مھدویت کا نظریہ تمام ادیان میں پایا جاتا ہے، خواہ وہ الٰھی ادیان ھوں جیسے اسلام، مسیحیت، یھودیت یا غیر الٰھی جیسے بودیزم، صابئین وغیرہ۔ ان سب نے آخری زمانے میں ایک مصلح کے ظھور کرنے کی خبر دی ہے اور ان تمام مکاتب فکر کے پیروکار اسی پر اپنا عقیدہ بھی رکھتے ہیں۔
درحقیقت یہ تمام انسانوں کی ایک فطری خواھش ہے کہ دنیا سے ظلم و بربریت کا خاتمہ ھو، تبعیض کی دیواریں منھدم ھوں اور پوری دنیا میں عدالت کا راج ھو۔ اسی فطری آواز کی تائید تمام آسمانی کتابوں نے بھی کی ہے اور اس کی کافی تاکید ھوئی ہے کہ اللہ تعالٰی کائنات کو ظلم، شرک اور بت پرستی سے نجات دے کر پاک کرے گا اور اپنے پاکیزہ اور صالح بندوں کو زمین کا وارث قرار دے گا۔
غرض سارے انسان اس دن کے منتظر ہیں کہ جس دن منجی ظاھر ھوں گے، ظلم و ستم کی دیواروں کو وہ منھدم کریں گے اور عدل و انصاف کا ایک عالمی نظام نافذ کریں گے، لیکن انسانی معاشرے میں مختلف افکار و اعتقادات رکھنے والے افراد کے ھونے کے باعث ھر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے اپنے عقیدے سے مطابقت رکھنے والی خاص خصوصیات کے ساتھ ان کے ظھور کی خوشخبری دی ہے۔(1﴾
لیکن اسلام جو فطرت انسانی کے عین مطابق ایک جامع نظام حیات اور تمام الٰھی شریعتوں کے نچوڑ کا نام ہے، اس حوالے سے خاص اھتمام کیا ہے، اھل سنت میں سے 120 سے زائد قدیم و جدید برجستہ علماء نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ شیعوں کے گیارھویں امام حضرت امام حسن العسکریؑ کے ھاں "ابوالقاسم محمد بن الحسن" نامی ایک بیٹا ھوا، ان کا لقب حجت، قائم، خلف صالح، منتظر اور مھدی ہیں، ساتھ ھی ان سب نے صراحت یا اجمال کے ساتھ اس حقیقت کا بھی اعتراف کیا ہے کہ یھی اسلام کی نظر میں جو مھدی موعود ہے اس کا مصداق ہے، پیغمبر اکرمؐ نے بھی خبر دی ہے کہ مھدیؑ ظھور کرکے اس دنیا کو بحرانی حالت سے نکال کر وہ ایک عالمگیر حکومت قائم کریں گے۔(2﴾
ھم یھاں اس حوالے سے اھل سنت کے چار مشھور فرقوں کے علماء میں سے بعض برجستہ شخصیات کے اقوال کو ذکر کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:
شافعی علماء کی نظر میں امام مھدیؑ:
بعض شافعی علماء امام مھدیؑ کی خصوصیات کے حوالے سے شیعوں کے ھم عقیدہ ہیں۔
کمال الدین محمد بن طلحہ شافعی (متوفی قرن ھفتم ھجری):
انھوں نے "مطالب السوال فی مناقب آل الرسول" کے آخری باب کو امام مھدیؑ سے مختص کیا ہے، ان کا اعتقاد ہے کہ امام مھدی امام حسن العسکریؑ کے فرزند ارجمند ہیں اور اب بھی قید حیات میں ہیں۔ اپنے اس مدعا کو ثابت کرنے کے لئے انھوں نے یھاں اھل سنت منابع سے متعدد روایات کو ذکر کرنے کے علاوہ مھدویت کے حوالے سے بعض شبھات کا جواب بھی دیا ہے۔
کنجی شافعی (متوفی قرن ھفتم ھجری) نے بھی اسی نظریئے کو اپنی کتاب "البیان فی اخبار صاحب الزمان " میں بیان کیا ہے، ساتھ ھی ان کا کھنا ہے کہ میں نے اس کتاب کی جمع آوری میں شیعہ روایات کو نقل کرنے سے اجتناب کیا ہے، خواہ ان کی سند صحیح ھی کیوں نہ ھو، یہ صرف ان کے لئے مفید ہے اور غیر شیعہ روایات سے استدلال اس مسئلے کی اھمیت کو زیادہ اجاگر کرتا ہے۔
ان کا کھنا ہے: مھدیؑ کے باقی ھونے میں کوئی ممنوعیت نھیں ہے کیونکہ اولیاء خدا میں سے عیسٰیؑ، الیاسؑ اور خضر زندہ ہیں، ساتھ ھی دشمنان خدا ھونے کے باوجود شیطان اور دجال بھی زندہ ہیں، ان کا زندہ ھونا قرآن و سنت سے ثابت ہے، جب ان کے حوالے سے سب کا اجماع ہے، لھذا امام مھدیؑ کا بھی طولانی مدت تک زندہ رھنا بھی کوئی بعید نھیں ہے۔
﴿اسماعیل بن کثیر 774ھجری):
انھوں نے اپنی کتاب "النھایہ فی الفتن و الملاحم" میں ایک باب "فصل فی ذکر المھدی الذی یکون فی آخر الزمان" کھولا ہے، اس فصل کی ابتداء میں وہ لکھتے ہیں: مھدیؑ خلفاء راشدین اور ھدایت کرنے والے اماموں میں سے ھوگا، رسول خداؐ سے ان کے بارے میں روایات منقول ہیں، ان روایات کی صراحت یہ ہے کہ حضرت آخرالزمان میں آئیں گے اور میری نظر میں ان کا ظھور عیسٰیؑ کی آمد سے پھلے ھوگا، مھدی موعود رسول خدا کی ذریت سے فاطمہ زھراؑ کی اولاد میں سے ھوں گے۔
سعدالدین تفتازانی (متوفی793ھجری):
انھوں نے اپنی کتاب "شرح المقاصد" کی بحث امامت میں امام مہدیؑ کے ظہور کو موضوع بحث قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے: صحیح (السند) روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ فاطمہؑ کی نسل سے ایک پیشوا ظہور کریں گے، وہ دنیا کو ظلم و جور سے بھر جانے کے بعد عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔
جلال الدین سیوطی (متوفی911ھجری) یہ اھل سنت کے بارز اھل قلم علماء میں سے ہیں، اس نے تفسیر، حدیث اور علوم قرآنی جیسے مختلف موضوعات پر قلم فرسائی کی ہے۔ ان کا کھنا ہے کہ مھدیؑ ان بارہ خلیفوں میں سے ایک ہیں، جن کا نام جابری سمرہ کی حدیث میں آیا ہے۔ مھدی عباس بن عبدالمطلب کے بیٹوں میں سے ایک نھیں ھوسکتے، "لامھدی الا عیسی بن مریم" والی حدیث ضعیف ہے کیونکہ مھدی کے ظھور پر متواتر روایات دلالت کرتی ہیں اور وہ رسول خدا کے فرزندوں میں سے ھوں گے اور عیسٰی ان کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔
ابن حجر ھیتمی (متوفی974ھجری) نے اپنی کتاب"الصواعق المحرقہ" میں فضائل اہل بیت سے متعلق بارھویں آیت کو نقل کرنے کے بعد امام مھدیؑ سے مربوط روایات کو کافی تفصیل کے ساتھ اھل سنت منابع سے ذکر کرنے کے بعد ان کا کھنا ہے:
بھترین قول یہ ہے کہ مھدیؑ کا خروج عیسٰیؑ کے ظھور سے پھلے ھوگا، البتہ بعض نے ان کے بعد کا بھی ذکر کیا ہے۔ ابوالحسن آبری کا کھنا ہے: مھدیؑ کے ظھور سے متعلق جو روایات رسول خداؐ سے نقل ھوئی ہیں وہ متواتر و مستفیض ہیں، ان کی دلالت یہ ہے کہ ان کا تعلق پیغمبر اکرمؐ کی اھل بیت سے ھوگا، وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے، عیسٰیؑ کے ساتھ خروج کریں گے اور وہ دجال کو "لد" فلسطین میں قتل کرنے کے لئے عیسٰی کی مدد کریں گے، وہ اس امت کے امام ھوں گے اور عیسٰیؑ ان کی اقتداء میں نماز پڑھیں گے۔
ابن حجر نے ابی القاسم محمد الحجہ کے حالات کو یوں ذکر کیا ہے: ان کے والد (گرامی) کی وفات کے وقت ان کی عمر پانچ سال تھی، اسی عمر میں اللہ تعالٰی نے انھیں حکمت عطا کی تھی۔
حنبلی علماء کی نظر میں امام مھدیؑ:
امام احمد بن حنبل (متوفی241ھجری) یہ حنبلی مذھب کے سربراہ ہیں اور ان کے سب سے قدیمی اور مفصل حدیثی کتاب کے مؤلف بھی ہیں۔
انھوں نے اس حدیثی مجموعے میں امام مھدیؑ کے حوالے سے متعدد روایات نقل کی ہیں، بعد میں ان احادیث کو الگ سے ایک کتابی صورت دی گئی ہے، "احادیث المھدی من مسند احمد بن حنبل" کے یہ عنوان سے یہ کتاب چھپی ہے۔ اس کتاب میں 136 احادیث کو مسند احمد سے استخراج کیا گیا ہے اور ان کو چند ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے، اس میں امامؑ کے ظھور کی نشانیاں، ظھور کا وقت اور اس وقت کی وضعیت کو زیر بحث لایا گیا ہے۔
ابن تیم جوزیہ حنبلی (متوفی 751ھجری):
یہ اھل سنت کے مشھور اھل قلم میں سے ہیں، انھوں نے اپنی کتاب "المنار المنیف فی الصحیح و الضعیف" کی پانچویں فصل کو امام مھدیؑ سے متعلق بحث سے مختص کیا ہے۔
ان کا کھنا ہے کہ اس حوالے سے (روایات میں) تواتر پایا جاتا ہے کہ حضرت کا تعلق سے اھل بیت رسول خداؐ سے ہے، ظھور کے وقت عیسٰیؑ بھی آئیں گے اور ان کی اقتدا میں نماز پڑھیں گے۔
یحیی بن محمد حنبلی (متوفی قرن دھم):
اس نے مھدویت کے کسی مدعی اور اصل مھدویت کے منکروں کے جواب میں یوں لکھا ہے: تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں، جس نے اپنے اذن سے اس مورد میں حق کی طرف ھماری ھدایت فرمائی، جس میں لوگ اختلاف میں پڑے تھے، مذکورہ عقیدہ بغیر کسی شک و شبہ کے باطل ہے، کیونکہ اس کا لازمہ پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے جو صحیح روایات آئی ہیں، ان سب کو رد کرنا ہے، ان روایات میں مھدیؑ کے آخری زمانے میں ظھور کی خبر دی گئی ہے، ساتھ ھی ان کی انفرادی خصوصیات اور ظھور کے وقت پیش آنے والے واقعات کا بھی ذکر کیا گیا ہے، مھدیؑ کے ظھور کی مھم ترین علامات میں سے ایک کہ جس کا کوئی اور ادعا بھی نھیں کرسکتا یہ ہے کہ حضرت عیسٰیؑ آسمان سے اتر آئیں گے اور امام مھدیؑ کے پھلو میں ان کی اقتدا میں نماز پڑھیں گے۔ اسی طرح دجال خروج کرے گا اور وہ مارا جائے گا، جو مھدی موعودؑ کی تکذیب کرے تو ایسے شخص کے کافر ھونے کے حوالے سے رسول خداؐ نے خبر دے رکھی ہے۔
حنفی علماء کی نظر میں امام مھدیؑ:
بعض حنفی علماء اور اھل قلم نے بھی مھدویت اور مھدی آخرالزمان پر اعتقاد کے حوالے سے بھترین اور باارزش آثار تحریر کئے ہیں، بعض موارد میں امام مھدی کے ظھور پر اعتقاد کے علاوہ شیعوں کی مانند ان کے زندہ ھونے پر بھی اعتقاد رکھنے کا تذکرہ کیا ہے۔ یھاں بعض علماء کا تذکرہ کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں:
ابن جوزی (متوفی650ھجری):
اس نے اپنی مشھور کتاب "تذکرۃ خواص الامۃ فی خصائص الائمہ علیھم السلام" میں الگ ایک فصل امام مھدی سے مختص کیا ہے اور مختلف جھات سے اس میں بحث کی گئی ہے، اس فصل کی ابتدا میں امام کا سلسلہ نسب بیان کرنے کے بعد اھل سنت منابع سے امام مھدیؑ کے حوالے سے روایات کو ذکر کیا ہے، پھر امام مھدی کے زندہ ھونے پر شیعہ نظریئے اور دلائل کو بیان کرنے کے بعد اسے منطقی اور قابل قبول قرار دیا ہے۔
ابن طولون دمشقی (متوفی935ھجری):
یہ حدیث، فقہ اور تاریخ میں صاحب نظر شمار ھوتے ہیں، انھوں نے بھی مختلف موضوعات پر قلم فرسائی کی ہے، ان کی ایک کتاب "الائمہ الاشاعہ" ہے، اس کا ایک حصہ انھوں نے "الحجۃ المھدی" سے مختص کیا ہے، یھاں انھوں نے امام مھدیؑ کے حوالے سے بحث میں امام مھدیؑ کی ولادت اور آپ کے زندہ ھونے کا تذکرہ بھی کیا ہے۔
عبدالوھاب شعرانی (متوفی973ھجری):
یہ اپنی کتاب "الیواقیت و الجواھر" میں امام مھدی کے حوالے سے یوں رقمطراز ہیں: وہ (امام مھدیؑ) امام عسکریؑ کے بیٹوں میں سے ہیں، ان کی ولادت نیمہ شعبان 255 ھجری کو ھوئی اور وہ عیسٰیؑ کی آمد تک زندہ رھیں گے۔
سلیمان بن ابراھیم قندوزی (متوفی1294ھجری):
انھوں نے اپنی مشھور کتاب "ینابیع المودۃ" کو اھل بیتؑ کے فضائل کے بیان سے مختص کیا ہے، اس کا زیادہ تر حصہ امام مھدیؑ سے مربوط ابحاث پر مشتمل ہے، اس کتاب میں انھوں نے ان آیات کا بھی تذکرہ کیا ہے جن کی تاویل و تفسیر امام مھدیؑ سے مختص ہیں، علاوہ ازیں ان کے حوالے سے بھت ساری روایات کو مختلف منابع سے نقل کیا ہے، ساتھ ھی وہ روایات جن میں بارہ خلیفوں کا تذکرہ آیا ہے اور ان کے بارے میں جو تفصیلات بیان ھوئی ہیں، ان کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ موصوف نے اسی کتاب کے ایک اور باب میں امام سے جو خارق العادہ امور انجام پائے ہیں، ان کا تذکرہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان افراد کا بھی ذکر کیا ہے،جنھوں نے غیبت کے زمانے میں امام مھدی سے ملاقات کی ہے۔
ابوالبرکات آلوسی (متوفی1371ھجری):
انھوں نے اپنی کتاب "غایۃ المواعظ" میں قیامت واقع ھونے کی نشانیوں میں امام مھدی کے ظھور کو بھی ذکر کیا ہے۔ ان کا کھنا ہے کہ اکثر علماء اور دانشوروں کے نزدیک صحیح قول یہ ہے کہ امام مھدیؑ کا ظھور و خروج بھی ان نشانیوں میں سے ہیں۔
امام مھدیؑ مالکیوں کی نگاہ میں:
اس فرقے کے علماء نے بھی دوسرے مذاھب کے علماء کی مانند ظھور و فرج امام مھدی کو اپنے اعتقادات کا حصہ قرار دیا ہے، ساتھ ھی اس بات پر بھی تاکید کی گئی ہے کہ یہ حقیقت و واقعیت تحریروں اور آثار میں مکمل طور پر نمایاں ہیں۔
قرطبی مالکی (متوفی671ھجری):
ان کا شمار مشھور اھل سنت علماء اور اھل قلم میں ھوتا ہے، ان کی بھت ساری کتابیں ہیں، ان میں سے ایک "التذکرۃ فی احوال الموتی و امور الآخرۃ" ہے اس کتاب میں انھوں نے چند ابواب کو امام مھدیؑ سے مختص کیا ہے۔
انھوں نے اھل سنت منابع سے متعدد روایات کو امام مھدیؑ کے حوالے سے ذکر کیا ہے، ان احادیث میں سے بعض کی وضاحت میں انھوں نے خود بھی امام مھدی سے مربوط کچھ مطالب ذکر کئے ہیں۔
انھوں نے سورہ توبہ کی تینتیسویں آیت جس میں اللہ تعالٰی نے دین اسلام کے غلبے کا وعدہ دیا ہے، کی تفسیر میں اس زمانے کو امام زمانؑ کے ظھور کے زمانے سے تطبیق دی ہے۔
ابن صباغ مالکی (متوفی855ہجری): یہ اپنے زمانے کے مالکی فرقے کے بزرگ علماء میں سے ہیں۔ ان کی ایک کتاب "الفصول المھمۃ فی معرفۃ احوال" میں امام مھدیؑ کی شخصیت، ان کے ظھور کی کیفیت، ان کی تشکیل حکومت کا ذکر کرنے کے بعد ایسی شخصیت کی آمد کے حوالے سے تمام اسلامی مذاھب کے پیروکاروں کے معتقد ھونے کا ذکر کیا گیا ہے۔
اس کتاب کی بارھویں فصل میں انھوں نے امام کی شرح حال، ان کی خصوصیات کا تذکرہ کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف مباحث من جملہ امام مھدی کے حوالے سے متعدد احادیث ذکر کی ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ بھی امام مھدیؑ کی ولادت باسعادت اور ان کے قید حیات میں ھونے کے معتقد ہیں۔
شیخ محمد الصبان (متوفی1307ھجری):
انھوں نے اپنی کتاب "اسعاف الراغبین" میں ایک باب امام مھدی سے مختص کیا ہے۔ اس میں انھوں نے امام کا نسب، محل ظھور اور ظھور کی نشانیوں کا تذکرہ کیا ہے، اس حوالے سے مختلف روایات کو ذکر کرنے کے علاوہ ان مطالب کی تائید میں محی الدین عربی اور شعرانی جیسے بزرگ علماء سے مختلف مطالب ذکر کئے ہیں۔
محمد بن جعفر بن ادریس الکتانی المالکی (متوفی1345ھجری):
اپنی کتاب "نظم المتناثر من الحدیث المتواتر" جس میں متواتر احادیث کو جمع کیا گیا ہے، امام مھدیؑ سے مربوط روایات کو بھی متواتر احادیث میں سے قرار دینے کے علاوہ مشھور و معروف اھل سنت دانشوروں کے حوالوں کے ساتھ اس کی تائید بھی لائے ہیں، علاوہ ازیں وہ یہ بھی اعتقاد رکھتے ہیں کہ امام مھدیؑ کی آمد اور ظھور ان احادیث کی بنیاد پر واضح اور بدیھی ہے، ساتھ ھی جو وعدے ان روایات میں دیئے گئے ہیں، وہ بھی بدیہی حتمی ہیں۔(3﴾
ابن ابی ثلج بغدادی (326) کا کھنا ہے: محمد بن الحسن کی ولادت کے وقت حضرت عسکری نے فرمایا: دشمن مجھے قتل کرنے کے درپے تھے، تاکہ ھماری نسل ختم کرے، لیکن انھوں نے خدا کی طاقت کا مشاھدہ کیا اور اسے (امام مھدی کو) امید انسانیت قرار دیا۔ ائمہ کی مائیں والی فصل میں ان کا کھنا ہے کہ قائم کی ماں حکیمہ ہے، جسے نرجس اور سوسن کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ اس کے بعد لکھتے ہیں، محمد بن ھمام نے کھا: حکیمہ حضرت عسکری کی پھوپھی ہیں، اسی نے ھی صاحب الزمان کی ولادت کو نقل کیا ہے، ساتھ ھی اسی نے نقل کیا ہے کہ ان کی ماں "نرجس" ہے۔
علی بن حسین مسعودی (346م) کا کھنا ہے: ابو محمد حسن بن علی...بن حسین بن علی بن ابیطالب 260 ھجری کو خلافت معتمد کے زمانے میں 29 سال کی عمر میں وفات پاگئے، یھی مھدی منتظر، امامیہ کے بارھویں امام کے والد ہیں۔ ابوبکر خوارزمی (383م) نے اپنی کتاب مفاتیح العلوم میں امامیہ کے نزدیک ائمہ کی صفات کے باب میں لکھا ہے کہ علی مرتضٰی، حسن مجتبٰی، حسین سید الشھداء...حسن العسکری، محمد مھدی القائم المنتظر، شیعوں کے نزدیک نہ یہ مرا ہے اور نہ مرے گا، یھاں تک کہ یہ زمین کو ظلم وجور سے بھر جانے کے بعد عدل و انصاف سے بھر دے گا۔(4﴾
ان کے علاوہ عصر حاضر کے مشھور دانشور شیخ منصور علی ناصف جامعۃ الاظھر مصر نے "التاج" نامی کتاب میں اھلسنت کے صحاح ستہ کی روایات کی جمع آوری کی ہے، اس کتاب پر مصر کے صف اول کے پانچ علماء نے تقریظ بھی لکھی ہے اور غایۃ المامول کے نام سے اس کی شرح کو بھی ساتھ ذکر کیا ہے۔ اس کتاب کی پانچویں جلد میں صحاح ستہ میں امام زمان سے مربوط معتبر روایات کو اس عنوان کے ساتھ ذکر کیا ہے: "ساتویں فصل خلیفہ مھدی رضی اللہ عنہ کے بارے میں" اس کے بعد ان روایات کی شرح اس نے یوں کی ہے: گذشتہ اور موجودہ اھل سنت علماء کے ھاں یہ بات مشھور ہے کہ آخری زمانے میں سلالہ پیغمبر سے ایک ھستی "مھدی" کے نام سے ظھور کرے گی، اسلامی ممالک پر وہ مسلط ھوں گے، مسلمانوں کو چاھئے کہ ان کی پیروی کریں۔ مھدی لوگوں کے درمیان عدالت برقرار کریں گے اور دین اسلام کی حمایت کریں گے۔ ان کے ظھور کے بعد دجال بھی ظاھر ھوگا، عیسی ابن مریم آسمان سے اتر کر اسے قتل کرے گا، یا وہ مھدی کی مدد سے اسے قتل کرے گا۔
مھدی سے مربوط احادیث کو پیغمبر اکرمؐ کے برگزیدہ اصحاب میں سے ایک گروہ نے نقل کیا ہے، اور ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ، طبرانی، ابو یعلی، بزاز، امام احمد(بن حنبل) و حاکم (نیشاپوری) رضی اللہ عنھم اجمعین جیسے بڑے بڑے محدثین نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔(5﴾
غرض مھدویت ایک عالمگیر نظریہ ہے، بالخصوص تمام اسلامی مکاتب فکر میں یہ اعتقاد پایا جاتا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کی نسل سے ایک باعظمت ھستی نے آکر ظلم و جور کو عدل و انصاف میں بدل کر فطرت انسانی کے عین مطابق ایک خدائی نظام نافذ کرے گا، علماء قدیم و جدید میں سے تمام بڑے علماء نے اسے اپنے اعتقاد کا حصہ قرار دیا ہے، آج کے دور میں اگر کوئی مھدویت کا انکار کرے تو گویا اس کا اسلام سے کوئی تعلق ھی نھیں، ایسا شخص امام مھدی کے منکر ھونے کے ساتھ ساتھ تمام علماء و اسلاف کو جھٹلانے والا ھوگا۔
حوالہ
1۔ العھدالعتیق،ج5، ص92،انجیل لوقا، باب21، ناقل حضرت مھدی در روایات شیعہ و سنی، احمد علی طاھری ورسی، ص13۔
2۔ دانشمندان عامہ و مھدی موعود، علی دوانی، ص2۔
3۔ امام مھدی علیہ السلام در مذاھب چھارگانہ اھلسنت، پایگاہ اطلاع رسانی حوزہ، 1386، شمارہ91۔
4۔ دانشمندان عامہ، ایضاً۔
5۔ ایضاً۔
تحریر: ایس ایم شاہ