حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی صفات کمالیہ میں پھلی صفت علم ہے۔ ابن حدید کھتے ہیں: حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ کسی شخص کے متعلق یہ نھیں کھا جا سکتا کہ ھر فضیلت اس کی ذات سے پھوٹتی ھو، ھر فرقہ کی انتھاء انھی کی طرف ھو، ھر گروہ اسی کی طرف جذب ھونے کا متمنی ھو۔ آپ جانتے ہیں کہ علوم میں سب سے اعلٰی علم، علم الٰھی ہے۔ آپ (ع) کے کلام میں اس علم کے اقتسبات موجود ہیں۔ آپ (ع) ھی سے یہ کلام نقل ھوا ہے، آپ کی طرف ھی اس کلام کی ابتداء و انتھا ہے۔ اھل توحید و عدل اور ارباب نظر کے عنوان سے شھرت رکھنے والے معتزلہ بھی آپ کے شاگرد ہیں، کیونکہ معتزلہ کے بزرگ واصل بن عطا، ابو ھاشم عبداللہ بن محمد بن حنفیہ کے شاگرد ہیں اور ابو ھاشم اپنے والد کے اور ان کے والد حضرت امیر علیہ السلام کے شاگرد ہیں۔ جھاں تک اشعریہ کا تعلق ہے، اس گروہ کے سر کردہ ابوالحسن اشعری ہیں، آپ ابو علی جبائی کے شاگرد ہیں اور ابو علی جبائی کا شمار معتزلہ کے بزرگوں میں ھوتا ہے۔ لٰھذا اشعریہ کی بازگشت معتزلہ کی طرف ھی ہے اور ان کے معلم حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں اور امامیہ اور زیدیہ کا حضرت امیر علیہ السلام کا شاگرد ھونا بھت ھی واضح اور روشن ہے۔﴿١﴾
اسی طرح علوم میں سب سے اھم علم، علم فقہ ہے، اس علم کے بانی بھی حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام ہیں، اسلام کے ھر فقیہ کی بازگشت آپ کی طرف ہے۔ مذاھب اربعہ کے آئمہ جیسے امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام احمد ابن حنبل اور امام مالک ہیں، ان لوگوں کا آپ کی طرف رجوع کرنا واضح ہے، کیونکہ یہ لوگ شخصی طور پر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگرد ہیں یا ان میں سے بعض آپ (ع) کے شاگردوں کے شاگرد ہیں، جیسا کہ امام مالک ہیں، انھوں نے ربیعہ الرای کے پاس علم حاصل کیا، انھوں نے عکرمہ سے اور عکرمہ نے ابن عباس سے اور ابن عباس حضرت امیر علیہ السلام کے شاگرد تھے۔﴿۲﴾
شیعہ اور اھل سنت کی کتب میں یہ روایت ہے کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ”اقضاکم علي“ تم میں سب سے بڑے قاضی علی علیہ السلام ہیں۔ قضاوت فقہ کی ھی ایک قسم ہے، جیسا کہ روایت میں ہے کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب حضرت علی علیہ السلام کو یمن کا قاضی بنا کر بھیجا تو بارگاہ خداوندی میں عرض کی بار الھا اس کے دل و زبان کو مضبوط و محکم رکھنا، حضرت امیر علیہ السلام کھتے ہیں کہ امت میرے کسی بھی فیصلے میں شک نہ کرتی تھی۔﴿۳﴾
ابن عباس کھتے ہیں کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "علي بن اٴبي طالب اعلم اُمتّيِ واٴقضاھم فیما آختلفوا فیہ من بعدي۔" علی ابن ابی طالب میری امت میں سب سے زیادہ صاحب علم ہیں، میرے بعد ھر قسم کے اختلافات کا سب سے بھتر فیصلہ کرنے والے ہیں۔﴿۴﴾
ابو سعید خدری کھتے ہیں کہ میں نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ھوئے سنا: "انا مدینة العلم و علي بابھا فمن اراد العلم فلیقتبسہ من علي۔"﴿۵﴾ میں علم کا شھر ہوں اور علی علیہ السلام اس کا دروازہ ہیں، جو علم حاصل کرنا چاھتا ہے، اسے چاھئے کہ وہ علی علیہ السلام سے حاصل کرے۔
عبداللہ بن مسعود کھتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو ایک طرف بلایا، آپ ھم سے علیحدہ ھوگئے، جب واپس آئے تو ھم نے وجہ پوچھی حضور (ص) نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا انھیں جواب دیں۔ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: "علّمَنِی رسول الله (ص) اٴلف بابٍ مِنَ العلمِ ینفتَح لِي من کل باب الفَ باب۔" رسول الله نے مجھے علم کے ایک ھزار ابواب کی تعلیم دی، جس کے ھر باب سے ھزار ابواب میرے لئے کھل گئے ہیں۔﴿٦﴾
اسی طرح باقی تمام علوم کے موجد بھی حضرت علی علیہ السلام ہیں، مثلاً علم تفسیر ہے، اس میں آپ کو ید طولٰی حاصل ہے، آپ کی نظر کتب تفسیر میں نظر واحد ہے، اس کے مصداق آپ اور ابن عباس کے شاگرد قدح معلٰی ہیں، آپ فرماتے ہیں: "فوالذی فلق الحبہ وبراٴالنسمہ لو ساٴلتموني عن آیة، آیة في لیل نزلت اٴو في نھار مکیُّھا ومدنےُّھا، سفرےُّھا و حضرے ھا ناسخھا و منسوخھا و محکمھا و متشابھھا و تاٴویلھا وتنزیلھا لاٴخبرتکم۔" مجھے اس رب کی قسم جس نے گٹھلی کو چیرا اور مخلوقات کو پیدا کیا، اگر تم مجھ سے کسی آیت کے متعلق سوال کرو کہ فلاں آیت رات میں نازل ھوئی یا دن میں نازل ھوئی، وہ مکی ہے، مدنی ہے، سفر میں نازل ھوئی یا حضر میں، ناسخ ہے یا منسوخ، متشابہ ہے یا محکم ہے، اس کی تاویل کیا ہے، اس کی وجہ تنزیل کیا ہے، میں ھر چیز کے متعلق تمھیں جواب دوں گا۔﴿۷﴾
اس طرح حضرت نے یہ بھی فرمایا: "ما من آیة الا وقد علمتُ فیمن نزلت واٴین نزلت في سھل اٴوجبل واِنَّ بین جوانحي لعلماً جمّاً۔" کوئی بھی آیت ایسی نھیں ہے، جس کے متعلق میں نہ جانتا ھوں کہ وہ کس کے متعلق نازل ھوئی ہے اور کھاں نازل ھوئی ہے، زمین پر نازل ھوئی ہے یا پھاڑ پر۔ میرے سینے میں ٹھاٹھیں مارتا ھوا سمندر ہے۔﴿۸﴾
ابن عباس سے سوال کیا گیا کہ آپ کے چچازاد بھائی اور آپ کے علم میں کیا نسبت ہے۔؟ ابن عباس کھتے ہیں، سمندر کے مقابلہ میں جو قطرے کو نسبت ہے، وھی نسبت علی علیہ السلام کے اور میرے علم میں ہے۔﴿۹﴾
اسی طرح علم نحو، اخلاق، تصوف، کلام اور فرائض وغیرہ کے موسس اور بانی بھی حضرت علی علیہ السلام ہیں اور آپ نے ہی ان علوم کے اصول اور فروع کی تشریح فرمائی ہے، جیسا کہ علم نحو کے جوامع ابو الاسود الدؤلی کو کلمہ کی اسم فعل حرف کی طرف تقسیم، معرفہ، نکرہ، اعراب اور حرکات کی پھچان کی تعلیم آپ نے ھی فرمائی ہے۔ یھاں تک کہ شرح نھج البلاغہ میں ابن حدید کھتے ہیں، آپ جس قدر علوم کی انتھاء تک پھنچے ھوئے تھے، انھیں معجزات کھنا بعید معلوم نھیں ھوتا، کیونکہ اس طرح کے حصر اور استنباط کرنا قوت بشر سے باھر ہے۔﴿١۰﴾
تحریر: محمد جان حیدری
منابع:
١۔ شرح نھج البلاغہ ج ۱ ص ۱۷۔
۲۔ شرح نھج البلاغہ ج ۱ ص ۱۸۔
۳۔ شرح نھج البلاغہ ج۱ ص ۱۸۔
۴۔ ارشاد مفید ج ۱ ص ۳۳۔
۵۔ ارشاد مفید ج۱ ص ۳۳۔
٦۔ بحارالانوار، مجلسی ص۴۰ ج۱۴۴۔
۷۔ الامام علی منتھی المال البشری ص۱۱۰۔
۸۔ امام علی منتھی کمال البشری عباس علی موسوی ص۱۰۹۔
۹۔ شرح نھج البلاغہ ابن حدید ج ۱ص۱۹۔
١۰۔ شرح نھج البلاغہ ابن حدید ج ۱ ص۲۰۔
حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام انسانیت کے معلم
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1416