پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے ایام میں یہ عالم بالعموم اور ملک عرب بالخصوص ھر لحاظ سے ایک ظلمت کدہ تھا۔ ھر طرف کفر و ظلمت کی آندھیاں نوع انسان پر گھٹا ٹوپ اندیھرا بن کر امڈ رھی تھی۔ انسانی حقوق یا فرائض کا کوئی ضابطہ یا آئین موجود نہ تھا۔ اغواء، قتل و غارت اور اپنی لڑکیوں کو زندہ در گور کرنا معمول زندگی تھا۔ ذرا سی بات پر تلواریں نکل آتیں اور خون کی ندیاں بھا دی جاتیں۔ انسانیت ھر لحاظ سے تباھی و بربادی کے کنارے پر کھڑی تھی۔ ان حالات میں رحمت حق جوش میں آئی اور حضور اکرم (ص) مبعوث بہ رسالت ھوئے۔ دنیا چشم زدن میں گھوارہ امن و امان بن گئی۔ راھزن رھنماء بن گئے۔ جاھل شتربان اور صحرا نشین جھان بان و جھان آراء بن گئے اور سرکش لوگ معلم دین و اخلاق بن گئے۔
تاریخ انسانیت کا یہ عظیم واقعہ دنیا میں ایک بڑے انقلاب کا باعث بنا اور اس نے پوری تاریخ انسانیت پر اثرات چھوڑ دیئے۔ دنیا میں انبیاء مبعوث ھوئے ہیں، انبیائے اولوالعزم مبعوث ھوئے ہیں اور بھت سے بڑے بڑے واقعات رونما ھوئے ہیں، لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے بڑھ کر کوئی واقعہ نھیں ہے اور اس سے بڑے واقعہ کے رونما ھونے کا تصور بھی نھیں کیا جاسکتا، کیونکہ اس عالم میں خداوند متعال کی ذات کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عظیم ھستی کوئی نھیں ہے اور آپ کی بعثت سے بڑا واقعہ بھی کوئی نھیں ہے۔ ایک ایسی بعثت کہ جو رسول خاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہے اور عالم امکان کی عظیم ترین شخصیت اور عظیم ترین الٰھی قوانین کی بعثت ہے۔
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اس عظیم دن کے بارے میں فرماتے ہیں: پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ایک انقلاب برپا ھوا اور اس دنیا میں تدریجاً ایسی چیزیں رونما ھوئی ہیں کہ جو پھلے نھیں تھیں۔ وہ تمام معارف و علوم جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کی برکت سے پوری دنیا میں پھیلے، ان کے بارے میں ھم جانتے ہیں کہ بشریت ان کے لانے سے عاجز ہے اور جو لوگ صاحب علم ہیں، وہ جانتے ہیں کہ یہ معارف کیا ہیں اور ھم کس حد تک ان کا ادراک کرسکتے ہیں؟ تمام انسانوں کا ان معارف و علوم کے لانے میں عاجز ھونا اور بشریت کے فھم و ادراک سے اس کا ما فوق ھونا ایک ایسے انسان کیلئے بھت بڑا معجزہ ہے۔
رھبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای مدظلہ اس بابرکت دن کے بارے میں فرماتے ہیں: روز بعثت بے شک انسانی تاریخ کا سب سے بڑا اور عظیم دن ہے، کیونکہ وہ جو خداوند متعال کا مخاطب قرار پایا اور جس کے کاندھوں پر ذمہ داری ڈالی گئی، یعنی نبی مکرم اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تاریخ کا عظیم ترین انسان اور عالم وجود کا گران مایہ ترین سرمایہ اور ذات اقدس الٰھی کے اسم اعظم کا مظھر یا دوسرے الفاظ میں خود اسم اعظم الٰھی تھا اور دوسری طرف وہ ذمہ داری جو اس عظیم انسان کے کاندھوں پر ڈالی گئی، [یعنی نور کی جانب انسانوں کی ھدایت، بنی نوع انسان پر موجود بھاری وزن کو برطرف کرنا اور انسان کے حقیقی وجود سے متناسب دنیا کے تحقق کا زمینہ فراھم کرنا اور اسی طرح تمام انبیاء کی بعثت کے تمام اھداف کا تحقق بھی] ایک عظیم اور بھاری ذمہ داری تھی۔ یعنی خداوند متعال کا مخاطب بھی ایک عظیم انسان تھا اور اس کے کاندھوں پر ڈالی گئی ذمہ داری بھی ایک عظیم ذمہ داری تھی۔ لھذا یہ دن انسانی تاریخ کا عظیم ترین اور بابرکت ترین دن ہے۔
اس عظیم دن کی مناسبت سے ھم یھاں انبیاء علیھم السلام بالاخص پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے بعض اھداف بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔
حضرت علی علیہ السلام بعثت انبیاء کےبارے میں فرماتے ہیں :{ولیعقل العباد عن ربهم ما جهلوه، فیعرفوه بربوبیته بعد ما انکروا، و یوحدوه بالالوهیة بعد ما عندوا} اس نے پیغمبروں کو بھیجا، تاکہ اس کے بندے توحید اور صفات خدا کے بارے میں جو کچھ نھیں جانتے، سیکھ لیں اور انکار و عناد سے اجتناب کے بعد خدا کی وحدانیت، ربوبیت اور خالقیت پر ایمان لائیں۔ آپ فلسفہ نبوت کے بارے میں بعض نکات کی طرف اشارہ فرماتے ہیں۔
1۔ خدا اور انسان کے درمیان ھونے والے عھد و پیمان کی تجدید: آپؑ فرماتے ہیں :{لیستادوا میثاق فطرته} تاکہ وھاں سے فطرت کی امانت کو واپس لیں۔
2۔ خداوند متعال کی نعمتوں کی یاد آوری:{و یذکروهم منسی نعمته} انھیں اللہ کی بھولی ھوئی نعمت یاد دلائیں۔
3۔ خداوند متعال کے پیغام کو لوگوں تک پھنچانا، تاکہ اس کے ذریعہ اتمام حجت ھوسکے، {ویحتجوا علیهم بالتبلیغ} تاکہ وہ تبلیغ کے ذریعے ان پر اتمام حجت کریں۔
4۔ لوگوں کی عقلوں کو ابھارنا اور انھیں باور کرانا : {و یثیروا لهم دفائن العقول} تاکہ وہ ان کی عقل کے دفینوں کو باھر لائیں۔
5۔ خداوند متعال کی حکمت اور قدرت کی نشانیوں کا مشاھدہ کرانا: {ویروهم الایات المقدرة، من سقف فوقهم مرفوع،ومهاد تحتهم موضوع ....} تاکہ وہ انھیں قدرت الٰھی کی نشانیاں دکھلائیں، ان کے سروں کے اوپر موجود بلند چھت اور ان کے زیر قدم گھوارے کے ذریعے۔۔۔۔}
6۔ انبیاء کے ذریعے قابل ھدایت افراد پر اتمام حجت کرنا: {وجعلهم حجة له علی خلقه، لئلا تجب الحجة لهم بترک الاعذار الیهم} اللہ نے انبیاء کو اپنے بندوں پر اپنی حجت بنا دیا، تاکہ بندوں کو یہ بھانہ نہ ملے کہ ان کے عذر کا خاتمہ نھیں کیا گیا ہے۔
ائمہ معصومین علیھم السلام سے نقل شدہ روایتوں سے یہ بات ثابت ھو جاتی ہے کہ انسان ھمیشہ آسمانی ھدایت کا محتاج ہے اور یہ نیازمندی دو طرح کی ہے:
1۔ معرفت و شناخت کے لحاظ سے 2۔ اخلاقی و تربیتی لحاظ سے، کیونکہ ایک طرف انسان کی معرفت کا سرچشمہ عقل و شھود اور حواس ہیں، جو محدود ھونے کی بنا پر ھدایت اور فلاح کے راستے میں انسان کی تمام ضروریات کا حل پیش کرنے سے قاصر ہیں۔
علاوہ ازیں بسا اوقات انسانی غرائز اسے نہ صرف عادلانہ قانون تک پھنچنے نھیں دیتے بلکہ اس کی بعض سرگرمیاں اسے اپنی خلقت کے اصلی ھدف اور اس عظیم مقصد سے غافل بھی کرتی ہیں۔ اسی بنا پر انسان ھمیشہ وحی کی رھنمائی اور آسمانی رھنماوں کا محتاج ھوتا ہے۔
خداوند متعال کی حکمت کا تقاضا بھی یھی ہے کہ وہ انسان کی اس اھم ضرورت کو پورا کرے، کیونکہ اگر وہ اسے پورا نہ کرے تو لوگ اسی بھانے عذر پیش کریں گے اور ان کے پاس بھانے کا حق باقی رھے گا، جیسا کہ قرآن کریم ارشاد فرماتا ہے: {رُّسُلًا مُّبَشرِّينَ وَ مُنذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلىَ اللَّهِ حُجَّةُ بَعْدَ الرُّسُل} یہ سارے رسول بشارت دینے والے اور ڈرانے والے اس لئے بھیجےگئے، تاکہ رسولوں کے آنے کے بعد انسان خدا کی بارگاہ میں کوئی عذر یا حجت نہ پیش کرسکے۔
قرآن کریم اتمام حجت کے علاوہ مندرجہ ذیل امور کو بھی انبیاء کی بعثت کے اھداف میں شمار کرتا ہے:
1۔ لوگوں کو توحید کی طرف دعوت دینا اور طاغوت سے دور رکھنا: {وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فىِ كُلّأُمَّةٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللَّهَ وَ اجْتَنِبُواْ الطَّاغُوت} یقیناً ھم نے ھر امت میں ایک رسول بھیجا ہے، تاکہ تم لوگ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو۔
2۔ انسانی معاشرے میں عدل و انصاف نافذ کرنا:{لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَ أَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَ الْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْط} بےشک ھم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے، تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں۔
3۔ انسان کی تعلیم و تربیت: {هُوَ الَّذِى بَعَثَ فىِ الْأُمِّيِّنَ رَسُولًا مِّنهْمْ يَتْلُواْ عَلَيهْمْ ءَايَاتِهِ وَ يُزَكِّيهِمْ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَ الحْكْمَة} اس خدا نے مکہ والوں میں ایک رسول بھیجا ہے، جو انھی میں سے تھا، تاکہ وہ ان کے سامنے آیات کی تلاوت کرے، ان کے نفوس کو پاکیزہ بنائے اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے۔
4۔ باھمی اختلاف کی صورت میں فیصلہ کرنا:{كاَنَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّنَ مُبَشِّرِينَ وَ مُنذِرِينَ وَ أَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقّ لِيَحْكُمَ بَينْ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُواْ فِيه} (فطری لحاظ سے) سارے انسان ایک قوم تھے۔ پھر اللہ نے بشارت دینے والے اور ڈرانے والے انبیاء بھیجے اور ان کے ساتھ برحق کتاب نازل کی، تاکہ وہ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کریں۔
مذکورہ بالا مطالب سے یہ حقیقت واضح ھو جاتی ہے کہ نبوت انسان کی فردی، اجتماعی، مادی اور معنوی زندگی سے مربوط ہے اور انبیاء کی ھدایت بھی انسان کی زندگی کی تمام جھات کو شامل ہے۔ اگرچہ عقل و حس بھی انسان کی ھدایت میں کردار ادا کرتی ہیں، لیکن حقیقت میں جس طرح انسان عملی و عقلی ھدایت کا محتاج ہے، اسی طرح وحی پر مبنی ھدایت کی بھی ضرورت ھوتی ہے اور ان دونوں ھدایتوں کا سرچشمہ ذات الٰھی ہے، جو انسانوں پر حجت ہے۔
امام موسٰی کاظم علیہ السلام انبیاء اور ائمہ اطھار علیھم السلام کو خداوند متعال کی ظاھری حجت اور عقل کو خداوند متعال کی باطنی حجت قرار دیتے ہیں: {وان للله علی الناس حجتین :حجة ظاهرة و حجة باطنة : فاما الظاهرة فالرسل و الانبیاء و الائمة علیهم السلام و اما الباطنة فالعقول}
خواجہ نصیر الدین طوسی انبیاء کی بعثت کے اھداف کو بیان کرتے ھوئے لکھتے ہیں: انبیاء اور پیغمبروں کی ضرورت اس لئے ہے، تاکہ وہ انسانوں کو خالص عقائد، پسندیدہ اخلاق اور شایستہ اعمال سکھائیں، جو انسان کی دنیوی و اخروی زندگی کے لئے فائدہ مند ھو، نیز ایسے اسلامی معاشرے کی بنیاد رکھیں، جو خیر و کمال پر مشتمل ھو اور امور دینی میں ان کی مدد کرے۔ علاوہ ازیں جو لوگ صراط مستقیم سے منحرف ھو جائیں، انھیں مناسب طریقے سے کمال و سعادت کی طرف دعوت دیں۔
تحریر: محمد لطیف مطھری کچوروی
حوالہ جات:
1۔ امام خمینی رہ
2۔ امام خامنہ ای [17 نومبر 1998ء]
3۔ نھج البلاغۃ، خطبہ 143
4۔ نھج البلاغۃ، خطبہ 1
5۔ نھج البلاغۃ، خطبہ 144
6۔ نساء، 165
7۔ نحل،36
8۔ حدید،25
9۔ جمعہ،2
10۔ بقرۃ،213
11۔ اصول کافی، ج1 کتاب العقل و الجھل، حدیث 12
12۔ تلخیص المحصل، ص367