حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی یونیورسٹی عباسی دور میں سب سے نمایاں جامعہ تھی جو علمی زندگی کے امور انجام دے رھی تھی آپ نے مختلف علوم کے اقسام شائع کئے جن کو لوگ اس وقت تک نھیں جانتے تھے ،اس یونیورسٹی نے بھترین مفکر ،منتخب فلسفی اورنامورعلماء پیش کئے۔
بعض محققین کا کھنا ہے :(اس مقام پر اس حقیقت کا بیان کرنا واجب ہے کہ ترقی پر گامزن ھونے کیلئے اسلامی ثقافت اور عربی فکر اسی یونیورسٹی کی مرھون منت ہیں اور اس کے عمید و سردار امام جعفر صادق علیہ السلام نے علمی تجدد اور قیمتی میراث چھوڑی ہے )۔
عارف ثامر کا کھنا ہے : (علمی میدان پر امام صادق علیہ السلام کے سلسلہ میں گفتگو کرنا واجب ھوگیا کہ مدرسۂ فکر کے پھلے بانی آپ ہیں ،فلسفۂ باطنی کی تعلیم کا پھلا مرکز قائم کرنے والے آپ ھی ہیں نیزعلم کیمیاء کے موجد بھی آپ ھی ہیں جس کے سلسلہ میں جابر بن حیان صوفی طرسوسی نے گفتگو کی ہے ، آپ ھی نے عقل اسلامی کو اس کے محدود دائرہ سے نکال کرخوشگوار اور کھلی فضاعطا فرما ئی جس کے ھر پھلو میں صحیح و سالم فکری اور علمی آزا دی پائی جاتی ہے جومنطق اور حقیقت پر مبنی ہے ) ۔ھم نے اس یونیورسٹی کے متعلق حیات الامام الصادق علیہ السلام میں مفصل طور پر گفتگو کی ہے اوراب ھم ذیل میں اس کی بعض بحثوں کی طرف اجمالا اشارہ کرتے ہیں :
یونیورسٹی کا مرکز
جس یونیورسٹی کی امام صادق علیہ السلام نے بنیاد ڈالی اس کا بڑا مرکز یثرب میں تھا اور جامع نبوی عظیم میں آپ اپنے محاضرات و دروس دیا کرتے تھے اور بعض اوقات آپ کے بیت الشرف کے صحن میں بھی یہ دروس برقرار ھوتے تھے ۔علمی وفود عالم اسلام کے مختلف مقامات کے بزرگان فضیلت جلدی جلدی اس درسگاہ سے کسب فیض کے لئے حاضر ھونے لگے ۔
سید عبد العزیز الاھل کا کھنا ہے :(کوفہ ،بصرہ ،واسط ،حجازاورھر قبائل بنی اسد،غنی ،مخارق ، طیّ ،سلیم غطفان ،غفار، ازد ،خزاعہ ،خشعم ،مخزوم ،بنی ضبّہ ،قریش کے لوگ مخصوصا حارث بن عبدالمطلب ،بنی حسن بن علی، اپنے بچوں کو اس درسگاہ میں تعلیم دین حاصل کرنے کیلئے بھیجنے لگے ، ان کے علاوہ عرب اور فارس کے کچھ آزاد قبیلے خاص طور سے شھر قم کے علماء نے بھی اپنے بچوں کو امام صادق علیہ السلام کی درسگاہ میں تحصیل علم کیلئے روانہ کیا)۔ اقالیم اسلامیہ نے مشترک طورپراپنے بچوں کو امام کے علوم سے استفادہ اور نسل نبوت سے احکام شریعت حاصل کرنے کے لئے امام کی خدمت میں روانہ کیا ۔
طلبہ کی تعداد
امام جعفرصادق علیہ السلام کی یونیورسٹی کے طالب علموں کی تعداد چار ھزار تھی ،یہ بھت بڑی تعداد تھی جس کی اس دور کے علمی مدرسوں میں کوئی نظیر نھیں ملتی ،حافظ ابو عباس بن عقدہ ھمدا نی کوفی نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے حدیث نقل کر نے والے راویوں کے نام کے متعلق ایک کتاب تالیف کی ہے جس میں چار ھزار طلاب کے نام تحریر کئے ہیں ۔
ڈاکٹر محمود خالدی کا کھنا ہے :( ’’امام جعفر صادق علیہ السلام ‘‘کے مؤثق راویوں کی تعداد چار ھزار تھی ھم اس بڑی تعداد سے بالکل بھی متعجب نھیں ہیں بلکہ اگر اس کے برعکس واقع ھو اور نقل کیا جائے تو تعجب کا امکان ہے )۔ محقق نے معتبر میں کھا ہے : (امام جعفر صادق علیہ السلام ‘کے زمانہ میں ایسے علوم شائع ھوئے جن سے عقلیں مبھوت ھو کر رہ گئیں ،امام جعفر صادق علیہ السلام سے تقریبا چار ھزار راویوں نے روایت کی ہے )۔
سید محمد صادق نشأت کا کھنا ہے : امام جعفر صادق علیہ السلام کا بیت الشرف یزدان کی یونیورسٹی کے مثل تھا جو ھمیشہ علم حدیث ،تفسیر ،حکمت اور کلام کے بڑے بڑے علماء سے چھلکتا رھتا تھا ، اکثر اوقات آپ کے درس میں دو ھزار طلبا حاضر ھوتے تھے اور بعض اوقات چار ھزار مشھور علماء حاضر ھوتے تھے ۔
آپ کے شاگردوں نے آپ کی وہ تمام احادیث اور دوروس تحریر کئے جو بعد میں شیعہ یا جعفری مذھب کے علمی خزانہ کے مانند کتابوں کی شکل میں آگئے ‘‘۔ھم نے ’’حیاۃ الامام الصادق ‘‘میں آپ کے تین ھزار چھ سو باسٹھ راویوں کاتذکرہ کیا ہے ۔
یونیورسٹی کے شعبے
وہ اکثر علماء جو آپ کی درسگاہ سے فارغ التحصیل ھو کر اپنے وطن واپس پلٹے انھوں نے اپنے اپنے وطن میں علمی اور دینی مدرسے قائم کئے ۔اور آپ کے جامعہ کی سب سے بڑی شاخ کی بنیادکوفہ میں ڈالی گئی جو جامعہ کوفہ کے نام سے مشھور ھوا ۔
حسن بن علی وشّاء کا کھنا ہے :(میں اس ’’یعنی مسجد کو فہ ‘‘مسجد میں پھنچا تو مجھ سے نو سو شیخ ’’علماء ‘‘ نے کھا کہ :مجھ سے جعفر بن محمدنے حدیث بیان کی ہے )۔ کوفہ میں وسیع پیمانہ پرعلمی تحریک کا آغاز ھوا ،جیسے اس کے علاوہ دوسرے مقامات پر وسیع پیمانہ پرعلمی نھضت قائم ھوئی تھی ۔
سید میرعلی ھندی کھتے ہیں : ’’اس دور میں علم منتشر کرنے میں کو ئی پریشانی نھیں تھی یعنی فکر ایک دم آزاد تھی اور اس نے عقل کو اس کے محور سے جدا کرنے میں مساعدت کی ،اور عالم اسلام میں عام طور پر ھرجگہ فلسفی بحثیں ھونے لگیں،اس بات کو کبھی بھی فراموش نھیں کیا جاسکتا کہ اس بلند و بالا تحریک کا آغاز علی بن ابی طالب کے فرزند امام جعفر جن کو صادق علیہ السلام کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے ،نے کیا آپ نے افق تفکیر کو خوش آمدیدکھا ،آپ بھت گھری فکر کے مالک تھے ، اپنے زمانہ کے تمام علوم سے آشنا تھے ،حقیقت میں آپ ھی وہ شخصیت تھے جنھوں نے سب سے پھلے اسلام میں مشھور فلسفی مدرسوں کی بنیاد ڈالی ،حقیقت میں جن لوگوں نےبعد میں مختلف جگھوں پرمدرسہ کی بنیاد ڈالی وہ خود امام کے دروس میں حاضر ھوتے تھے ۔آپ کے درس میں دور دراز کے علاقوں سے بھی لوگ فلسفہ کے دروس پڑھنے کیلئے حاضر ھوتے تھے )۔
بھر حال کوفہ میں بعض علمی خاندان کو امام کی شاگردی کا شرف حاصل ھوا ، اور بھت سے خاندان جیسے آل حیان تغلبی ، آل اعین ،بنی عطیّہ ،بیت بنی درّاج وغیرہ اور دوسرے علمی خاندانوں نے علم فقہ اورحدیث میں تخصّص کیا۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے کوفہ میں دو سال سے زیادہ قیام کیا ،آپ نے بنی عبد القیس کے یھاں قیام کیا،جھاں پر آپ سے احکام دین کے متعلق فتوے معلوم کرنے والے شیعوں کاھجوم لگا رھتا تھا، محمدبن معروف ھلالی نے امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس ھجوم کے متعلق یوں بیان کیا ہے کہ : میں مقام حیرہ پر جعفر بن محمد کی خدمت میں حاضر ھوا تو وھاں پر لوگوں کا ازدھام تھا ،چوتھے دن میں نے ان کو اپنے قریب ھوتے دیکھا ، لوگ ان سے دور ھوتے گئے، امام اپنے جد امیر المو منین علیہ السلام کی قبر کی طرف گئے تو میں بھی ان کے نقش قدم پر قدم رکھتا ھوا اُن کے ساتھ ھو لیا اور ان کا کلام سنا ۔علمی طریقے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے دروس ھر قسم کے علوم و معارف اور ثقافتی ضرب المثل کو شامل ہیں آپ نے مندرجہ ذیل موضوعات میں دروس دئے :
علم فقہ ۔
علم حدیث ۔
علوم قرآن ۔
علم طب ۔
کیمیاء۔
فیزیک۔
علم نبات ان کے علاوہ آپ نے دوسرے ایسے علوم کی تعلیم بھی دی جن کا آنے والے معاشرہ اور صناعت میں اثر تھا ۔ان تمام علوم میں نمایاں طور پر امام نے جس علم کا بھت زیادہ اھتمام کیا وہ علم فقہ اسلامی ہے جس میں آپ نے عبادات ، معاملات ،عقود اور ایقاعات کی تشریح فرما ئی،اور وہ احادیث شریفہ جن کی طرف امامیہ فقھاء احکام شرعی کے استنباط کے لئے رجوع کر تے ہیں ۔
ماخوذ از کتاب؛ ائمہ طاھرین کی سیرت سے خوشبوئے حیات
امام جعفر صادق علیہ السلام کی یونیورسٹی اور اس کے امتیازات
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1442