روزہ انسان کی قوت ارادی کو اس قدر مضبوط بنا دیتا ہے کہ انسان ترک لذات پر بھی آمادہ ھو جاتا ہے۔ اس انسان کے بارے میں کیا کھا جائے گا
جس کے سامنے حسین و جمیل عورت موجود ھو اس سے شرعی رشتہ بھی ھو ماحول بھی حسین و سازگار ھو۔ فطرت کا جذبہ بھی اندر سے ٹھوکے دے رھا ھو کسی طرح کی سماجی بدنامی یا پریشانی کا خطرہ بھی نہ ھو،مگر وہ صرف حکم خدا کی خاطر ھاتھ نہ بڑھائے اور اپنی فطری خواھش پر کنٹرول کر لے بلکہ اس نوجوان کے بارے میں کیا کھا جائے گا جس کے جذبات کو ماحول نے ابھار دیا ھو اور اس کے پاس تسکین جذبات کے بیرونی وسائل نہ ھوں وہ اپنے ھاتھوں اپنی تسکین نفس کا سامان کر سکتا ھو اور وہ خلوت بھی میسر ھو جھاں خودکاری کا عمل انجام دیا جا سکتا ھو۔ لیکن اپنے نفس پر کنٹرول کر لے اور ایسا کوئی عمل انجام نہ دے جس سے روزہ باطل ھو جاتا ہے۔ کیا اس کو روزہ کا فیض نہ کھا جائے گا کہ اس نے انسان میں ترک لذات کی وہ طاقت پیدا کر دی ہے کہ اب وہ کسی وقت بھی اس قسم کے جرائم سے محفوظ رہ سکتا ہے اور حکم الھی اسے ھر قسم کی برائی سے روک سکتا ہے۔
ماخوذ از کتاب اصول و فروع علامہ جوادی