جناب ابراھیم علیہ السلام گھڑے پر سوار اس طرف سے گزر رھے تھے کہ دفعتاً آپ کے گھوڑے کو ٹھوکر لگی آپ گھوڑے سے زمین پر گرے
سر زخمی ھوا خون جاری ھوا آپ استغفار باری میں مشغول ھوئے اور پروردگار سے نھایت فروتنی سے گزارش کی ،
مالک ظھر فرما کہ مجھ سے ایسی کون سی کوتاھی سرزد ھوئی جس کا سبب یہ ہے ۔ جناب جبرئیل خدائے جلیل کی طرف سے حاضر ھوئے کہ اے خلیل خدا تم سے کوئی قصور و کوتاھی نھیں ھوئی بلکہ یہ زمین مشھد حسین علیہ السلام ہے یھاں محمد مصطفیٰ (ص) کا لخت جگر ، علی علیہ السلام کا نور نظر تین روز کا بھوکا پیاسا جورو جفا کے ساتھ ظلم کیا گیا میں نے چاھا کے آپ بھی اس مصیبت حسین میں شریک ھوں اور حصہ لیں جناب ابراھیم علیہ السلام نے پھر عرض کی اے جبرئیل اس سعادتمند کا قاتل کون ھوگا ۔ آپ نے جواب دیا کہ یزید بے دین ھوگا جس پر اھل زمین و آسمان لعنت کریں گے ۔ اے ابراھیم علیہ السلام سب سے پھلے قلم لے اس مردود پر لعنت لوح پر لکھی تو ارشاد باری ھوا کہ اس لعنت لکھنے کے سبب ، اے قلم تو مستحق ثناءاور سزاوار مدح ھوا ہے ۔ یہ سن کر جناب ابراھیم علیہ السلام نے جانب آسمان اپنے ھاتھوں کو بلند کیا اور یزید پلید پر لعنت کی ۔ جناب ابراھیم علیہ السلام کے گھوڑے نے آمین کھی ، آپ نے اس سے کھا کہ اے اسب تونے کیا سمجھ کر آمین کھی تو اس نے جواب دیا کہ مجھے اس پر فخر ہے کہ آپ جیسا نبی مجھ پر سوار ھوتا ہے اور میں اس کی نحوست و پلیدگی کو سمجھ گیا اسی سبب میں لعنت کی ہے اسی کی وجہ سے آپ کو یہ رنج وتعب ھوا ہے ۔