روزہ اپنے احکام و قوانین کے اعتبار سے ایک طرف تطھیر جذبات اور تزکیہ نفس کی دعوت دیتا ہے اور دوسری طرف ماضی کی غلطیوں کے
سلسلہ میں احساس کو شدید تر بنا دیتا ہے۔ اور انسان باربار یہ خیال کرتا ہے کہ اگر ماضی کی خطاوں کا ازالہ نہ ھوا اور ان غلطیوں کی بخشش اور معافی کا بندوبست نہ کیا گیا تو صرف مستقبل کا پاکیزہ کردار کیا کر سکتا ہے اور اس طرح نفس کے اندر خود بخود توبہ و استغفار کا جذبہ بیدار ھوتا ہے۔ اور انسان جس طرح تعمیل احکام سے مستقبل کا انتظام کرتا ہے اسی طرح توبہ و استغفار سے ماضی کا بھی علاج کر لیتا ہے۔
توبہ و استغفار انسانی زندگی کی وہ عظیم ترین دولت ہے جس کے آثار دنیا میں بھی نظر آتے ہیں اور آخرت میں بھی۔ جناب نوح (ع) نے اپنی قوم سے صرف استغفار پر تمام نعمات دنیا کا وعدہ کر لیا تھا کہ استغفار سے بارش بھی ھو سکتی ہے۔ سبزہ بھی لھلھا سکتا ہے۔ اولاد بھی ھو سکتی ہے مال بھی فراھم ھو سکتا ہے اور آخرت میں خطائیں بھی معاف ھو سکتی ہیں۔
استغفار مالک کے مقابلہ میں اپنی کمتری کا احساس ہے اوریہ انسانی زندگی کی بھت بڑی دولت ہے جو متکبرین اور مستکبرین کو حاصل نھیں ھوتی ہے اور اس سے تمام نا اھل، غافل اور بے معرفت افراد محروم رھتے ہیں۔ استغفار کی لذت سے وھی افراد آشنا ھوتے ہیں جن کی نگاہ میں اپنی نیستی اور مالک کی ھستی ھوتی ہے۔ جنھیں یہ احساس رھتا ہے کہ ھم کچھ نھیں ہیں اور اگر کچھ ہیں تو وہ صرف مالک کے کرم کا نتیجہ ہے اور اس طرح ان کے استغفار میں اضافہ ھوتا جاتا ہے اور ان کا استغفار گناھوں کا انتظار نھیں کرتا ہے۔ گناھوں کے بعد استغفار کا پھلا محرک گناھوں کا خیال ھوتا ہے اس کے بعد مالک کا خیال پیدا ھوتا ہے۔ لیکن گناھوں کے بغیر استغفار صرف مالک کی عظمت و بزرگی کے احساس کا نتیجہ ھوتا ہے اور اس سے بلند تر کوئی انسان نھیں ہے جس کے ذھن میں گناہ کے بجائے مالک کی عظمت کا احساس رھے اور وہ اسی احساس کی بنیاد پر توبہ و استغفار کرتا رھے اور پھر مالک اسی استغفار کی برکت سے دنیا کو فیوض و برکات سے بھی نوازدے اور اسے حق شفاعت بھی دیدے کہ اگر وہ خود گنھگار نھیں ہے تو گنھگاروں کو بخشنے کی سفارش کر سکتا ہے اور اس کی سفارش قابل سماعت ھو گی کہ اس نے گناہ کے بغیر توبہ و استغفار کا سلسلہ قائم رکھا ہے اور مسلسل اپنے مالک کی عظمت و جلالت کی نگاہ میں رکھا ہے۔
ماخوذ از کتاب اصول و فروع علامہ جوادی