شیعہ کے اصطلاحی معانی میں سے ایک خاندان نبوت و رسالت کے ساتھ محبت و دوستی ہے اور آیات و روایات میں اس بات کی زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ بےشمار احادیث ایسی ہیں، جن میں حضرت علی علیہ السلام کی محبت کو واجب و لازم قرار دیا گیا ہے، یھاں تک کہ حضرت علی علیہ السلام سے محبت و دوستی کو ایمان اور ان سے دشمنی و عداوت کو نفاق کا معیار قرار دیا گیا ہے ۔
سیوطی آیت کریمہ "وَلَتَعْرِفَنَّ هُمْ فىِ لَحْن الْقَوْل" (اور آپ انداز کلام سے ھی انھیں ضرور پھچان لیں گے) کی تفسیر میں ابن مردودیہ اور ابن عساکر سے نقل کرتے ہیں کہ: آیہ کریمہ میں لحن القول سے مراد علی ابن ابی طالب کی نسبت دشمنی اور کینہ رکھنا ہے۔
اسی طرح ایک اور روایت جسے ابن مردودیہ نے نقل کیا ہے: "ما کنا نعرف المنافقین علی عهد رسول الله (ص) الا ببغضهم علی ابن ابی طالب (ع)" پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں منافقین کو ھم علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے دشمنی اور عداوت کرنے کے ذریعے پھچانتے تھے۔
نسائی (متوفی 303ھ) نے خصائص امیرالمومنین میں ایک باب کا عنوان مومن اور منافق کے درمیان فرق کو قرادیا ہے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تین حدیثیں نقل کرتے ہیں جن میں آپ فرماتے ہیں: "امیرالمومنین سے مومن کے علاوہ کوئی اور محبت نھیں کرتا (اسی طرح) منافق کے علاوہ کوئی اور ان سے دشمنی نھیں کرتا ہے۔"
خطیب خوارزمی نے اپنی کتاب المناقب کی چھٹی فصل میں وہ حدیثیں پیش کی ہیں، جن میں حضرت علی علیہ السلام اور اھل بیت علیھم السلام کے ساتھ محبت کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں تقریباً تیس حدیثیں نقل کی ہیں، جن کے مضامین اس طرح کے ہیں:
1۔ "انی افترضت محبة علی ابن ابی طالب علی خلقی عامة"۔ حضرت علی علیہ السلام کی محبت سب پر واجب ہے۔
2۔ "لواجتمع الناس علی حب علی ابن ابی طالب لما خلق الله النار"۔ اگر تمام انسان علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی محبت پر متفق ھو جاتے تو خداوند جھنم کو خلق نہ کرتا۔
3۔ اگر کوئی حضرت نوح علیہ السلام کی اس عمر کے برابر (جو انھوں نے اپنی قوم کے درمیان گزاری) عبادت کرے اور کوہ احد کے برابر سونا خدا کی راہ میں خرچ کرے اور ھزار مرتبہ حج بیت اللہ کرے اور صفا و مروہ کے درمیان خدا کی راہ میں قتل ھو جائے، لیکن حضرت علی علیہ السلام سے محبت نہ رکھتا ھو تو وہ شخص جنت میں داخل نھیں ھوگا۔
4۔ "من احب علیا فقد احبنی و من ابغض علیا فقد ابغضنی"۔ جس نے علی علیہ السلام سے محبت کی، گویا اس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کی ہے اور جس نے علی علیہ السلام سے دشمنی کی، گویا اس نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دشمنی کی ہے۔
5۔ "ان ملک الموت یترحم علی محبی علی ابن ابی طالب کما یترحم الانبیاء"۔ ملک الموت جس طرح انبیاء پر رحم کرتا ہے، اس طرح علی علیہ السلام کے چاھنے والوں پر بھی رحم کرتا ہے۔
6۔ "من زعم انه امن بی و بما جئت به و هو یبغض علیا فهو کاذب لیس بمومن"۔ جو شخص پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن مجید پر ایمان رکھتا ھو، مگر علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے دشمنی رکھتا ھو تو وہ شخص جھوٹا ہے اور مومن نھیں ہے۔
اسی طرح شبلنجی شافعی نے نور الابصار میں ان حدیثوں کو نقل کیا ہے:
1۔ مسلم نے حضرت علی علیہ اسلام سے نقل کیا ہے: " والذی فلق الحبة و برا النسمة انه لعهد النبی الامی بانه لا یحبنی الا مومن و لا یبغضنی الا منافق"۔ خدا کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور ذی روح چیزیں پیدا کیں، یہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وعدہ ہے کہ مومن کے سوا مجھ سے کوئی محبت نھیں کرتا اور منافق کے سوا کوئی مجھ سے بغض نھیں کرتا۔
2۔ ترمذی ابو سعید خدری سے نقل کرتے ہیں: " کنا نعرف المنافقین ببغضهم علیا"۔ ھم منافقین کو علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے دشمنی اور عدوات کرنے کے ذریعے پھچانتے تھے۔
حضرت علی علیہ السلام کی محبت کے واجب ھونے پر بے شمار حدیثیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل ھوئی ہیں کہ ان سب کو یھاں بیان کرنے کی گنجائش نھیں ہے۔
لھذا مذکورہ احادیث کی روشنی میں حقیقی مسلمان وہ ہے، جو حضرت علی علیہ السلام کی محبت کو واجب و لازم سمجھے، گرچہ خواھشات نفسانی میں گرفتار افراد حضرت علی علیہ السلام سے دشمنی و عداوت رکھتے تھے اور کبھی اسے آشکار کرتے تھے، اسی وجہ سے حضرت علی علیہ السلام سے محبت، ایمان اور ان سے عداوت اور دشمنی کو نفاق کا معیار سمجھا گیا۔ اس صورت حال میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعض اصحاب امیرالمومنین علیہ السلام سے دوسروں کی بہ نسبت زیادہ محبت کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فرامین پر توجہ کرتے ھوئے حضرت علی علیہ السلام کے گفتار و کردار کو اپنے لئے اسوہ و نمونہ قرار دیتے تھے۔
گذشتہ احادیث سے حضرت علی علیہ السلام کی افضلیت بھی واضح ھو جاتی ہے، کیونکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک آپ سب سے زیادہ عزیز تھے، کیونکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی خواھشات نفسانی کی بنا پر کسی سے محبت نھیں کرتے بلکہ عقل و حکمت اس چیز کا تقاضا کرتی تھی۔ ان کے علاوہ آپ کی افضلیت کے بارے میں بھت زیادہ احادیث موجود ہیں۔
آیت مباہلہ سے بھی یہ مطلب واضح ھو جاتا ہے، کیونکہ اس آیت میں حضرت علی علیہ السلام کو نفس پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرار دیا گیا ہے، حالانکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انسانوں میں سب سے زیادہ افضل تھے، لھذا نفس پیغمبر کو بھی ان شرائط و خصوصیات کا حامل ھونا چاھیے۔
محمد بن عائشہ سے پوچھا گیا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں سب سے افضل کون ہے۔؟ انھوں نے جواب دیا: ابوبکر، عمر، عثمان، طلحہ اور زبیر۔ ان سے دوبارہ سوال ھوا، پھر علی ابن ابی طالب کس درجہ پر فائز ہیں۔؟
انھوں نے جواب دیا: تم لوگوں نے اصحاب کے بارے میں سوال کیا تھا، نہ اس شخص کے بارے میں جو نفس پیغمبر تھے۔ اس کے بعد آیت مباھلہ کی تلاوت کی، اس کے بعد کھا: پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کس طرح اس شخص کے مانند ھوسکتے ہیں، جو نفس پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔
اسی طرح احمد ابن حنبل کے بیٹے عبداللہ نے اپنے باپ سے پوچھا کہ خلفاء کی افضلیت کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے۔؟ انھوں نے جواب دیا: ابو بکر، عمر اور عثمان اسی ترتیب کے ساتھ افضلیت رکھتے ہیں۔ عبداللہ نے دوبارہ پوچھا پھر علی ابن ابی طالب علیہ السلام کس درجے پر فائز ہیں۔؟ انھوں نے جواب دیا کہ اے بیٹے: علی ابن ابی طالب کا تعلق ایسے خاندان سے ہے کہ کسی کا ان کے ساتھ مقایسہ نھیں کیا جا سکتا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زھراء سلام اللہ علیھا سے فرمایا تھا؟ تمھارا شوھر میری امت میں سب سے بھتر ہے، اس نے سب سے پھلے اسلام قبول کیا اور علم و حلم کے اعتبار سے وہ دوسروں پر برتری رکھتا ہے۔"ان زوجک خیر امتی اقدمه اسلاما و اکثرهم علما و افضلهم حلما" اسی طرح جب ایک پرندے کا بھنا گوشت آپ کو پیش کیا گیا تو آپ نے خداوند متعال سے درخواست کی کہ اپنی مخلوقات میں سے سب سے زیادہ عزیز فرد کو میرے ساتھ کھانے میں شریک قرار دے، اسی وقت حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ھوئے تھے۔
جابر بن عبداللہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں: "انه اولکم ایمانا معی، واوفاکم بعهد الله تعالی و اقومکم بامر الله و اعدکم فی الرعیة و اقسمکم بالسویة و اعظمکم عند الله فریة" حضرت علی علیہ السلام سب سے پھلے ایمان لانے میں اور خداوند متعال کے عھد کو پورا کرنے میں سب سے زیادہ وفادار اور احکام الٰھی کے اجراء میں سب سے زیادہ پائیدار اور لوگوں کی نسبت سب سے زیادہ عادل ہے اور وہ بیت المال کی تقسیم میں سب سے زیادہ مساوات سے کام لیتے ہیں اور خداوند متعال کی نظر میں ان کا مقام سب سے زیادہ برتر ہے۔
جابر اس کے بعد کھتے ہیں کہ آیت شریفہ "إِنَّ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَ عَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ أُوْلَئكَ هُمْ خَيرْ الْبرَيَّة"حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ھوئی ہے اور جب بھی حضرت علی علیہ السلام وارد ھوتے تو سبھی کھتے تھے "قد جاء خیرالبریة" اس سلسلے میں اور بھی حدیثیں موجود ہیں، لیکن یھاں سب کو بیان نھیں کرسکتے۔
خلاصہ یہ کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جھاں توحید اور نبوت کے مسائل پیش کرتے تھے، وھی امامت کے مسئلے کو بھی بیان کرتے تھے اور اپنے عمل و بیان سے حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت کو سب پر ظاھر کر دیتے تھے۔ اسی بنا پر اس زمانے میں ایک گروہ حضرت علی علیہ السلام کے فضائل و کمالات کا شیفتہ ھوا تھا اور مسلمانوں کے درمیان وہ شیعہٴعلی علیہ السلام کے نام سے پھچانا جاتا تھا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ھمیشہ اس گروہ کی ستایش کرتے رھتے تھے اور انھیں قیامت کے دن کامیاب و کامران ھونے کی بشارت دیتے تھے۔
تحریر: محمد لطیف مطھری کچوروی
حوالہ جات
محمد،30۔
الدر المنثور، ج7، ص 443۔
الدر المنثور، ج7، ص 443۔
خصائص امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام،ص 155 – 157۔
المناقب، خوارزمی، ص 64 – 79۔
نور الابصار، ص 160، منشورات الرضی قم۔
الریاض النضرۃ، محب الدین طبری، و قادتناکیف نعرفھم، ج1، آیۃ اللہ میلانی۔
آل عمران 61۔
البیھقی، المحاسن ج1 ص 39، الامام الصادق و المذاھب الاربعۃ، ج1، ص 574۔
طبقات الحنابلۃ، ج2، ص 120 الامام الصادق و المذاہب الاربعۃ، ج1، ص 575
خطیب خوارزمی، المناقب، فصل نہم، حدیث111، ص 106
خطیب خوارزمی، المناقب، فصل نہم، حدیث111، ص 106
خطیب خوارزمی، المناقب حدیث 120، ص 111 – 112
پیغمبر اکرم(ص) کی امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام سے محبت
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 2405