محرم کا دسواں دن ـ جو عاشورہ کھلاتا ہے ـ اسلامی تھذیب اور تعلیمات کے مطابق ـ عزاداری، سوگواری اور ماتم کا عظیم ترین دن ہے۔
دس محرم سنہ ۶۱ھجری (بمطابق اکتوبر ۶۸۰ عیسوی) اھل بیت رسول اللہ (ع) پر مصائب کے طوفان ٹوٹ گئے ، فرزند رسول [ص] امام حسین بن علی علیھما السلام اپنے اعزاء و اقرباء اوراصحاب و انصار کے ساتھ نھایت دردناک اور دلسوز انداز سے جام شھادت نوش کر گئے۔
امام حسین (ع) جو کوفہ کے عوام کی دعوت پر اس شھر کے مقصد سے مدینہ منورہ سے روانہ ھوئے تھے تا کہ کوفیوں کی مدد سے ظلم و جور کی بیخ کنی کریں کوفہ پھنچنے سے قبل ھی اس شھر کے باشندوں کی عھدشکنی کے نتیجے میں کربلا کے مقام پر یزیدی لشکر کے نرغے میں آگئے۔
امام حسین (ع) اور آپ (ع) کے خاندان اور اصحاب و انصار نے ظلم و جور اور فسق و فجور کی حکمرانی کے سامنے سر تسلیم خم نہ کیا اور غاصب و ظالم یزیدی ملوکیت کی بیعت سے انکار کیا تو یزیدیوں نے خاندان رسول (ع) پر پانی بند کردیا اور امام حسین (ع) اوران کے آل و اصحاب تشنہ لب ھوتے ھوئے مظلومانہ طریقے سے شھید ھوئے مگر ان کی شجاعت و دلیری اور جوانمردی و جانفشانی تاریخ کے ماتھے پر نقش ھوگئی۔
ظلمت و شقاوت کی فوجیں سیدانیوں ، بچوں اور بڑوں کو ـ جو کربلا میں شھید نھیں ھوئے تھے ـ اسیر بنا کر کوفہ و شام کی جانب لے گئيں تا کہ اھل کوفہ و شام کو اپنی فتحمندی جتائیں مگر یھی عمل یزیدی حکمرانوں کی شکست و بدنامی کی اساس ثابت ھوا۔
عاشورہ ، انبیاء اور صالحین کی سوگواری کا دن
عاشورہ کی مصیبت اتنی عظیم اور کربلا کی داستان اتنی المناک و سوزناک ہے کہ نہ صرف اس واقعہ کے بعد بلکہ اس سے قبل بھی انبیاء و مرسلین اور بزرگوں نے اس واقعہ کی یاد میں گریہ و زاری اور سوگواری و عزاداری کا اھتمام کیاہے۔
امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ایک روز ام المؤمنین ام سلمہ (س) پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں حاضر ھوئیں، دیکھا کہ رسول اللہ (ص) نے امام حسین (ع) کو اپنے سینے پر بٹھا رکھا ہے اور آپ (ص) رو رھے ہیں۔
آنحضرت (ص) نے ام سلمہ کو دیکھ کر فرمایا: اے ام سلمہ! یہ جبرائیل ہیں جو مجھے خبر دے رھے ہیں کہ [میرا] یہ فرزند قتل کیا جائے گا۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: "و اما يوم عاشورہ فيوم اصيب فيه الحسين(ع) صريعاً بين اصحابه واصحابه حوله صرعى عراة " عاشورہ اس دن کا نام ہے جس دن حسین (ع) اپنے اصحاب و انصار کے درمیان قتل ھوئے اور زمین پر گر گئے اور آپ (ع) کے انصار بھی شھید ھوئے جبکہ دشمنوں کے ستم کی وجہ سے ان کے جسم پر لباس نہ تھا"۔
امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: "من كان عاشورہ يوم مصيبته و بكائه جعل الله عز و جل يوم القيامة يوم فرحه و سروره " روز عاشورہ جس شخص کی مصیبت اور گریہ و بکاء کا دن ھوگا( یعنی جو شخص عاشورہ کو اپنے لیے مصیبت اور گریہ و زاری کا دن قرار دے گا) خداوند متعال قیامت کو اس کے لیے خوشی اور فرحت کا دن قرار دے گا"۔
عاشورہ، پیروان اھلبیت(ع) کا یوم عزا و ماتم
پيروان اھلبیت رسالت (ع) بھی چودہ صدیوں سے اس روز کی یاد زندہ رکھتے آئے ہیں، اس روز عزاداری کرتے ہیں ، مجالس عزا بپا کرتے ہیں، شھداء کربلاکے لئے گریہ و بکاء کرتے ہیں اور دور و نزدیک سے امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرتے ہیں۔
اموی اور عباسی حکمرانوں کے تسلط کے زمانے میں ظالمین اور دشمنان اھل بیت (ع) امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کے وسیع و عریض مراسم کی اجازت نھیں دیتے تھے لیکن جب بھی اور جھاں بھی شیعیان اھل بیت (ع) طاقت و اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ھوئے ہیں اور جب بھی انھیں موقع ملا ہے عاشورہ کے ایام میں وسیع و عریض مراسم عزاداری کا اھتمام کیا ہے۔
پیروان اہلبیت رسول (ص) نے تاریخ عاشورہ کے آغاز سے لے کر اب تک اس روز کے آداب کا لحاظ رکھا ہے اور آج بھی ان آداب کو پوری طرح ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے جیسے: عزاداروں اور مصیبت زدہ انسانوں کی سی حالت اختیار کرنا، عزاداری و ماتمداری کرنا، لذتوں کو ترک کرنا، کام کاج پر جانے سے اجتناب کرنا، گھر کے لئے کچھ بھی ذخیرہ نہ کرنا، سوگواری اور گریہ کرنا، رلانا اور رونے کی صورت بنانا، ظھر تک کچھ بھی نہ کھانا پینا (فاقہ کشی)، زیارت عاشورہ بجا لانا و...
عاشورہ، حریت اور استقامت کی علامت
عاشورہ نہ صرف عزا و ماتم کا عظیم دن ہے بلکہ صدیوں سے اب تک حق و باطل کی دائمی جنگ، دین و عقیدے کی راہ میں فداکاری اور جانثاری کے دن کی حیثیت سے مسلم اور غیر مسلم حریت پسندوں کے لئے الھام بخش اور مشعل راہ ہے۔
جس طرح کہ امام حسین (ع) اپنے مختصر مگر با ایمان و شجاع انصار و اصحاب کے لشکر اور پر شکوہ عظمت کے ساتھ بے شمار اور سنگدل یزیدی افواج کے سامنے ڈٹ گئے اور کربلا کی سرزمین کو عشق ،حماسہ و حریت کے دائمی میدان میں بدل دیا، دنیا کے حریت پسند انسان بھی غاصبوں اور اھل ستم کے خلاف جدوجھد کرتے ھوئے اپنی تعداد اور ظاھری طاقت اور وسائل کو بنیاد نھیں بناتے اور جھاد و استقامت کے وقت دشمن کی تعداد اور طاقت کو بھی خاطر میں لائے بغیر شوق و جذبۂ جھاد میں محو ھوکر لڑتے ہیں سر کٹاتے ہیں مگر سر کبھی جھکاتے نھیں۔
گویا عاشورہ بھی دیگر ایام کے مانند ایک دن ھی تھا مگر اس دن کا دامن ابدیت تک پھیل گیا اور یہ دن دلوں اور ضمیروں کی بے انتھاء گھرائیوں پر اس قدر اثرا انداز ھوا کہ سنہ ۶۱ ھجری میں اس دن سے لے کر اب تک ظلم و جور اور ظالموں و ستمگروں کے خلاف امام حسین علیہ السلام کے نام سے سینکڑوں تحریکیں وجود میں آئی ہیں اور آتی رھیں گی۔