www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

400601
بشری تاریخ میں رونما ھونے والے عظیم انقلابات اپنے معاشرے میں اندرونی سطح پر انتھائی گھرے اور بنیادی اثرات ڈالنے کے علاوہ عالمی سطح پر بھی بھت زیادہ موثر واقع ھوتے رھے ہیں۔
ایران میں رونما ھونے والا اسلامی انقلاب کا شمار بھی ایسے ھی انقلابات میں ھوتا ہے۔ دنیا کے معروف مفکرین اور ماھرین اس حقیقت کا اعتراف کرتے ھوئے نظر آتے ہیں کہ انقلابی اسلامی ایران اپنے دینی نقطہ نظر کے ذریعے عصر حاضر کی تاریخ کا موثر ترین اور اھم ترین انقلاب بن کر سامنے آیا ہے۔
انقلاب اسلامی ایران نے گذشتہ 37 برس کے دوران بین الاقوامی تعلقات (انٹرنیشنل ریلیشنز) پر گھرے اثرات ڈالے ہیں۔ ایران میں اسلامی انقلاب ایسے وقت کامیابی سے ھمکنار ھوا جب معروف مغربی فلاسفر نطشے یہ اعلان کر چکا تھا کہ (نعوذ باللہ) "خدا مر چکا ہے"۔ لبرل ازم اور مارکس ازم جیسے مکاتب فکر خالقیت اور قیامت دونوں کا انکار کر چکے تھے اور آسمان کو ٹھکرا کر زمینی جنت بسانے کی منصوبہ بندی کر رھے تھے۔ ان مغربی اور مشرقی مکاتب فکر نے جو تصور انسان کے بارے میں پیش کیا تھا اس کی بدولت انسان مادیات کے تنگ و تاریک قیدخانے میں محبوس ھو کر رہ گیا تھا۔ دین انسان کی سماجی زندگی سے رخصت ھو کر اس کی نجی زندگی تک محدود ھو چکا تھا اور دین کو ھر قسم کی طاقت اور اثرورسوخ سے محروم کر دیا گیا تھا۔
ایسے حالات میں امام خمینی رحمہ اللہ علیہ نے خدا کی رسی کو تھامتے ھوئے اور خداوند متعال کی لازوال طاقت پر توکل کرتے ھوئے خالص قسم کے سیکولر ماحول میں ایران میں جاری اسلامی جدوجھد کی قیادت سنبھالی اور دین اور خدا کے نام پر اسے عظیم فتح اور کامیابی سے ھمکنار کیا۔
یہ درحقیقت وہ عظیم خزانہ تھا جو مادیات سے بدحال اور درماندہ انسان کو حاصل ھوا۔ امام خمینی رحمہ اللہ علیہ کا عقیدہ تھا کہ نہ صرف ایرانی قوم بلکہ پورے بنی نوع انسان کی حقیقی سعادت اور فلاح و بھبود کا راز الھی شریعت اور روحانیت کا دامن تھامنے میں مضمر ہے۔
لھذا امام خمینی ﴿رح﴾ سابق سوویت یونین کے صدر گورباچوف کو لکھے گئے اپنے تاریخی خط میں یوں فرماتے ھوئے نظر آتے ہیں کہ: "جناب گورباچوف، آپ کو حقیقت کی جانب رجوع کرنا چاھئے۔ آپ کے ملک کا اصل مسئلہ ملکیت، اقتصاد اور آزادی نھیں بلکہ آپ کی اصل مشکل خدا پر حقیقی اعتقاد کا نہ ھونا ہے۔ یہ وھی مشکل ہے جس کے باعث مغربی دنیا بھی بیھودگی اور مایوسی کا شکار ھو چکی ہے۔ آپ کا اصل مسئلہ کائنات کے خالق یعنی خدا کے ساتھ ایک طویل اور بیھودہ جنگ ہے"۔
ایرانی قوم کی جدوجھد اور انقلابی تحریک دین کے نام سے شروع ھو کر کامیابی سے ھمکنار ھوئی اور دنیا بھر میں بے شمار دلوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں کامیاب رھی۔ امام خمینی رحمہ اللہ علیہ کا عظیم اور تاریخی کارنامہ یہ تھا کہ انھوں نے "دین کچھ کرنے کے قابل نھیں" پر مبنی طلسم توڑ ڈالا۔ اس زمانے میں اکثر جوان اور حتی اھم شخصیات دین سے مایوس ھو چکے تھے اور آزادی اور خودمختاری کے حصول کیلئے اپنی جدوجھد کیلئے دین کو بے سود سمجھتے تھے۔ انقلابی سوچ کے حامل اکثر جوان اپنی جدوجھد کی کامیابی کیلئے مارکس ازم کا دامن تھامنے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ البتہ ان میں سے بعض اپنی کامیابی لبرل ازم کی پیروی میں تلاش کر رھے تھے۔ ایسے افراد کی تعداد بھت کم تھی جو یہ سمجھتے تھے کہ اسلام بھی ظلم اور طاغوت سے مقابلے کا دین ہے اور اسلام بھی ترقی اور دنیوی فلاح و بھبود کا راستہ دکھا سکتا ہے۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی سے یہ تصور ٹوٹ گیا اور انقلابات سے متعلق نظریات میں بھی ایک انقلاب معرض وجود میں آ گیا۔ انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد دنیا میں انقلاب سے متعلق جدید نظریات سامنے آنا شروع ھو گئے۔
بعض کا تصور ہے کہ امام خمینی رحمہ اللہ علیہ ابتدا میں اسلامی حکومت کی تشکیل کا ارادہ نھیں رکھتے تھے اور حکمفرما پھلوی سلطنت میں محض کچھ اصلاحات لانے پر ھی قانع نظر آتے تھے لیکن جب امام خمینی ﴿رح﴾ نجف تشریف لے گئے تو ان کے ذھن میں اسلامی حکومت کی تشکیل کا نظریہ پیدا ھوا۔ لیکن یہ تصور درست نھیں اور اس مختصر تحریر میں ھم اس بحث میں داخل نھیں ھونا چاھتے بلکہ اسے ثابت کرنے کیلئے علیحدہ اور مفصل تحریر کی ضرورت ہے۔
امام خمینی رحمہ اللہ کا کارنامہ یہ تھا کہ انھوں نے عصر حاضر کے انسان کے سامنے ایک واضح اور روشن راستہ پیش کیا جو دین کی جانب پلٹنے اور خدا سے قربتیں بڑھانے پر مبنی تھا۔ اس وقت ھمارے سامنے بڑا چیلنج یہ ہے کہ اسلامی حکومت دینی تعلیمات کے سائے تلے انسانوں کی دنیوی مشکلات کو بھی بخوبی حل کرے اور یہ دینی شفایاب نسخہ انسانی معاشروں کو اس بیھودگی اور مایوسی سے نکال باھر کرے جو مغرب کے خودساختہ زمینی پیغمبروں (فلاسفرز) نے سماج سے دین کو ختم کر کے پیدا کی ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ھم کس قدر دین کی عطا کردہ حیات طیبہ کو حقیقت کا روپ دینے میں کامیاب ھوتے ہیں۔ بعض اوقات انقلاب اسلامی ایران پر غیرموثر یا بے فائدہ ھونے کے الزامات عائد کئے جاتے ہیں لیکن ان میں کوئی حقیقت نھیں۔ کوئی بھی سیاسی نظام حکومت بے فائدہ ھونے کی صورت میں اپنا وجود اور بقا برقرار نھیں رکھ سکتا جبکہ ھم دیکھ رھے ہیں کہ گذشتہ چار عشروں سے اسلامی جمھوریہ نظام حکومت بھرپور انداز میں باقی ہے اور نہ صرف خطے بلکہ عالمی سطح پر انتھائی بنیادی اور گھرے اثرات ڈال رھا ہے۔
تحریر: وحید جلال زادہ

Add comment


Security code
Refresh