود تکفیری ذھنیت اور ڈاماں ڈول ھوتی ھوئی خاندانی بادشاھتوں نے اتحاد کی ان کوششوں کے راستے میں مسلسل دیواریں کھڑی کیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
تاھم بیدار اور متحد ھوتی ھوئی امت اسلامیہ انشاءاللہ اسلامی اور انسانی اقدار کے غلبے کے لیے اپنی ذمہ داریاں ضرور ادا کرے گی اور وہ دن دور نھیں کہ جب سارے عالم میں عدل اسلامی کی حکمرانی ھوگی۔
فروری 1979ء میں ایران میں انقلاب اسلامی ظھور پذیر ھوا تو اسے "اِنفجارِ نور" اور "طلوعِ فجر" سے تعبیر کیا گیا اور انقلاب کی کامیابی کے انتھائی ایام کو "دہ فجر" قرار دیا گیا۔ اسی حوالے سے سورہ مبارکہ فجر کی ابتدائی آیات زبان زدعام تھیں:
"والفجر ! ولیال عشر"
"قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی۔۔۔"
حضرت امام خمینی (رہ) نے جب پندرہ سالہ طویل جلا وطنی کے بعد اعجاز آمیز انداز سے تھران کی سرزمین پر قدم رکھا تو اس وقت 11 فروری 1979ء (22 بھمن 1358ھ ش) تک دس دنوں اور راتوں میں انقلاب کا آخری معرکہ لڑا گیا۔
11 فروری کو شاھی طاغوت کے سراسیمہ سپاھیوں نے آخرکار ھتھیار ڈال دیئے اور تاریخ عالم میں ایک خوبصورت تازہ نورانی صبح طلوع ھوئی، واقعی نور پھوٹ پڑا۔ ایک ایسا نور جس نے سیاہ اور سفید چھروں میں تمیز پیدا کر دی۔ جس نے حق و باطل کی پھچان کیلئے فرقان کا کام کیا۔ جس نے چودہ سو سال پھلے کی فتح مکہ کی یادیں تازہ کردیں اور فلک پیر نے ایک مرتبہ پھر مسجود ملائکہ کے ھاتھوں "انی اعلم ما لا تعلمون" کی صداقتوں کا ظھور ھوتے دیکھا۔
فضائیں ایک مرتبہ پھر ان نعروں سے گونج اٹھیں:"جَآءَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا" ۔(بنی اسرائیل،آیت۸۱)
"حق آگیا اور باطل بھاگ گیا اور باطل تو ہے ھی بھاگ جانے والا"
ایک دور ایسا آیا کہ جب انسانوں نے روحانی اقدار کو فراموش کر دیا تھا۔ معنوی پیمانوں سے رفتار زماں کی پیمائش قصۂ پارینہ ھوچکی تھی۔ جب مادی اقدار کا غلغلہ تھا۔ شرق و غرب مادی افکار کے اقدار میں یوں جکڑے ھوئے تھے کہ فکر و عمل سب گویا اسی کی تمناؤں کے سانچے میں ڈھل چکے تھے۔
دین و سیاست کی جدائی گویا ھمیشہ کیلئے مسلّم ھوچکی تھی۔ اھل دین کے ھاتھوں کی گرفت بھی امید کی رسی پر ڈھیلی پڑ چکی تھی۔ ایک طرف سرمایہ داری کا زور تھا تو دوسری طرف اشتراکیت کا شور۔ چھوٹی حکومتوں کے زمام دار، مشرقی اشتراکیت کی طرف امید کی نظروں سے دیکھتے تھے یا مغربی سرمایہ داری سے توقع باندھے ھوئے تھے۔
کلیسا کے اھل منصب تو کب سے اپنے پر سمیٹے مذھبی آشیانوں میں اپنے تئیں ھمیشہ کے لئے "صبر و شکر" کے دھیمے ترانے گنگنا رھے تھے۔ ایسے میں سرزمین ایران پر تکبیر کے ترانے گونج اٹھے۔ ان نعروں کی گونج میں طاغوت شرق و غرب کی بے ھنگم صدائیں ماند پڑ گئیں۔
امام خمینی (رہ) عظیم آیت الٰھی کی حیثیت سے سیاست عالم کی مسند پر جلوہ افروز ھوئے۔ اس پیر سال رھبر کی آواز نے ابلیسی طاقتوں کے ایوان لرزا دیئے اور ایک مرتبہ سب اھرمنی قوتوں کے ھوش گم ھوگئے۔
آھستہ آھستہ سب شیطانوں نے اپنی چندھیا جانے والی آنکھوں کو ملنا شروع کیا اور جو سنگ ان کے پاس بچے تھے انھیں پھر سے سمیٹنا شروع کیا۔ انھوں نے اس انوکھے شگوفے کو پوری قوت سے مسل دینے کا فیصلہ کیا۔ ان کے انسانی حقوق، جمھوریت اور آزادی کی فریب کار نعروں کی حقیقت تو پھلے ھی طشت از بام ھوچکی تھی۔
وہ ایرانی قوم کی اس جرأت اظھار اور طلب حریت پر چیں بہ جبیں تھے۔ ایرانی قوم کے انسانی و جمھوری حقوق کی ان کی نظر میں کیا وقعت ھوسکتی تھی۔ انھوں نے شاھوں، آمروں اور مطلق العنان حکمرانوں کے ساتھ مل کر سازش کی اور ابھی انقلاب تازہ تازہ ھی تھا اور ایرانی افواج کو منّظم کرنے کیلئے ابھی منصوبے ھی بن رھے تھے کہ اس پر جنگ ٹھونس دی گئی۔
اس جنگ میں وحشت و بربریت کے سب ھتھیار آزمائے گئے۔ ویرانیوں، تباھیوں اور بربادیوں کی بارش کر دی گئی۔ سامراجیوں نے ایران کے اندر موجود اپنے ایجنٹوں کو بھی حرکت دی۔ انقلاب کی اعلٰی درجے کی قیادت کو نشانہ بنایا گیا۔ صدر، وزیراعظم، چیف جسٹس، اراکین پارلیمنٹ، وزراء اور فوجی قیادت غرض کسے دھشت گردی کا نشانہ نہ بنایا گیا۔
آخر کار حضرت امام خمینی(رہ) کی رھائش گاہ پر فضائی حملے کا منصوبہ بنایا گیا، جو طبس کے صحراؤں میں ناکام و نامراد ھوگیا۔ لیکن اللہ کا ارادہ ھمیشہ اٹل ھوتا ہے۔ اللہ تعالٰی نے اس انقلاب کو غالب کرنے کا ارادہ کر رکھا تھا۔
دشمن رسوا ھوئے اور انقلاب اپنی عظیم قیادت کی رھنمائی میں ان تمام امتحانات سے سرخرو نکلا۔ اقتصادی پابندیاں بھی بڑھتے ھوئے انقلاب کے قدم نہ روک سکیں۔ "لاشرقیہ ولا غربیہ، جمھوریہ اسلامیہ" کے ایمان افروز نعرے اسی طرح گونجتے رھے۔ ھر مشکل سے یہ انقلابی قوم اور بھی مضبوط ھوکر نکلی۔ ھر پابندی نے اس انقلاب کو اور بھی استحکام بخشا۔ اس قوم نے گویا اس پیغام پر پوری طرح عمل کرکے دکھایا:
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پا بہ گل بھی ہے
انھی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تو کر لے
امام خمینی(رہ) نے امت اسلامیہ کو اتحاد و وحدت کی دعوت دی۔ انھوں نے کھا کہ جو شیعہ و سنی میں تفرقہ پیدا کرتا ہے وہ نہ شیعہ ہے نہ سنی بلکہ استعمار کا ایجنٹ ہے۔ ان کی قیادت میں انقلاب کی بڑھتی ھوئی آواز کو طرح طرح کے فتنوں اور انتشار و تفریق کے عنوانوں سے روکنے کی کوشش کی گئی۔
افسوس اس مقصد کے لیے مسلمانوں میں موجود تکفیری ذھنیت اور ڈاماں ڈول ھوتی ھوئی خاندانی بادشاھتوں نے اتحاد کی ان کوششوں کے راستے میں مسلسل دیواریں کھڑی کیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
تاھم بیدار اور متحد ھوتی ھوئی امت اسلامیہ انشاءاللہ اسلامی اور انسانی اقدار کے غلبے کے لیے اپنی ذمہ داریاں ضرور ادا کرے گی اور وہ دن دور نھیں کہ جب سارے عالم میں عدل اسلامی کی حکمرانی ھوگی۔
انقلاب کی قیادت نے ایرانی عوام کو یہ بھی شعور بخشا کہ اگر حریت و آزادی عزیز ہے تو خود انحصاری کی منزل کو حاصل کرنا ھوگا۔ یہ پیغام لوگوں کے دلوں میں اتر گیا۔ پوری قوم تعمیر و ترقی کے جھاد کیلئے اٹھ کھڑی ھوئی اور پھر اپنے وطن کی تعمیر کے حوالے سے بھی اس قوم سے عجیب معجزات نے ظھور کیا۔
آج انقلاب کی کامیابی کو پینتیس برس گزر چکے ہیں۔ ایرانی قوم آج مصیبتوں اور آزمائشوں کے ایک کٹھن دور سے نکل چکی ہے۔ دنیا کے سامنے آج یہ قوم سرخرو کھڑی ہے اور دنیا کی پسماندہ قوموں کو آزادی و کامرانی کا پیغام دے رھی ہے۔
آج بھی ایرن "لا شرقیہ لا غربیہ" کی پالیسی پر گامزن ہے۔
آج بھی ایران کے فیصلے ایران میں ھوتے ہیں بلکہ صدور انقلاب کا عمل بھی ایک خوبصورت انداز سے جاری ہے۔
یہ انقلاب فوج کے ذریعے نھیں آیا تھا اور اس کا صدور بھی فوج کے ذریعے، کبھی انقلابی قیادت کا مطمح نظر نہ تھا۔
انقلاب کی عظیم قیادت نے اپنے فکرو عمل سے اس انقلاب کا پیغام ساری نوع انسانی تک پھنچایا ہے۔ اسلامی جمھوریہ ایران ھی نے عالمی تھذیبوں کے درمیان مکالمے کی جو تجویز پیش کی تھی، وہ بھی ایرانی قیادت کے صدور انقلاب کی حکمت عملی ھی کا ایک اظھار تھا۔ اس سے ظاھر ھوتا ہے کہ اسلامی انقلاب درحقیقت عالمی انسانی انقلاب ھ کی تمھید ہے، ایک ایسا انقلاب جو انسانوں کی نہ فقط عرب و عجم میں تفریق کا قائل نھیں بلکہ مشرق و مغرب کی تھذیبوں کے مابین مکالمے کے ذریعے ھم آھنگی کی فضا استوار کرنے کا عزم رکھتا ہے۔
تحریر: ثاقب اکبر