اس دور میں دین اسلام تو بے چارہ ھوگیا ہے، بعض لوگ تو دین کو ایک پرمٹ کے طور پر استعمال کرنے لگے ہیں، اب آپ دینی لبادے میں کچھ بھی کر سکتے ہیں، آپ اللہ اکبر کے نعرے لگا کر مسلمانوں کے گلے کاٹیں تو یہ بھی جھاد ہے، آپ اسلام کا نام لے کر فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی مدد کریں تو یہ بھی نیکی ہے، آپ کی گاڑی سے شراب کی بوتلیں پکڑی جائیں اور آپ مبلغ اسلام کھلوائیں تو یہ بھی روا ہے، آپ کلمہ طیبہ پڑھ کر مسلمانوں پر خودکش حملے کریں تو یہ بھی جھاد ہے۔۔۔۔ گذشتہ دنوں صوبہ خیبر پختونخوا کے شھر مردان میں واقع عبدالولی خان یونیورسٹی میں مشال یا مشعل نامی طالب علم کو جس بے دردری اور لاقانونیت کے ساتھ قتل کیا گیا، اس لاقانونیت کے لئے بھی دین کا سھارا ڈھونڈا جا رھا ہے۔
میڈیا رپورٹس اور پولیس حکام کے مطابق مقامی پولیس جب یونیورسٹی پھنچی تو مشتعل مظاھرین مقتول کی لاش جلانے کی کوشش کر رھے تھے۔ یعنی اگر مقامی پولیس لاش کو اپنی تحویل میں نہ لیتی تو اس لاش کو جلا کر مزید ثواب حاصل کرنے کا پروگرام بھی تھا۔
اس کے ساتھ ھی اگر مقتول پر حملے کی ویڈیو دیکھی جائے تو اللہ اکبر کے نعرے بھی صاف سنائی دیتے ہیں۔ یعنی جو طریقہ داعش اور طالبان کا تھا، وھی یھاں پر بھی نظر آرھا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ داعش اور طالبان کے تانے بانے مدرسوں سے ملائے جاتے تھے اور یہ سب کچھ ایک یونیورسٹی میں ھوا ہے۔ بس اب آپ یوں سمجھ لیجئے کہ وھی دماغ جو طالبان اور داعش کے پیچھے فعالیت کر رھا تھا اب یونیورسٹیوں میں بھی فعال ھوگیا ہے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ مقتول توھین مذھب کا مرتکب ھوا ہے تو پھر بھی اسے سزا دینا ریاست کی ذمہ داری ہے یا عام لوگوں کی!؟
ایک عرصے سے ھم سنتے چلے آ رھے تھے کہ پاکستان کی یونیورسٹیوں میں بھی قبضہ گروپس ہیں، ھاسٹلز میں کمروں پر قبضے کئے جاتے ہیں، خوف و ھراس پھیلایا جاتا ہے، ھاسٹلوں میں دھشت گرد پناہ لیتے ہیں اور بڑی بڑی نامی گرامی دھشت گرد تنظیمیں یونیورسٹیوں میں طلباء کی برین واشنگ کر رھی ہیں۔ وہ دعوے کتنے سچے تھے، اس کا تو ھمیں کچھ علم نھیں، لیکن اس حادثے کی ویڈیوز دیکھنے کے بعد یہ حقیقت بالکل سمجھ میں آ رھی ہے کہ عدم برداشت اور خون خرابے کا جو طوفان ھمارے بعض مخصوص مدارس سے اٹھا تھا، اب اس نے ھماری یونیورسٹیوں کے اندر بھی اپنے وجود کا برملا اظھار کر دیا ہے۔
ھمارا قومی تجربہ اس بات پر شاھد ہے کہ عدم برداشت اور دینی لیبل کو استعمال کرنے کا یہ سلسلہ کبھی بھی دلیلوں اور مناظروں سے نھیں رک سکتا۔ ھمیں قومی و اجتماعی طور پر اس واقعے کو ایک یونیورسٹی کے طالب علم کے قتل کے طور پر دیکھنے کے بجائے، اپنی ملکی تاریخ میں متشدد تحریکوں کے تناظر میں دیکھنا چاھیے۔ ایسی تحریکیں جب شروع ھوتی ہیں تو ایک آدھ فرد سے ھی شروع ھوتی ہیں اور جب آگے بڑھتی ہیں تو ایک ناسور کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔
پاکستان میں جب فرقہ واریت کی تحریک شروع ھوئی تھی تو ایک مخصوص فرقے کے دینی مدارس کے طالب علموں نے شروع کی تھی، ان دنوں میں صرف ایک ھی فرقے کے خلاف تقریریں کی جاتی تھیں اور اسی فرقے کے افراد کو چن چن کر مارا جاتا تھا۔ دیگر فرقوں کے لوگ اس مسئلے سے لاتعلق اور خاموش رھتے تھے، پھر یہ مسئلہ اتنا آگے بڑھا کہ پاک فوج کے جوانوں سے لے کر مارکیٹوں اور بازاروں سمیت سب کو دھشت گردی کا نشانہ بنایا گیا اور اب دھشت گردی کسی ایک فرقے کے بجائے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔
یہ واقع بھی بظاھر ایک یونیورسٹی کے طالب علم کے قتل سے شروع ھوا ہے، اس پر یونیورسٹیز اور کالجز کے سنجیدہ حلقوں کو بیٹھ کر سوچنا چاھیے کہ اس کی جڑیں کھاں ملتی ہیں!؟ کوئی چاھے یونیورسٹی سے تعلق رکھتا ھو یا دینی مدرسے سے، ھم سب کے سامنے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی بطور نمونہ عمل موجود ہے۔ آپ زندگی کے تمام پھلووں میں ھمارے لئے نمونہ عمل ہیں اور خداوند عالم نے بھی آپ کو عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔
ختمِ نبوت ﷺ پر ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ تمام مسلمان آپ کی سیرت طیبہ کو نمونہ عمل سمجھ کر اس پر عمل کریں۔ حضورﷺ نے اپنی حیات طیّبہ میں حسنِ اخلاق، عفو و درگزر، حلم اور معافی کی لافانی مثالیں قائم کی ہیں۔ فتح مکہ کے موقع پر آپ کے سامنے ان گستاخوں کو بھی لایا گیا کہ جن میں سے کسی نے آپؐ کے چچا حضرت حمزہؓ کے سینے میں نیزہ مارا تھا اور کسی نے ان کی لاش کا مثلہ کیا تھا اور کسی نے ان کا جگر چبایا تھا۔ سرور دوعالم ﷺ نے ان سارے گستاخوں کو معاف کر کے پورے عالم بشریت میں احسان و نیکی کی ایک لازوال مثال قائم کی۔ حضورﷺ نے میدان جنگ میں لڑنے والوں اور جنگی قیدیوں کے لئے بھی آداب و اخلاق مقرر کئے اور آپ نے جانوروں کو ذبح کرنے کی بھی شرائط مقرر کیں۔
لیکن آج لوگوں کے سامنے عفو و درگزر اور بخشش و احسان کو فلٹر کر ایک مخصوص اسلام کو پیش کیا جا رھا ہے۔ یونیورسٹیوں میں مذھبی قتل و غارت یقیناً ایک افسوسناک المیہ ہے۔ اس طرح کے واقعات کو روکنے کا صرف یھی طریقہ ہے کہ یونیورسٹیوں میں بھی ختم النبیین حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی سیرت طیّبہ کو بطور نمونہ عمل پیش کیا جائے۔
تمام سیاسی، رفاھی اور دینی جماعتوں و شخصیات کو لاتعلق رھنے کے بجائے اس مسئلے پر اپنا موقف پیش کرنا چاھیے اور مشترکہ اعلامیہ جاری کرکے یونیورسٹیز کے طالب علموں کی رھنمائی کرنی چاھیے۔ حکومت کو چاھیے کہ تمام مصلحتوں سے بالاتر ھو کر یونیورسٹیوں سے قبضہ گروپس اور متشدد سوچ کا خاتمہ کرے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ لوگوں کو انصاف فراھم کیا جائے، چونکہ یہ ایک منطقی بات ہے کہ کسی بھی ملک میں اس وقت لاقانونیت کو فروغ ملتا ہے، جب لوگوں کا اعتماد قانون نافذ کرنے والے اداروں سے اٹھ جاتا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اولین ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ وہ لاقانونیت کو جڑوں سے اکھاڑیں، اسی میں پاکستان اور اسلام کی بھلائی ہے۔
تحریر: نذر حافی
دین تو بے چارہ ہے۔۔۔
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1446