دختر رسول خدا (ص) حضرت فاطمہ زھراسلام اللہ علیھا کی شھادت کے ایام ہیں۔ حضرت زھرا سلام اللہ علیھا کا اسم گرامی ذھن میں آتے ہیں ان پر پڑے مصائب بھی انسان کے ذھن میں آ جاتے ہیں۔ اور جب مصائب کا تذکرہ آتا ہے باغ فدک کا آپ سے چھینا جانا اور حضرت زھرا سلام اللہ علیھا کا اپنا حق مانگنے کے لئے دربار خلیفہ میں جانا بھی انسان کے ذھن میں آجاتا ہے اور انسان کو اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ وہ باغ فدک کے بارے میں زیادہ جانکاری حاصل کرے جس کی خاطر دختر رسول دربار خلیفہ تک گئیں۔ اسی وجہ سے ایام فاطمیہ میں باغ فدک کے بارے میں ایک مختصر تحقیق کی گئی ہے جو خاندان اھلبیت علیھم السلام کے چاھنے والوں کی نذر کی جاتی ہے۔
فدک ایک گاؤں کا نام ہے جو مدینۃ النبی سے ۲۶۰ کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے یہ علاقہ سرسبز و شاداب اور درختوں سے لبریز تھا یہ گاؤں، خیبر کا حصہ تھا اور مدینہ کے یھودی اس میں زندگی گزارتے تھے اس میں کاشت کرتے تھے اور اس کے باغات سے اپنی روزی روٹی کماتے تھے یہ علاقہ ایک زرخیز اور بھترین درآمد والا علاقہ تھا۔
اس کے بعد امیرالمومنین علی علیہ السلام نے جنگ خیبر میں خیبر کا قلعہ فتح کیا یھودیوں نے پیغمبر اکرم (ص) سے صلح کرنے کی خاطر فدک کا علاقہ پیغمبر اکرم (ص) کو بخش دیا۔ پیغمبر اکرم (ص) نے اپنے مبارک ھاتھوں سے فدک میں خرمے کے درخت لگائے اور اس کے قرآن کریم کے حکم سے اسے اپنی لخت جگر فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کو ھدیہ دے دیا۔(۱)
پیغمبر اکرم(ص) کی رحلت کے بعد، خلیفہ اول نے اس پر قبضہ کر لیا اور حضرت زھرا سلام اللہ علیھا کے خادموں کووھاں سے نکال کر اپنے مزدوروں کو اس میں کام پر لگا دئے حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا نے خلیفہ اول سے فدک حاصل کرنے کے مقدمہ دائر کیا اور اپنا حق واپس لینے کی بھرپور کوشش کی لیکن انھیں واپس نہ دیا گیا۔ خلیفہ ثانی نے اپنے دور حکومت میں اسے یھودیوں کو لوٹا دیا۔ خلیفہ ثالث نے دوبارہ یھودیوں سے واپس کر کے مروان اور دیگر رشتہ داروں کو بخش دیا بنی امیہ کے خلیفہ عمر بن عبد العزیز کے دور حکومت تک یہ فدک بنی امیہ کے پاس رھا۔
عمر بن عبد العزیز نے فدک کو حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کی اولاد کو واپس کر دیا لیکن یزید بن عبد الملک نے دوبارہ اولاد فاطمہ سلام اللہ علیھا سے اسے چھین لیا۔
عباسی خلیفہ سفاح نے اسے عبد اللہ محض کو دیا لیکن منصور دوانیقی نے دوبارہ اس پر قبضہ کر لیا مھدی عباسی نے اسے ایک بار پھر اولاد زھرا سلام اللہ علیھا کو واپس کر دیا لیکن موسی بن مھدی نے پھر چھین لیا۔ آخر کار مامون نے اپنے سرکاری حکم کے مطابق فدک کو اولاد زھرا سلام اللہ علیھا کو واپس دے دیا۔
لیکن مامون کے بعد متوسل نے اس باغ کو پھر اولاد حضرت زھرا سلام اللہ علیھا سے چھین کر اسے عمر بازیار کو بخش دیا عبداللہ بن عمر بازیار نے فدک میں لگائے ھوئے ان درختوں کو کاٹ دیا جو پیغمبر اکرم(ص) نے اپنے دست ھائے مبارک سے لگائے ھوئے تھے درخت کاٹنے کے بعد اس کے ھاتھ شل ھو گئے۔ (۲)
بنی عباس کی حکومت کا سلسلہ ختم ھونے اور عثمانی حکومت کے بر سر اقتدار آنے کے بعد پورا عربستان عثمانی حکومت کے زیر قبضہ آ گیا اور اس علاقے کی اھمیت بھی پیغمبر اکرم(ص) کے لگائے ھوئے درختوں کے کاٹ دئے جانے کے بعد ختم ھو گئی اور تاریخ میں بھی اس کے بعد کا تذکرہ نھیں ملتا ہے۔
موجودہ دور میں فدک کا علاقہ کھاں واقع ہے؟ اس کے بارے میں تحقیق کرنے کے بعد معلوم ھوا ہے کہ اس وقت فدک کو حرہ ھتیم یا الحویط کے نام سے جانا جاتا ہے جو حرہ خیبر کے مشرق میں واقع ہے۔
مدینہ شناسی کے مولف لکھتے ہیں کہ سرزمین فدک کے بارے میں کافی تلاش و جستجو میں نے کی آخر کار اس نتیجہ پر پھنچا کہ اس وقت فدک کا کوئی نام و نشان باقی نھیں ہے اس سرزمین کو حائط کے نام سے جانا جاتا ہے جو امارات حائل کے تابع ہے الحلیفہ کے مغرب اور ضرغد کے جنوب اور خیبر کی مشرقی سرحد پر واقع ہے۔
مولف کا کھنا ہے کہ ان ایام میں جب میں فدک کی تلاش میں تھا جو موجودہ حائط ہے ۱۹۷۵ عیسوی میں یہ علاقہ ۲۱ دیھاتوں پر مشتمل تھا جن میں گیارہ ھزار کی آبادی تھی جبکہ خود الحائط کی مرکز سرزمین میں ایک ھزار چار سو سے زیادہ لوگ نھیں رھتے تھے۔ لیکن یہ زمین کجھور کے درختوں سے بھری اور کھیتی باڑی کے لیے آمادہ سر زمین تھی جبکہ اس کے اطراف کی دیگر تمام زمینیں خشک اور بنجر تھیں۔ حائط (فدک) موجودہ دور میں اپنی سابقہ اھمیت کو کھو چکا ہے مدینہ کے کسی راستے میں بھی واقع نھیں ہے اس لیے متروک ھو چکا ہے۔(۳)
بھرحال ایسا لگتا ہے کہ یہ علاقہ اس وقت وھاں کے رھنے والوں کے زیر استعمال ہے اور بطور عمومی سعودی حکومت ھی کے زیر قبضہ ہے اور اس کی درآمد سے بھی اس سرزمین پر ساکن لوگ ھی استفادہ کرتے ہیں اور کوئی خاص شخص یا کوئی خاص حکومت اس کی مالک نھیں ہے۔
حوالہ جات
۱۔ اسراء/۲۶؛ حشر/۶ و ۷؛ و بلاذری، فتوح البلدان، قم، منشورات الارومیه، ۱۴۰۴، ص ۴۲ ـ ۴۷ و ص ۳۶ ـ ۴۲؛ و مدنی، عبدالعزیز، التاریخ الامین، قم، انتشارات امین، ۱۴۱۸، ص ۴۶ و ۵۱.
۲۔ فالی، سید احمد، فدک، قم، مجمع الذخائر اسلامی، چاپ دوم، ۷۸، ص ۱۸۳.
۳۔ نجفی، محمد باقر، مدینه شناسی، آلمان، ناشر سفارت ایران در بن، ۱۳۷۵، ص ۳۳۵ ـ ۳۴۰؛ و محمد محمد حسن شراب، المعالم الاثیره فی السنه و السیره، دمشق، دار العلم، ۱۴۱۱، ص ۲۱۵.
جون ۲۰۰۸ میں آیت اللہ ھاشمی رفسنجانی نے اپنے سعودی عرب کے دس روزہ دورے پر اس تاریخی علاقے کا قریب سے مشاہدہ کیا اور کچھ ایسے حقائق سے پردہ ھٹایا جو آج تک عام لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہیں۔
اس موضوع کی اھمیت کے پیش نظر اس خبر کو فارسی سے اردو میں ترجمہ کر کے تصاویر کے ساتھ شائع کیا جا رھا ہے اگر چہ اس خبر کو آٹھ سال گزر چکے ہیں۔
آیت اللہ رفسنجانی نے مدینہ منورہ سے ۲۶۰ کلو میٹر کی دوری پر واقع صوبہ ’’حائل‘‘ کے ’’الحائط‘‘ نامی علاقے کا دورہ کیا جو شیعیان مدینہ کے رھبر مرحوم آیت اللہ شیخ محمد علی العمری کے بقول بلکہ تاریخی شواھد کے مطابق وھی ’’فدک‘‘ ہے۔
آیت اللہ رفسنجانی ایک ایرانی وفد کے ھمراہ سعودی حکومت کی سکیورٹی میں جب اس علاقے میں قدم رکھتے ہیں تو اس صوبے کے گورنر سمیت علاقے کے مقامی لوگ بھی ان کا استقبال کرنے پھنچ جاتے ہیں۔
صوبہ حائل کے گورنر ’’نائف‘‘ آیت اللہ ھاشمی سے کھتے ہیں: یہ فدک ہے پرانے لوگ اسے ابھی بھی فدک کھتے ہیں۔ اس شھر میں ۳۵ ھزار لوگ بستے ہیں۔
اس کے بعد اس علاقے کا رھنے والا ’’محمد عبد الرحمن جابر‘‘ ایک بوڑھا شخص جو پھلے اس علاقے میں امر بالمعروف کمیٹی کا سربراہ ھوتا ہے آیت اللہ ھاشمی سے گفتگو اور ان کے سوالات کے جوابات دیتا ہے؛
آیت اللہ ھاشمی نے ان سے پوچھا: اس علاقے کو کیوں فدک کھتے ہیں؟
عبد الرحمن جابر: چونکہ پیغمبر اکرم(ص) نے اسے حضرت زھرا سلام اللہ علیھا کو بخشا تھا۔
آیت اللہ ھاشمی: کیوں پیغمبر(ص) نے اسے حضرت زھرا سلام اللہ علیھا کو بخشا؟
عبد الرحمن جابر: ھمارا عقیدہ یہ ہے کہ چونکہ یہ علاقہ بغیر جنگ کے فتح ھوا اور اس علاقے کے رھنے والوں نے اسے پیغمبر کو ھدیہ دیا پیغمبر اکرم(ص) نے بھی اسے حضرت زھرا سلام اللہ علیھا کو ھدیہ دے دیا۔
ھاشمی: اس علاقے میں کون کون سی چیزیں فاطمہ کے نام سے پائی جاتی ہیں؟
عبد الرحمن جابر: فاطمہ کے نام سے سات چشمے ہیں، ایک مسجد فاطمہ ہے، ایک وادی فاطمہ ہے کچھ بساتین فاطمہ (باغات) ہیں۔
ھاشمی: کیوں فدک کا نام بدل دیا اور اسے حائط رکھ دیا ( حائط عربی میں دیوار کو کھتے ہیں)
جابر: اس علاقے میں تین اونچی اونچی دیواریں ہیں جنھوں نے اس علاقے کو اطراف سے گھیر رکھا ہے اور ان دیواروں کے اندر باغات فاطمہ ہیں یہ مسجد جو دوبارہ بنائی گئی ہے پیغمبر اکرم (ص)کے زمانے کی ہے جو مسجد فاطمہ کے نام سے معروف ہے ھم آل جابر ہیں جو سینکڑوں سال سے یھاں بستے ہیں اور سعودی حکومت سے پھلے ھم یھاں حاکم تھے۔
ھاشمی: فدک کا کل رقبہ کتنا ہے؟
جابر: فدک کا کل رقبہ ۵۰ پچاس کلومیٹر در ۵۰ کلو میٹر ہے۔
ھاشمی: چشموں کا پانی کیسا ہے؟
جابر: یہ چشمے جو عیون فاطمہ کے نام سے معروف ہیں ان کا پانی بے توجھی کی وجہ سے قابل استفادہ نھیں ہے صرف کھیتی باڑی کے کام آتا ہے۔
ھاشمی: میں چشمہ فاطمہ سے پانی پینا چاھتا ھوں۔
جابر اور وھاں موجود دوسرے افراد نے انھیں پانی پینے سے منع کیا اور کھا: پانی کی کیفیت مناسب نھیں ہے نہ پی جیئے گا۔
آیت اللہ ھاشمی کی آنکھوں سے اشک جاری ھو گئے اور کھا: کیا یہ بدنصیبی نھیں ہے کہ انسان یھاں تک آئے اور چشمہ فاطمہ سے سیراب نہ ھو؟
یہ جملہ کھنا تھا کہ دوسرے افراد کی آنکھیں بھی اشکبار ھو گئیں۔
ترجمہ و تحقیق: افتخار علی جعفری