13 رجب المرجب مولائے متقیان امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی کعبہ میں ولادت با سعادت کا دن ہے۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کا نام اللہ کے نام پر علی رکھا۔ حضرت ابوطالب و فاطمہ بنت اسد نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہِ وسلم سے عرض کیا کہ ھم نے ھاتف غیبی سے یھی نام سنا تھا۔ آپ کے مشھور القاب امیرالمومنین، مرتضٰی، اسد اللہ، یداللہ، نفس اللہ، حیدر، کرار، نفس رسول اور ساقی کوثر ہیں۔ جبکہ آپ کی مشھور کنیت ابو الحسن و ابو تراب ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام ھاشمی خاندان کے وہ پھلے فرزند ہیں، جن کے والد اور والدہ دونوں ھاشمی ہیں۔ آپ کے والد ابو طالب بن عبد المطلب بن ھاشم ہیں اور ماں فاطمہ بنت اسد بن ھاشم ہیں۔ ھاشمی خاندان قبیلہ قریش میں اور قریش تمام عربوں میں اخلاقی فضائل کے لحاظ سے مشھور و معروف تھے۔
جواں مردی، دلیری، شجاعت اور بھت سے فضائل بنی ھاشم سے مخصوص تھے اور یہ تمام فضائل حضرت علی علیہ السلام کی ذات مبارک میں بدرجہ اتم موجود تھے۔
روایات میں آیا ہے کہ جب حضرت علی علیہ السلام کی ولادت کا وقت قریب آیا تو آپ کی والدہ گرامی فاطمہ بنت اسد کعبہ کے پاس تشریف لائیں اور اپنے جسم کو اس کی دیوار سے مس کرکے عرض کیا: پروردگارا! میں تجھ پر، تیرے نبیوں پر، تیری طرف سے نازل شدہ کتابوں پر اور اس مکان کی تعمیر کرنے والے، اپنے جد ابراھیم علیہ السلام کے کلام پر راسخ ایمان رکھتی ھوں۔
پروردگارا! تجھے اس ذات کے احترام کا واسطہ جس نے اس مکان مقدس کی تعمیر کی اور اس بچہ کے حق کا واسطہ جو میرے شکم میں موجود ہے، اس کی ولادت کو میرے لئے آسان فرما، ابھی ایک لمحہ بھی نھیں گزرا تھا کہ کعبہ کی جنوب مشرقی دیوار، عباس بن عبدالمطلب اور یزید بن تعف کی نظروں کے سامنے شگافتہ ھوئی، فاطمہ بنت اسد کعبہ میں داخل ھوئیں اور دیوار دوبارہ اصلی حالت میں متصل ھوگئی۔ فاطمہ بنت اسد تین دن تک روئے زمین کے اس سب سے مقدس مکان میں اللہ کی مھمان رھیں اور تیرہ رجب دس سال قبل از بعثت کو بچہ کی ولادت ھوئی۔ ولادت کے بعد جب فاطمہ بنت اسد نے کعبہ سے باھر آنا چاھا تو دیوار دو بارہ شگافتہ ھوئی، آپ کعبہ سے باھر تشریف لائیں اور فرمایا: میں نے غیب سے یہ پیغام سنا ہے کہ اس بچے کا نام علی رکھنا۔
حضرت علی علیہ السلام تین سال کی عمر تک اپنے والدین کے پاس رھے اور اس کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہِ وسلم کے پاس آگئے۔ کائنات کے رسول نے ھی آپ کی تربیت فرمائی اور بچپن سے لیکر جوانی تک اور جوانی سے لیکر رسول خاتم کے اس دنیا سے ظاھری پردہ فرمانے تک مولائے کائنات نے ان کا ساتھ نھیں چھوڑا۔ اگر دقت نظر کی جائے تو رسول کا یہ ساتھ کربلا کے میدان میں فرزند زھرا و علی بھی نبھاتے نظر آتے ہیں۔
یہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہِ وسلم ھی تھے جنھوں نے ایک موقعہ پر حضرت علی علیہ السلام کے ھاتھوں کو پکڑ کر بلند کیا اور فرمایا: من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ۔ جس جس کا میں مولا ھوں، اس اس کے یہ علی مولا ہیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہِ وسلم نے آخری حج سے واپسی پر غدیر کے مقام پر تاریخی اجتماع میں اس جملے کی تین مرتبہ تکرار کی۔ اس کے بعد لوگوں نے حضرت علی علیہ السلام کو اس منصب ولایت کے لئے مبارک باد دی اور آپ کے ھاتھوں پر بیعت کی۔
امیر المومنین کو دنیا میں مجموعہ اضداد شخصیت کے طور پر پھچانا اور لکھا جاتا ہے، یعنی آپ ھی وہ شخصیت ہیں جن میں بیک وقت ایک دوسرے کی ضد صفات پائی جاتی ہیں، کوئی اندازہ کرسکتا ہے کہ مصلٰی عبادت پر محو رھنے والا علی میدان کارزار کا شھسوار بھی ہے، اس کی شجاعت و بھادری کا ڈنکا عالم عرب میں بجتا ہے، اسے یہ کمال بھی حاصل ہے کہ اس کے خطبات اور اقوال ایسے فصیح و بلیغ ھوں کہ آج تک اھل علم و ادب انھیں ادب و زبان کی گھرائیوں کے عنوان دیتے ہیں اور اھل علم ان سے استفادہ کرتے ہیں۔ آپ کی انھی بلند صفات و کمالات کی بدولت رسول خاتم صلی اللہ علیہ و آلہِ وسلم آپ کی بھت عزت کرتے تھے اور اپنے قول و فعل سے ان کی خوبیوں کو ظاھر کرتے رھتے تھے۔ لوگوں نے دیکھا کہ کبھی اللہ کا نبی یہ فرماتے تھے کہ "علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ھوں۔"
کبھی یہ فرمایا کہ "میں علم کا شھر ھوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔ کبھی یہ فرمایا کہ سب میں بھترین فیصلہ کرنے والا علی ہے۔ کبھی یہ مژدہ سنایا کہ "علی کو مجھ سے وھی نسبت ہے، جو ھارون کو موسٰی سے تھی۔ کبھی یہ فرمایا: علی کو مجھ سے وہ نسبت ہے، جو روح کو جسم سے یا سر کو بدن سے ھوتی ہے۔ یھاں تک کہ مباھلہ کے واقعہ میں علی علیہ السلام کو نفسِ رسول کا خطاب ملا۔
رسول خدا کی طرف سے یہ اعزاز کسی اور کے حصہ میں نہ آیا کہ جب مسجد کے صحن میں کھلنے والے، سب کے دروازے بند ھوئے تو علی کا دروازہ کھلا رکھا گیا۔ جب مھاجرین و انصار میں بھائی کا رشتہ قائم کیا گیا تو علی علیہ السلام کو پیغمبر نے اپنا بھائی قرار دیا اور سب سے آخر میں غدیر خم کے میدان میں سوا لاکھ حاجیوں کے مجمع میں علی علیہ السلام کو اپنے ھاتھوں پر بلند کرکے یہ اعلان فرما دیا کہ جس طرح میں تم سب کا مولی اور سرپرست ھوں، اسی طرح علی بھی تم سب کے مولا و سرپرست ہیں۔ یہ بھت بڑا اعزاز ہے اور تمام مسلمانوں نے علی علیہ السلام کو مبارک باد دی اور سب نے سمجھ لیا کہ پیغمبر نے علی علیہ السلام کی ولی عھدی اور جانشینی کا اعلان کر دیا ہے۔
امیرالمومنین علی ابن ابی طالب کے مسند خلافت پر بیٹھنے کے بعد سارا کا سارا بیت المال آپ کے ھاتھ میں تھا۔ ایک روز آپ کے بھائی عقیل آئے اور کھا کہ مقروض ھوں اور اس کی ادائیگی سے عاجز ھوں۔ ’’ علی نے فرمایا: خدا کی قسم! میرے پاس فی الحال اتنے پیسے بھی نھیں کہ تیرا قرض ادا کروں، صبر کر میں آخری حد تک تیرا ساتھ دوں گا۔ عقیل نے کھا کہ بیت المال آپ کے اختیار میں ہے۔ (یہ گفتگو دارالامارہ کے اوپر ھو رھی تھی) نیچے بازار کی طرف اشارہ کرکے مولی نے عقیل سے کھا بازار میں جاؤ اور دکانداروں کے پاس بھرے ھوئے صندوق پڑے ہیں ان کو توڑ کر رقم نکال لو۔ عقیل نے کھا اے امیرالمومنین آپ مجھے کھہ رھے ہیں کہ میں لوگوں کے صندوق توڑ کر رقم نکا لوں، جبکہ انھوں نے خدا پر توکل کرکے اپنی دولت کو صندوقوں میں چھوڑا ہے۔ مولا علی نے فرمایا: کیا تو مجھے کھہ رھا ہے کہ بیت المال جو کہ ان مسلمانوں کا مال ہے اور خدا پر توکل کرکے اسے بند کیا ہے، کھول دوں، اگر چاھتا ہے تو تلوار اٹھا، میں بھی تلوار اٹھاتا ھوں، دونوں حیرہ شھر چلتے ہیں، وھاں امیر لوگ زیادہ رھتے ہیں، کسی ایک کے گھر پر حملہ کرکے اس کے مال کو لوٹ لیتے ہیں۔ عقیل نے عرض کیا۔ کیا چوری کریں؟ علی نے فرمایا: ایک آدمی کے مال میں چوری کرنا اس سے بھتر ہے کہ تمام مسلمانوں کے مال میں چوری کی جائے، چونکہ بیت المال تمام مسلمانوں کا مشترکہ مال ہے۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ ایک روز آپ کے سگے بھائی عقیل نے مولا علی سے بیت المال میں سے مدد کی درخواست کی، علی نے فرمایا روز جمعہ تک صبر کرو۔ عقیل نے روز جمعہ تک صبر کیا نماز جمعہ کے بعد مولا علی نے عقیل سے کھا کہ یہ تمام مسلمان جو نماز جمعہ کے لئے جمع ھوئے ہیں، ان کے ساتھ اگر کوئی شخص خیانت کرے تو اس کے بارے میں کیا خیال ہے۔ عقیل نے کھا ایسا کرنے والا بھت برا شخص ھوگا۔ مولٰی نے فرمایا تو مدد کی درخواست کے ذریعے چاھتا ہے کہ میں بیت المال میں سے تجھے تیرے حق سے زیادہ دوں، یعنی مجھے حکم کر رھا ہے کہ ان مسلمانوں کے ساتھ خیانت کروں۔ ایک اور واقعہ یوں رقم ہے کہ ایک بزرگ شخص (بنام عاصم بن میثم) مولا کی خدمت میں آیا، مولا بیت المال کی تقسیم میں مشغول تھے۔ مولا کے قریب آکر کھنے لگا، میں بوڑھا اور کام کرنے سے عاجز ھوں، مجھے زیادہ دیں۔ مولا علی نے فرمایا: خدا کی قسم یہ مال میں نے مزدوری سے اکٹھا نھیں کیا اور نہ ھی مجھے اپنے باپ سے وراثت میں ملا ہے، بلکہ یہ (مسلمانوں کی) امانت ہے۔ مجھ پر لازم ہے کہ حدود کی رعایت کروں۔ پس پیر مرد پر احسان کی خاطر حاضرین کی طرف رخ کرکے فرمایا، خدا اس پر اپنی رحمت نازل کرے، جو اس ضعیف ناتواں کی مدد کرے، اس طرح علی کے کھنے پر بھت سے لوگوں نے اس بوڑھے شخص کی مدد کی۔
* عصر خلافت کے دوران چند ایرانی جو کہ عربوں کے غلام تھے اور مولا نے انھیں آزاد کرایا تھا، کوفے میں موالی اور حمراء کے نام سے جانے جاتے تھے ھر روز مسجد میں آتے اور مولٰی سے فیض حاصل کرتے۔ عربوں میں بھت سے انا پرست تھے، مانند ’’اشعث بن قیس‘‘ جو عجمیوں کو حقیر سمجھتا تھا۔ مولا علی سے کھنے لگا ’’اے امیرالمومنین یہ افراد (حمراء) تیرے سامنے ھمارے اوپر مسلط ھوگئے۔ آپ ان کا راستہ کیوں نھیں روکتے۔ میں ان کو روکوں گا اور دکھاؤں گا کہ عرب کیسے ھوتے ہیں؟
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: یہ عرب جو کھا پی کر نرم بستر پر لیٹ جاتے ہیں اور حمراء (ایرانی) گرمی کے دنوں میں ضروریات زندگی کی خاطر محنت کرتے ہیں، تم چاھتے ھو ان زحمت کشوں کو میں اپنے سے دور کر دوں ھرگز ایسا نہ ھوگا۔
یہ واقعہ بھی آپ کی زندگانی و حیات میں بھت سے پردے فاش کرتا ہے اور ھمارے بزرگان، عوام و ملت نیز حکمرانوں کیلئے بھت سے سبق سموئے ھوئے ہے، مگر افسوس کہ۔۔۔۔ ایک روز مولٰی علی زمانہ خلافت کے دوران شھر کوفہ سے گذر رھے تھے کہ آپ کی نظر ایک خاتون پر پڑی، جو پانی سے بھری مشک کو کاندھے پر لادے گھر کی طرف جا رھی تھی، آپ فوراً آگے بڑھے اور اس سے مشک لے کر اپنے شانوں پر رکھ کر اس کے گھر تک آئے، یہ عورت علی کو پھچانتی نہ تھی، مولا نے راستے میں حال دریافت کیا تو کھنے لگی علی ابن ابی طالب نے میرے شوھر کو سرحد کی حفاظت کی خاطر بھیجا تھا، دشمنوں نے اسے مار ڈالا، میرے بچے یتیم ھوگئے، اب کوئی سرپرستی کرنے والا نھیں ہے، میں فقیر و تنگ دست ھوں۔ مجبوراً مجھے لوگوں کی کنیزی کرنا پڑتی ہے، جو تھوڑی بھت مزدوری ملتی ہے، اس سے اپنے اور بچوں کے لئے غذا کا انتظام کرتی ھوں۔ مولٰی علی مشک کو اس کے گھر پھنچا کر واپس آئے، آپ نے یہ رات انتھائی اضطراب میں گزاری۔
آدھی رات کے وقت ایک تھیلے کو غذا سے پرُ کرکے اس عورت کے گھر پر آئے، راستے میں کئی شناسا لوگوں نے کھا امیرالمومنین تھیلا ھمیں دے دیں، ھم اٹھا لیتے ہیں، مولٰی نے فرمایا ’’روز قیامت میرے وزن کو کون اٹھائے گا؟ اگر آج اس وزن کو اٹھاؤں گا تو کل قیامت کا وزن ھلکا محسوس ھوگا۔ مولٰی اس عورت کے گھر پھنچے، دستک دی، اندر سے اس عورت نے پوچھا کون، مولٰی نے کھا ’’میں وھی غلام ھوں، جو دن میں مشک اٹھا کر لایا تھا۔ دروازہ کھول میں بچوں کے لئے غذا لایا ھوں، عورت نے کھا خدا تجھ سے راضی ھو۔ مولٰی گھر میں داخل ھوئے اور اس سے کھا کہ آٹا گوندھنے اور روٹی پکانے کا کام تو کر بچوں کو میں سنبھالتا ھوں یا اس کے برعکس کر لیتے ہیں، عورت نے کھا مناسب یھی ہے کہ میں کھانا بناؤں اور آپ بچوں کو سنبھالیں۔ الغرض مولٰی نے اپنی ڈیوٹی سنبھالی اور اس دوران اپنے ساتھ لائے ھوئے گوشت کو خرما کے ساتھ چھوٹے چھوٹے لقمے بنا کر بچوں کو کھلاتے اور کھتے جاتے، اے بچوں علی ابن ابی طالب کو معاف کر دو۔
آٹا گوندھنے کے بعد، عورت نے کھا اے بندہ خدا تنور کو روشن کر، مولٰی نے لکڑیوں کو جمع کرکے تنور میں ڈالا، آگ لگائی اور اپنے چھرے کو شعلوں کے نزدیک کرکے فرمایا ’’ذق یاعلی! ھذا جزاء من ضیع الاوامل والیتامیٰ‘‘ اے علی حرارت کے مزے کو چکھ، یہ کسی کی بیوہ اور یتیم بچوں کے حق کو تباہ کرنے کی جزا ہے۔ اسی دوران پڑوس کی ایک عورت گھر میں داخل ھوئی، جو مولٰی کو پھچانتی تھی، اس عورت سے کھنے لگی یہ مرد تو امیرالمومنین علی ابن ابی طالب ہیں، جیسے ھی اسے پتہ چلا، آگے بڑھی اور اظھار شرمندگی کرنے لگی۔ مولٰی آپکی شان میں گستاخی ھوگئی، مولٰی نے فرمایا ’’بل واحیاء منک یا امۃ اللہ فیما قصرت فی امرک‘‘ بلکہ میں تجھ سے شرمندہ ھوں اے کنیز خدا تیرے معاملے میں میں نے کوتاھی کی۔
ذرا سوچیں، آج ھمارے شھداء و مخلصین کے حق میں کون کون کوتاھی کا ارتکاب کر رھا ہے۔ جو لوگ اجتماعی ذمہ داریوں پر فائز ہیں، انھیں مولا کی سیرت اپنانے کے ایسے ھزاروں مواقع ملتے ھونگے، مگر کون کتنا درد رکھتا ہے، سب ھی جانتے ہیں اور سب ھی پھچانتے ہیں۔ آپ یتماء کے ساتھ کس طرح پیش آتے تھے اور ان کیلئے کس قدر احساس و درد رکھتے تھے، اس بارے بھت سے واقعات امیر المومنین کی زندگی میں ھمیں ملتے ہیں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت علی علیہ السلام یتیموں اور غمزدہ افراد کے ساتھ بھت مھربانی اور محبت سے پیش آتے تھے۔ ان کے سروں پر دست شفقت پھیرتے تھے اور ان کا خیال رکھتے تھے۔ آپ نے یتیموں کے سلسلے میں انتھائی سنجیدہ نصیحت فرمائی ہے۔ آپ فرماتے ہیں، تمھیں خدا کی قسم یتیموں کو فراموش نہ کرنا، ان کے لبوں کو غذا کے انتظار میں نہ رکھنا، خیال رھے کہ وہ بھوکے نہ رہ جائیں اور تمھاری موجودگی میں ان کے حقوق ضائع نہ ھوں۔
ایک دن امام علی علیہ السلام کا ایک دوست کچھ مقدار میں شھد اور انجیر حضرت کے لئے لایا۔ حضرت علی علیہ السلام نے حکم دیا کہ اسے یتیموں کے درمیان تقسیم کر دیا جائے اور پھر آپ بنفس نفیس ان کے پاس بیٹھ گئے، ان کے سروں پر ھاتھ پھیرتے جاتے اور اپنے مبارک ھاتھوں سے شھد اور انجیر ان کے منہ میں دیتے تھے۔ لوگوں نے عرض کی کہ آپ کیوں یہ کام کر رھے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا "امام یتیموں کا باپ اور ان کا سرپرست ھوتا ہے، میں یہ کام اس لئے انجام دے رھا ھوں، تاکہ ان میں بے پدری کا احساس نہ ھونے پائے۔ افسوس آج ھماری قوم امما کے نام پر ایک ایک جلسے میں لاکھوں لگا دیتی ہے، نذر و نیاز کے نام پر ضرورت سے کھیں زیادہ خرچ کر دیتی ہے، مگر ان کے دروازے پر اگر کوئی پیرو امیرالمومنین چلا جائے تو ان سے ملاقات ھی ممکن نھیں ھوتی۔ یہ مایوس ھو کر واپس آجاتے ہیں۔ کتنے ھی ایسے مومن ہیں، جو اپنی بچیوں کو بیاھنے سے قاصر ہیں کہ ان کے پاس اس کا خرچ نھیں، کتنے ھی ایسے ذھین طالبعلم ہیں، جن کے پاس اعلٰی تعلیم حاصل کرنے کیلئے وسائل نھیں اور کوئی انھیں مدد کرنے والا بھی نھیں ملتا۔ یہ سوچنے کی باتیں ہیں۔ ذرا سوچیئے کہ آپ کے پاس، اڑوس پڑوس میں کوئی بھوکا تو نھیں سوتا، اگر ایسا ھوتا ہے تو پھر کسی مولا کے ماننے والے کو چین کی نیند کیونکر آ جاتی ہے۔؟
تحریر: ارشاد حسین ناصر