www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

عزاداری کی زندہ و جاوید حقیقت کا آغاز اس وقت ھوا جب کربلائے معلٰی کی ریت میں پہلے شھید جناب حر بن یزید ریاحی کا پاکیزہ لھو

 جذب ھوا۔ معرکۂکربلا ھر گزرتے لمحے کے ساتھ اپنی منزلیں طے کرتا رھا
 اور بالآخر وہ وقت آیا جب سید الشھداء علیہ افضل السلام کی شھادت کی خبر بذریعۂ راھوار آپکے پسماندگان تک پھنچی اور خیموں میں پھلی مجلسِ عزا کا آغاز ھوا۔ امام علیہ السلام کی شھہ رگ کے قطع ھوتے ساتھ ھی دین ِ خدا کو ابدی زندگی مل گئی اور اسی شھہ رگ کے کٹنے کا ذکر اس امت کی حیات جاودانی کا باعث بن گیا۔
عصر عاشور سے شام غریباں، شام غریباں سے گیارہ محرم کی سیاہ رات، اس سیاہ رات کے اختتام پر طلوع ھونے والے دن کو ریگزار کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام تک کا ھولناک سفر، شام کے زندان کی کربناک قید اور شام سے کربلا اور پھر کربلا سے مدینہ تک سید الشہداء علیہ السلام کی شھادت کا ذکر، عزاداری کی وہ ٹھوس اور لازوال بنیاد تھی جسے خانوادۂ اھلبیت کی مخدرات، بیمار امام اور کم سن بچوں نے ایسی انمول قیمت دے کر رکھی جسکا اندازہ صرف اللہ رب العزت کو ہے۔ ذکرکربلا کا یہ سورج تدریجا” بلند ھوتا رھا اور کچھ ھی عرصے میں اسکے نور نے کل کائنات کا احصاء کر لیا۔ اور آج خدا کے فضل و کرم سے ھفت آسمان سے لیکر اس مادی زمین کا چپہ چپہ ذِکر ِ حسین سے گونج رھا ہے۔ تیرہ سو بھتر سالوں کی مسافت پر مشتمل یہ سفر آج بھی جاری ہے، تاقیامت اور روایات کے مطابق زندگانی بھشت میں بھی جاری رھیگا۔ کیونکہ یہ وہ ابدی حقیقت ہے جو شاید وجھہ ِ تخلیق کائنات تھی۔ خدا کو منظور تھا کہ حسین کی سپاہ ِ بی نظیر کے ذریعے حق کو باطل سے یوں جدا کرے کہ حقیقت عیاں ھوجائے۔ خدا کا یہ وعدہ تھا کہ "فاذکرونی اذکرکم" یعنی تم میر ذکر کرو، تمھارا ذکر کرنا میرا کام ٹھہرا۔ ۱۰ محرم ۶۱ھ کو امام عالی مقام نے خدا کا ذکر اس جدا انداز میں کیا کہ آج چھاردانگ عالم میں ذکرحسین کا چرچا ہے۔ عزاداران حسین دنیا کے تمام خطوں میں اس عبادت کو اپنے اپنے انداز میں ادا کررھے ہیں جو یقینا” ان عزادارن کے لئے پیغام حیات و نجات ہے۔
جھاں یہ دنیا سمٹ کر ایک عالمی دیھات کی صورت اختیار کرگئی ہے وھیں نہ صرف ھر موجود کے اسلوب پر نمایاں تبدیلیاں رونما ھوئی ہیں بلکہ تقاضے بھی تبدیل ھو رھے ہیں۔ ھمارا سلام ھو ان ھستیوں کے حضور جنھوں نے اپنی جان، مال، عزت، آبرو اور سب کچھ دے کر اس عظیم نعمت کی حفاظت کرکے ھم تک پھنچا دی۔ اموی، عباسی اور مغلیہ ادوار میں جب کہ اھلبیت اطھار علیھم السلام کا نام تک لینا قابل ِ تعزیر جرم تھا، ھمارے اسلاف نے نھایت جانفشانی سے سینہ بہ سینہ ذکر حسین کو ھم تک پھنچا دیا اور آج یہ عالم ہے کہ ھم ڈنکے کی چوٹ پر شھروں کی شاھراھوں پر یاحسین کی صدائیں بلند کرتے ہیں۔ آج جس آزادی اور بے خوفی سے ھم اس عبادت کو انجام دے رھیں ہیں، یہ سب ھمارے بزرگوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ اب یہ ذمہ داری ھمارے کاندھوں پر عائد ھوتی ہے کہ جس حفاظت کے ساتھ یہ نعمت عظمٰی ھم تک پھنچی، ھم بھی حفاظت کا حق ادا کرتے ھوئے یہ امانت اگلی نسلوں تک منتقل کریں۔
جھاں ظلم کے تاریک ادوار میں اس نعمت کی حفاظت ایک گراں ذمہ داری تھی، وھیں آزادی کے اس دور میں بھی اسکی حفاظت کسی مشکل سے کم نھیں کیونکہ آزاد معاشروں کے چند عاقبت نااندیش نمائیندگان ِ شیطان، عزاداروں کے بھروپ میں فرشِ عزا پر براجمان ھوگئے، جنکا مقصد عزائے حسین نھیں اپنے چند مادی فوائد کی حفاظت کرنا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر اس عبادت کو خلوص نیت سے ادا کیا جائے تو ابدی زندگی تو ملتی ھی ہے، اسکے ساتھ ساتھ مادی فوائد بھی میسر آجاتے ہیں۔ آج یہ عام مشاھدے کی بات بن چکی ہے کہ اکثر مقامات پر مجلسِ حسین کچھ اس انداز میں برپا ھورھی ہے کہ بانیان مجلس کو ثواب کا لالچ ہے، شرکائے مجلس کو تبرک اور لنگر کی چاہ ہے جبکہ خطیب فیس اور دادوتحسین کے پیچ و خم میں الجھ کر رہ گیا ہے۔ یہ بات عقلوں سے محو ھوگئی کہ ذکر حسین رسم نھیں، شھہ رگ ہے جو ضامن حیات ھوتی ہے۔ اگر شھہ رگ میں خون ھی باقی نہ رھا تو جو باقی ہے وہ محض ایک لاش ہے اور کچھ بھی نھیں۔ آج جھاں ھر چیز کے تقاضے بدل گئے، ھمیں بھی اپنے انداز بدلنے ھوں گے اور اپنے اعمال، افعال اور اقوال کا بغور جائزہ لینا ھوگا کہ آیا ھم عزاداری سید الشہداء کا حق ادا کررھے ہیں یا اسکا حق پامال کررھے ہیں۔ کیا جو فرش عزاء ھم بچھا رھے ہیں، وہ محض ایک خاندانی رسم ہے یا سیدہ زھرا سلام اللہ علیھا کے استقبال میں بچھایا گیا قالین۔ اس فرش عزا سے متعلق جو افراد ہیں وہ پیغام عاشورہ سے زندگی حاصل کررھے ہیں یا محض دسترخوان سے غذا کے چند ٹکڑے۔ سیاہ چادر تلے محض لکڑی کی ایک مسند ہے یا حقیقتا” منبر۔ اس مسند پر براجمان شخص رہ ِ حسین کا ایک مبلغ بے لوث ہے یا اپنی جیب کو تولنے والا تاجر خون حسین۔ سید الشہداء کی شان میں ادا ھونے والے الفاظ صرف ردیف و قافیہ کی پیشکش ہیں یا پیغام حسینی سے لبریز اشعار۔ ھمارے سینوں پر پڑنے والے ھاتھ کیا صرف ھمارا سینہ پیٹ رھے ہیں یا یزید کے منہ پر طمانچوں کی صورت میں پڑ رھے ہیں۔ مجلس سے کیا ھم محض ثواب حاصل کررھے ہیں یا اپنی روحانی بالیدگی کا سامان اکٹھا کررھے ہیں۔ ان تمام نکات پر ھر ھر عزادار کو ذاتی اور اجتماعی طور پر غور کرنا ھوگا تاکہ اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ معاشرے کی اصلاح کا بھی سامان پیدا ھو اور ھم وہ حقیقی عزاداری بجا لائیں، جسکی بنیاد سیدہ زینب سلام اللہ علیھا اور سید سجاد علیہ السلام نے اپنی کل کائنات خدا کے حضور پیش کرکے کربلا کی ریت پر ڈالی تھی۔ خدا ھمیں وہ توفیق بخشے کہ ھم ایسا فرش عزا بچھائیں کہ بی بی سیدہ سلام اللہ علیھا دیگر ساکنان کساء اور حاملان عرش کے ھمراہ اس کو رونق بخشیں اور اس مجلس سے ھمیں روحانیت و عرفان کے وہ پر نصیب ھوں جن کے بل پر پرواز کرتے ھوئے ھم سیدالشہداء علیہ السلام کے حضور پیش ھو جائیں اور ھمارا وجود اس بارگاہ ِ اقدس میں شرف قبولیت پا جائے۔
 

Comments   

0 #1 rizvi 2016-02-20 13:23
salam
bahut acha artical hai
Quote

Add comment


Security code
Refresh