www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

600602
فروری 1979ء میں امام خمینی﴿رہ﴾ کی قیادت میں ایران میں جو انقلاب برپا ھوا، اس کے ثمرات و نتائج پر گفتگو کا سلسلہ جاری رھتا ہے اور شاید طویل عرصے تک اس کے مختلف پھلوؤں پر بات ھوتی رھے۔ ھم آج اس کے بعض روحانی اور معنوی پھلوؤں پر بات کریں گے۔
انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی سے پھلے دنیا دو قطبی کھلاتی تھی، ایک سرمایہ داری کا قطب اور دوسرا اشتراکیت کا۔ یہ سمجھا جاتا تھا کہ دنیا کی ھر حکومت اور ریاست کے لئے کسی نہ کسی قطب کے ساتھ وابستہ ھونے میں ھی عافیت ہے۔
یہ دونوں نظریئے کائنات کی مادی شناخت پر استوار تھے اور ہیں، جبکہ انقلاب اسلامی کی قیادت کائنات کی روحانی شناخت کی علمبردار تھی۔ اس لئے اس انقلاب کا جب بھی جائزہ لیا جائے گا، اس کے لئے اس پھلو کے حوالے سے بات کرنا ناگزیر ھوگا۔ ایک عرصے بعد دنیا نے دیکھا کہ کسی حکومت یا ریاست کے بنیادی ذمہ دار اھل علم ہیں۔ جھاں تک امام خمینی﴿رہ﴾ کے اپنے مرتبۂ علمی کا تعلق ہے تو اس سے کسی کو انکار نھیں ھوسکتا، تاھم وہ جس گروہ کے ساتھ پھچانے گئے، اس کے تمام اراکین بھی بلند مرتبہ علمی کمالات کے حامل تھے۔ پھلی شوریٰ انقلاب جو پانچ اور بعدازاں چھ اراکین پر مشتمل تھی، عالی مرتبہ اھل علم پر مشتمل تھی۔
ان میں سے استاد شھید مطھری کا نام آج علمی دنیا میں جو مقام رکھتا ہے، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نھیں۔ انھوں نے عصری زبان میں دین کے حقائق کو اس انداز سے پیش کیا ہے کہ جس نے دین کے ساتھ نوجوان تعلیم یافتہ نسل کو مضبوطی سے جوڑ دیا ہے اور ان کی تشنگی کو سیراب کر دیا ہے۔ ان کے آثارِ علمی آج بھی یہ کرامات کئے چلے جا رھے ہیں۔
دوسرا اھم نام آیت اللہ منتظری کا ہے، جو اگرچہ بعض وجوہ سے سیاسی منظر نامے سے پیچھے چلے گئے، لیکن ان کے علمی مرتبے سے آج بھی کسی کو انکار نھیں اور ان کے آثار علمی سے مسلسل کسب فیض کیا جاتا ہے۔ انھیں ھمیشہ ایک روشن فکر فقیہ کی حیثیت سے یاد کیا جاتا رھے گا۔
تیسری شخصیت آیت اللہ موسوی اردبیلی کی ہے، جو امام خمینی﴿رہ﴾ کی زندگی میں چیف جسٹس کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رھے اور کچھ عرصہ پھلے اپنی وفات تک قم کے مرکز علم میں درس اجتھاد و فقاھت کے اعلٰی ترین منصب پر فائز رھے۔
چوتھی شخصیت حال ھی میں وفات پا جانے والے آیت اللہ ھاشمی رفسنجانی بھی اعلٰی درجے کے روشن فکر فقیہ، مفسر قرآن اور مدیر و مدبر کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔ انھوں نے شاہ کے زمانے میں زندان میں رہ کر قرآن حکیم کی ایک منفرد تفسیر لکھی، جو تقریباً دس ھزار صفحات پر مشتمل ہے۔
پانچویں شخصیت جو قابل فخر نام آیت اللہ ڈاکٹر محمد حسین بھشتی کا ہے، جو فقیہ بھی تھے اور سیاست عالم کو جاننے والے بلند مرتبہ مدیر بھی۔
چھٹا نام آیت اللہ سید علی خامنہ ای کا ہے، جو اس وقت ایران کے روحانی پیشوا کی حیثیت سے پوری دنیا کو اپنی روحانی سیادت اور منفرد طرز سیادت سے ورطۂ حیرت میں ڈالے ھوئے ہیں۔
یہ تو انقلاب اسلامی کی پھلی شوریٰ کے چند اراکین کا مختصر سا تعارف ہے، اگر انقلاب کی کامیابی کے بعد سے منتخب ھونے والی ایرانی پارلیمان پر نظر ڈالی جائے تو اعلٰی جدید تعلیم یافتہ افراد اور دینی تعلیم سے آراستہ علماء و فضلا کی ایک کھکشاں ھر دور میں دکھائی دے گی۔ اس کا تقابل ایران کے ماضی سے کیا جائے یا عالم اسلام کی موجودہ پارلیمانوں سے، تو یہ سب میں نمایاں دکھائی دے گی۔ بیک وقت سینکڑوں پی ایچ ڈی اسکالرز اور فقھا پر مشتمل یہ اسمبلیاں اس انقلاب اسلامی ھی کا ثمرہ ہیں، جو امام خمینی﴿رہ﴾ کی قیادت میں منصۂ شھود پر آیا۔ یھی حال ایران کی منتخب کابیناؤں کا رھا ہے۔ تمام شعبوں میں منتخب وزراء اپنے اپنے شعبوں میں تعلیم و صلاحیت کے لحاظ سے اپنے آپ کو پارلیمان میں اھل ثابت نہ کریں تو انھیں اعتماد کا ووٹ ھی حاصل نھیں ھوتا۔
انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد سے تمام منتخب صدور علماء و فقھا میں سے تھے یا اساتذہ و معلمین میں سے۔ جب حکومت کی سطح پر یہ عالم ھو تو اس کے اثرات پورے معاشرے کی علمی اور روحانی پیشرفت پر جس قدر مرتب ھوسکتے ہیں، اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
روحانی نقطۂ نظر سے ایک سرسری جائزہ لیا جائے تو یہ دکھائی دے گا کہ ایران میں جس شکوہ و عظمت کے ساتھ نماز جمعہ کا قیام انقلاب کی کامیابی کے بعد ھوا، اس کا ماقبل کی تاریخ میں دور دور تک نشان نھیں ملتا۔ جب نماز پڑھانے کے لئے ملک کے اعلٰی ترین منصب پر موجود افراد آتے ھوں تو اس کی تاثیر عوام تک پھنچنا اچنبھے کی بات نھیں۔
تھران کی نماز جمعہ عالمی سطح پر شھرت رکھتی ہے اور یھاں دیئے جانے والے خطبے کی بازگشت پوری دنیا میں سنائی دیتی ہے۔ ایران کی مسجدوں میں جو رونق انقلاب اسلامی کے بعد دیکھی گئی، وہ واقعاً حیران کن ہے۔ اس کی بنیادی وجہ وہ روحانی تربیت ہے، جو انقلاب اور اس کی قیادت کی مرھون منت ہے۔ ایران میں دعا و مناجات کی عوامی ثقافت کا احیاء بھی انقلاب اسلامی کے پاکیزہ ثمرات میں سے ہے۔ پورے ملک میں ھر شب جمعہ تمام چھوٹے بڑے شھروں میں دعا و مناجات کے وسیع عوامی اجتماعات منعقد ھوتے ہیں اور ایک روحانی کیفیت ہے کہ پوری ملک پر چھائی ھوتی ہے۔ دعا و مناجات پر جس قدر کتب اور لٹریچر انقلاب اسلامی کے بعد شائع ھوا ہے، پورے عالم اسلام میں مجموعی طور پر شائع ھونے والا لٹریچر اس کا مقابلہ نھیں کرسکتا۔
کبھی وہ دور تھا کہ آیت اللہ استادشھید مرتضٰی مطھری نے اپنے ایک لیکچر میں پاکستان میں حفظ و قرأت کی طرف توجہ کو اپنے عوام کے لئے نمونے کے طور پر ذکر کیا تھا، لیکن آج ایرانی قاریان قرآن پوری دنیا سے داد و تحسین اور امتیازات و تمغات سمیٹ کر اپنے ملک میں واپس جاتے ہیں۔ حفظ و قرأت کے جتنے چھوٹے بڑے ادارے اس وقت ایران میں کام کر رھے ہیں، شاید ان کی تعداد لاکھوں میں ھو۔ اس کی ایک بنیادی وجہ قرأت کی وہ محفلیں ہیں، جن میں خود ایران کے روحانی پیشوا شریک ھوتے ہیں اور دیر تک پوری کیفیت کے ساتھ ان میں موجود رھتے ہیں۔ ایران کے ذرائع ابلاغ بھی علم و فضل اور روحانیت کے فروغ میں بھت اھم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان روحانی محفلوں کو خوبصورت انداز سے عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ ان شعبوں میں کامیاب افراد کو ھیرو بنا کر عوام کے سامنے لاتے ہیں اور عوام کے اندر ان شعبوں کے لئے ایک شوق و شغف بیدار کرتے ہیں۔ علوم اسلامی کے مختلف شعبوں میں پیشرفت کا اندازہ ھی نھیں کیا جاسکتا۔ سینکڑوں موضوعات پر دائرۃ المعارف مرتب ھوچکے ہیں اور یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ موضوعی حوالے سے نئی دانشگاہیں معرض وجود میں آرھی ہیں۔ عصری دانشگاھوں نے بھی حیران کن ترقی کی ہے، سائنس اور طب کے تمام شعبوں میں ترقی کے نئے زینے طے کئے جا رھے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ھم ان تمام شعبوں میں ھونے والی ترقی اور پیشرفت سے اپنے عوام کو آگاہ کریں، تاکہ وہ اپنے ملک اور معاشرے میں ترقی کے لئے اس سے ایک سبق حاصل کرسکیں۔
تحریر: ثاقب اکبر

Add comment


Security code
Refresh