آغاز تشیع کے سلسلہ میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں ، جنھیں اجمالی طور پر دو طبقوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: (۱)
۱۔ وہ صاحبان قلم اور محققین جن کا کھنا ہے: شیعیت کا آغاز رسول اعظم(ص)کی وفات کے بعد ھوا، خود وہ بھی چند گروہ میں تقسیم ھوجاتے ہیں۔
الف ) پھلے گروہ کا کہنا ہے : شیعیت کا آغاز سقیفہ کے دن ھوا ، جب بزرگ صحابہ کرام کی ایک جماعت نے کھا :حضرت علی علیہ السلام امامت و خلافت کے لئے اولویت رکھتے ہیں ۔(٢)
ب)دوسرے گروہ کا کھنا ہے : آغاز تشیع خلافت عثمان کے آخری زمانے سے مربوط ہے اور یہ لوگ اس زمانہ میں ، عبد اللہ بن سبا کے نظریات کے منتشر ھونے کوآغاز تشیع سے مربوط جانتے ہیں۔(۳)
ج)تیسرا گروہ معتقد ہے کہ شیعیت کا آغاز اس دن سے ھوا جس دن عثمان قتل ھوئے ،اس کے بعد حضرت علی(ع) کی پیروی کرنے والے شیعہ حضرات ان لوگوں کے مدمقابل قرار پائے ،جو خون عثمان کا مطالبہ کررھے تھے ، چنانچہ ابن ندیم رقمطراز ہیں:جب طلحہ و زبیر نے حضرت علی(ع) کی مخالفت کی اور وہ انتقام خون عثمان کے علاوہ کسی دوسری چیز پر قانع نہ تھے ، نیز حضرت علی(ع) بھی ان سے جنگ کرنا چاہھتے تھے تاکہ وہ حق کے سامنے تسلیم ہوجائیں ،اس دن جن لوگوں نے حضرت علی کی پیروی کی وہ شیعہ کے نام سے مشہور ہوگئے اور حضرت علی(ع) بھی خود ان سے فرماتے تھے:یہ میرے شیعہ ہیں ،(۴) نیز ابن عبدربہ اندلسی رقمطراز ہیں:
''شیعہ وہ لوگ ہیں جو حضرت علی(ع) کو عثمان سے افضل قرار دیتے ہیں۔(۵)
د)چوتھا گروہ معتقد ہے کہ شیعہ فرقہ روز حکمیت کے بعدسے شھادت حضرت علی(ع) تک وجود میں آیا۔ (۶)
ھ ) پانچواں گروہ آغاز تشیع کو واقعہ کربلا اور شھادت امام حسین(ع) سے مربوط قرار دیتاہے۔(۶)
۱۔ دوسرا طبقہ ان محققین کا ہے جو معتقد ہیں کہ شیعیت کا ریشہ رسول خدا(ص)کی حیات طیبہ میں پایا جا تا تھا،تمام شیعہ علماء بھی اس کے قائل ہیں ۔(۷)
بعض اھل سنت دانشوروں کابھی یھی کھنا ہے ،چنانچہ محمد کردعلی جو اکابرعلمائے اھل سنت سے ہیں ،کھتے ہیں :''رسول خدا صلیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں بعض صحابہ کرام شیعیان علی(ع) کے نام سے مشھور تھے۔(۸)
مذکورہ بالا نظریات کے پیش نظر کھا جا سکتا ہے کہ روز سقیفہ ، خلافت عثمان کا آخری دور،جنگ جمل ، حکمیت اور واقعہ کربلا وغیرہ وہ موارد ہیں جن میں رونما ھونے والے کچھ حادثات تاریخ تشیع میں مؤثر ثابت ھوئے ،چونکہ عبداللہ بن سبا نامی کے وجود کے بارے میں شک و ابھام پایا جاتاہے،لہٰذا ان ادوار میں شیعیت کا تشکیل پا نا بعید ہے ۔
کیونکہ اگر احادیث پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر محققانہ نظر کی جائے تو معلوم ھوتا ہے کہ ان سب سے پھلے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبانی بھت سی احادیث میں لفظ شیعہ حضرت علی(ع) کے چاھنے والوں کے لئے استعمال ھوا ہے ،جن میں سے ھم بعض کی طرف اشارہ کررھے ہیں، نیز یہ تمام احادیث اھل سنت و الجماعت کے نزدیک مقبول ہیںاور منابع احادیث میں ہیں ،جیسا کہ سیوطی جو کہ اھل سنت والجماعت کے مفسروںمیں سے ہیں اس آیۂ کریمہ: ''اولٰئکٔ ھم خیر البریة '' کی تفسیر میں پیغمبر اکرم(ص)سے حدیث نقل کرتے ہیں ، منجملہ یہ حدیث کہ پیغمبر(ص) اسلام نے فرمایا : اس آیۂ کریمہ: ''اولٰئکٔ ھم خیر البریة '' میں خیرالبریہ سے مراد حضرت علی(ع) اور ان کے شیعہ ہیں اور وہ قیامت کے دن کامیاب ہیں۔(۱۰)
ر سول اکرم(ص) نے حضرت علی(ع) سے فرمایا : خداوند کریم نے آپ کے شیعوں کے اور شیعوں کو دوست رکھنے والے افراد کے گناھوں کو بخش دیا ہے ،(۱۱)نیز پیغمبر اسلام(ص) نے حضرت علی(ع) سے فرمایا :آپ اور آپ کے شیعہ حوض کوثر پر میرے پاس آئیں گے در حالانکہ آپ حوض کوثر سے سیراب ھوں گے اور آپ کے چھرے (نور سے ) سفیدھوں گے اور آپ کے دشمن پیاسے اور طوق و زنجیر میں گرفتارھوکر میرے پاس آئیں گے (۱۲)رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک طولانی حدیث میں حضرت علی(ع) کے فضائل بیان کرتے ھوئے اپنی صاحبزادی فاطمہ زھراسلام اللہ علیھا سے فرمایا: اے فاطمہ! علی اور ان کے شیعہ کل (قیامت میں ) کامیاب(نجات پانے والوں میں) ہیں۔ (۱۳)
اسی طرح ایک دوسری حدیث میں رسول اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
اے علی ! خداوند عالم نے آپ کے اور آپ کے خاندان اور آپ کے شیعوں کودوست رکھنے والوں کے گناھوں کو بخش دیا ہے ۔(۱۴)
نیز رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
اے علی !جب قیامت برپا ھوگی تو میں خدا سے متمسک ھوں گا اورتم میرے دامن سے اورتمھارے فرزندتمھارے دامن سے اورتمھاری اولاد کے چاھنے والے تمھاری اولاد کے دامن سے متمسک ھوں گے۔ (۱۵)
نیز رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی(ع) سے فرمایا:
تم قیامت میں سب سے زیادہ مجھ سے نزدیک ھو گے اور (تمھارے) شیعہ نورکے منبر پر ھوں گے ۔(۱۶)
ابن عباس نے روایت کی ہے کہ جناب جبرئیل نے خبر دی کہ (حضرت) علی اور ان کے شیعہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ جنت میں لے جائے جائیں گے ۔(۱۷)
جناب سلمان فارسی نقل کرتے ہیں کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی(ع) سے فرمایا : اے علی !سیدھے ھاتھ میں انگوٹھی پھنو تاکہ مقرب لوگوں میں قرار پاؤ، حضرت علی(ع) نے پوچھا : مقربین کون ہیں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
جبرئیل و میکائیل، پھر حضرت علی(ع) نے پوچھا :کون سی انگوٹھی ھاتھ میں پھنوں؟
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : وہ انگوٹھی جس میں سرخ عقیق ھو ، کیونکہ عقیق وہ پھاڑ ہے ،جس نے خدائے یکتا کی عبودیت ، میری نبوت ، آپ کی وصایت اور آپ کے فرزندوں کی امامت کا اقرار و اعتراف کیا ہے اور آپ کو دوست رکھنے والے اھل جنت ہیں اور آپ کے شیعوں کی جگہ فردوس بریں ہے ،(۱۸)پھر رسول خدا (ص)نے فرمایا :ستر ھزار (٧٠٠٠٠)افراد میری امت سے بغیر حساب کے جنت میں داخل ھوں گے ،حضرت علی(ع) نے دریافت کیا : وہ کون ہیں ؟
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:وہ تمھارے شیعہ ہیں اورتم ان کے امام ھو۔ (۱۹)
انس ابن مالک حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:''جبرئیل نے مجھ سے کھا :خدائے کریم حضرت علی(ع) کواس قدر دوست رکھتا ہے کہ ملائکہ کو بھی اتنا دوست نھیں رکھتا ،جتنی تسبیحیں پڑھی جاتی ہیں، خدائے کریم اتنے ھی فرشتوں کو پیدا کرتا ہے تاکہ وہ حضرت علی(ع) کے دوستوں اور ان کے شیعوں کے لئے تاقیامت استغفار کریں۔(۲۰)
جابر بن عبد اللہ انصاری نقل کرتے ہیں کہ رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :خدائے یکتا کی قسم جس نے مجھے پیغمبر بنا کر مبعوث کیاکہ خدا وند عالم کے مقرب بارگاہ فرشتے حضرت علی(ع) کے لئے طلب مغفرت کرتے ہیں نیز ان کے اور ان کے شیعوں کے لئے باپ کی طرح الفت و محبت اور اظھارھمدردی کرتے ہیں۔ (۲۱)
خود حضرت علی (ع)روایت کرتے ہیں کہ حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: اے علی!اپنے شیعوں کو خوش خبری دیدوکہ میں روز محشر(ان کی ) شفاعت کروں گا جس دن میری شفاعت کے علاوہ مال و فرزند کوئی فائدہ نھیں دیں گے ۔(۲۲)
رسالت مآب(ص)نے فرمایا: اے علی ! سب سے پہلے جنت میں جو چار افراد داخل ھوں گے وہ میں ،تم اور حسن و حسین ،ہیں ،ھماری ذریت ھمارے پیچھے اور ھماری ازواج ھماری ذریت کے پیچھے اور ھمارے شیعہ دائیں،بائیں ھوں گے۔(۲۳)
خلاصہ: بہت سے محققین اور مؤرخین اھل سنت، منجملہ ابن جوزی ، بلاذری ، شیخ سلیمان قندوزی حنفی ، خوارزمی اور سیوطی نے نقل کیا ہے کہ رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی(ع) کی طرف مخاطب ھوکر فرمایا:
'' یہ اور ان کے شیعہ قیامت کے دن کامیاب ہیں ''(۲۴) حتیٰ بعض شیعہ حضراتکے بارے میں رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایات منقول ہیں اور کمال کی بات یہ ہے کہ شیعوں کے مخالفین کی زبانی روایات نقل ھوئی ہیں ،جیسے جناب عائشہ سے حجر بن عدی کے بارے میں روایت منقول ہے ،جب معاویہ حجر اور ان کے دوستوں کے قتل کے بعد حج کرکے مدینہ آیاتو عائشہ نے اس سے کہا:
''اے معاویہ ! جب تم نے حجر بن عدی اور ان کے دوستوں کو قتل کیا توتمھاری شرافت کھاں چلی گئی تھی؟آگاہ ھوجاؤ کہ میں نے رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے ،آنحضرت صلی ٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :ایک جماعت ''مرج عذرائ''نام کی جگہ قتل ھوگی، ان کے قتل کی وجہ سے اھل آسمان غضب ناک ھوں گے۔(۲۵)
چونکہ یہ احادیث قابل انکار نھیں ہیں اور انھیں بزرگان اھل سنت نے نقل کی ہیں، لہٰذا بعض صاحبان قلم نے ان میں بیجا و نارواتاویلیں کی ہیں،چنانچہ ابن ابی الحدید معتزلی کہتے ہیں:
''بھت سی روایات میں ان شیعوں سے مراد جن سے جنت کا وعدہ کیا گیا ہے وہ افراد ہیں جو حضرت علی(ع) کو تمام مخلوق میں سب سے افضل و برتر سمجھتے ہیں ،اس وجہ سے ھمارے معتزلی علمانے اپنی تصانیف اور کتابوں میں لکھا ہے کہ در حقیقت ھم شیعہ ہیں اور یہ جملہ قریب بہ صحت اور حق سے مشابہ ہے ''(۲۶)
نیز ابن حجر ھیثمی نے اپنی کتاب '' الصواعق محرقہ فی الرد علی اھل البدع والزندقة''میں جوکہ شیعوں کے اصول و اعتقادکے خلاف لکھی گئی ہے،اس حدیث کو نقل کرتے وقت بیان کیا : اس حدیث میں شیعوں سے مراد موجودہ شیعہ نھیں ہیں بلکہ ان سے مراد حضرت علی(ع) کے خاندان والے اوران کے دوست ہیںجو کبھی بدعت میں مبتلا نھیں ھوئے اور نہ ھی انھوں نے اصحاب کرام کو سب و شتم کیا ''(۲۷)
مرحوم مظفر ان کے جواب میں بیان کرتے ہیں:
بڑے تعجب کی بات ہے کہ ابن حجر نے گمان کیا ہے کہ یھاں شیعوں سے مراد اھل سنت حضرات ہیں مجھے نھیں معلوم کہ یہ مطلب لفظ شیعہ و سنی کے مترادف ھونے کی وجہ سے ہے یا اس وجہ سے کہ یہ دونوں فرقے ایک ھی ہیں ؟یا یہ کہ اھل سنت حضرات شیعوں سے زیادہ خاندان پیغمبر اسلام (ص)کی اطاعت و پیروی کرتے ہیں اور انھیں دوست رکھتے ہیں۔(۲۸)
مرحوم کاشف الغطاء کھتے ہیں:
لفظ شیعہ کو شیعیان حضرت علی(ع) سے منسو ب کرنے ھی کی صورت میں یہ معنیٰ سمجھ میں آتے ہیں ،ورنہ پھر اس کے علاوہ شیعہ کے کوئی دوسرے افراد ہیں۔(۲۹)
احادیث اور اقوال پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میںشیعہ معنیٰ کا ظھور روز روشن کی طرح واضح وآشکار ہے اور یہ حضرات اس طرح کی بے جا تاویلات کے ذریعہ حقیقت سے روگردانی کرنا چاھتے ہیں اور انھوں نے خود اپنے نفسوں کو دھوکا دیا،کیونکہ لفظ شیعہ کےمصادیق آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں موجود تھے اور کچھ اصحاب پیغمبر اسلام صلی ٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم شیعیان علی کے نام سے مشھورتھے ۔ (۳۰)
اصحاب پیغمبر اسلام صلی ٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی حضرت علی علیہ السلام کے پیروکاروں کو شیعہ کھتے تھے ، ھاشم مرقال نے 'حضرت علی(ع) سے''محل بن خلیفہ طائی ''نامی شخص کے بارے میں کہا:
''اے امیرالمؤمنین!وہ آپ کے شیعوں میں سے ہیں ۔''(۳۱)
اور خود شیعہ بھی آپس میں ایک دوسرے کو شیعہ کھتے تھے ،چنانچہ شیخ مفید نقل کرتے ہیں کہ ایک جماعت نے حضرت علی(ع) کی خدمت میں شرفیاب ھوکر عرض کی:''اے امیرالمومنین!''ھم آپ کے شیعوں میں سے ہیں ۔
نیز حضرت علی(ع) نے فرمایا:
''ھمارے شیعوں کے چھرے راتوں میں عبادت کی وجہ سے زرد پڑجاتے ہیں اور گریہ و زاری کی وجہ سے ان کی آنکھیں کمزور ھوجاتی ہیں…،(۳۲)مذکورہ بالا روایت کی طرح حضرت علی(ع) نے بھت سے مقامات پر اپنی پیروی کرنے والوں کو شیعوں کے نام سے یاد کیا ہے ،مثلا جب طلحہ وزبیر کے ھاتھوں بصرہ میں رھنے والے شیعوں کی ایک جماعت کی خبر شھادت پھنچی تو حضرت نے (ان قاتلوں) کے حق میں نفرین کرتے ھوئے فرمایا:
خدایا !انھوں نے میرے شیعوں کو قتل کردیا ،تو بھی انھیں قتل کر''(۳۳)
حتیٰ دشمنان حضرت علی(ع) بھی اس زمانہ میں آپ کی پیروی کرنے والوں کو شیعہ کھتے تھے ،چنانچہ جب عائشہ و طلحہ و زبیر نے مکہ سے سفر عراق کی طرف سفر کیا تو آپس میں گفتگوکی اور کہا:
''بصرہ چلیں گے اور حضرت علی(ع) کے عاملین کو وھاں سے باھر نکالیں گے اور ان کے شیعوں کو قتل کریں گے۔(۳۴)
بھرحال حقیقت تشیع وہھی حضرت علی(ع) سے دوستی و پیروی اور آ پ کو افضل وبرتراور مقدم قرار دینا ہے جوکہ زمانہ پیغمبر(ص)سے مربوط ہے،آنحضر ت صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی احادیث و اقوال میں لوگوں کو حضرت علی(ع) اورآپ کے خاندان کی دوستی و پیروی کا حکم دیا ۔
منجملہ غدیر خم کا واقعہ ہے جیسا کہ ابن ابی الحدید معتزلی کھتے ہیں :یہ روایات، ان لوگوں نے نقل کی ہیں جنھیں رافضی اور شیعہ ھونے سے کسی نے بھی متھم نہیں کیاہے یھاں تک کہ وہ دوسروں کی نسبت حضرت علی(ع) کی افضلیت و برتری اور تقدم کے قائل بھی نھیں تھے ۔(۳۵)
ھم اس سلسلہ کی بعض احادیث کی طرف( مزید) اشارہ کرتے ہیں:
بریدہ اسلمی کھتے ہیں:
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : خدائے تعالیٰ نے مجھے چار لوگوں سے دوستی کرنے کا حکم دیا ہے اور مجھ سے فرمایا ہے : میں بھی انھیں دوست رکھتا ھوں ، لوگوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول(ص)!ان کا نام بتائے؟
آنحضرت نے تین بار فرمایا: ''علی ''اور پھر ابوذر ، مقداد اور سلمان فارسی کا نام لیا۔(۳۶)
طبری جنگ احد کے سلسلہ میں بیان کرتے ہیں کہ رسو ل خدا (ص) نے فرمایا:
''میں علی سے ھوں اور علی مجھ سے ہیں''(۳۷)
جناب ام سلمہ سے روایت ہے کہ آپ نے کہا:
''جب کبھی حضرت رسو ل خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم غصہ ھوتے تھے تو حضرت علی(ع) کے علاوہ کوئی ان سے گفتگو کرنے کی جرأت نھیں کرتا تھا،سعد ابن ابی وقاص نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
''جس نے علی کو دوست رکھا ، اس نے مجھے دوست رکھا اور جس نے مجھے دوست رکھا ، اس نے خدا کو دوست رکھا اور جس نے علی سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی اور جس نے مجھ سے دشمنی کی گویااس نے خدا سے دشمنی کی۔(۳۸)
ابن جوزی بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
''اے علی ! تم جنت اور جھنم کو تقسیم کرنے والے ھو، تم جنت کے دروازہ کوکھولوگے اور بغیر حساب داخل ھوجاؤ گے ،(۳۹)
کتاب مناقب خوارزمی میں جناب ابن عباس سے نقل ھواہے کہ رسو ل خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
''جب مجھے معراج پر لے جا یا گیا ،تو میں نے جنت کے دروازہ پر لکھا ہوا دیکھا:لاالہ الااللّہ ، محمد رسول اللّہ ،علی حبیب اللّہ ،الحسن والحسین صفوة اللّہ،فاطمة امة اللّہ،علیٰ مبغضھم لعنة اللّہ ''(۴۰)
زبیر بن بکار جو زبیر کے پوتے ہیں اور حضرت علی(ع) سے انحراف اختیار کرنے میں مشھور ہیں ، بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
'' جو لوگ خدا پر ایمان لائے اور میری نبوت کو قبول کیا ،میں انھیں علی بن ابیطالب علیھماالسلام کی ولایت اور دوستی کی وصیت کرتا ھوں ، جس نے انھیںدوست رکھا، اس نے مجھےدوست رکھا اور جس نے مجھے دوست رکھا ،اس نے خدا کود وست رکھا''(۴۱)
ابن ابی الحدید ، زید بن ارقم سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
''میں تمھیں اس چیز کی طرف راھنمائی کررھا ھوں کہ اگر جان لو گے تو ھلاک نہیں ھوگے ، تمھارے امام علی بن ابی طالب( علیھماالسلام )ہیں ،ان کی تصدیق کر وکہ جناب جبرئیل نے مجھے اس طرح خبر دی ہے ''۔
ابن ابی الحدید معتزلی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کھتے ہیں اگرلوگ کہیں کہ یہ حدیث صریحی طور پر حضرت علی(ع) کی امامت پر دلالت کرتی ہے توپھر معتزلہ کس طرح اس اشکال کو حل کریں گے ؟
ھم جواب میں کھتے ہیں :ھوسکتاہے کہ رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مراد یہ ھو کہ حضرت علی(ع) فتویٰ دینے اور احکام شرعی میں لوگوں کے امام ہیں ، نہ کہ خلافت کے سلسلہ میں ، جس طرح ہم نے بغدادی علمائے معتزلہ کے اقوال کی شرح میںجو بات کھی ہے وہ (اس اشکال کا ) جواب ھوسکتی ہے ،جس کا خلاصہ یہ ہے:
در حقیقت امامت و خلافت حضرت علی(ع) کا حق تھا ، اس شرط کے ساتھ کہ آنجناب اس کی طرف میل و رغبت کا اظھار کرتے اور اس کی خاطر دوسروں کے مد مقابل آجاتے لیکن چونکہ آپ نے اس عھدہ امامت و خلافت کو دوسروں پر چھوڑکر سکوت اختیار کیا،لہذا ھم نے ان کی ولایت و سربراھی کو قبول کرتے ہوئے ان کی خلافت کے صحیح ہونے کا اقرارواعتراف کرلیا ،چنانچہ حضرت علی نے خلفائے ثلاثہ کی مخالفت نھیں کی اور ان کے مقابلہ میں تلوار نھیں اٹھائی اور نہ ھی لوگوں کو ان کے خلاف بھڑ کایا ، پس آپ کا یہ عمل اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آپ نے ان کی خلافت کی تصدیق کی، اسی وجہ سے ھم ان کو قبول کرتے ہیں اور ان کے بے قصور ھونے اور ان کے حق میں خیر وصلاح کے قائل ہیں،ورنہ اگر حضرت علی(ع) ا ن حضرات سے جنگ کرتے اور ان کے خلاف تلوار اٹھا لیتے اور ان سے جنگ کرنے کے لئے لوگوں کو دعوت دیتے تو ھم بھی ان کے فاسق و فاجر اور گمراہ ھونے کا اقرار و اعتراف کرلیتے'' (۴۲)
حوالہ جات:
۱۔ ابوالفرج اصفھانی ،مقاتل الطالبین، ص ٢٥٨.
۲۔ یعقوبی بیان کرتے ہیں :چند بزرگ صحابہ نے ابوبکر کی بیعت کرنے سے انکار کیااور کہا: حضرت علی خلافت کے لئے اولویت رکھتے ہیں، تاریخ یعقوبی، جلد ٢،ص ١٢٤،طبع، منشورات الشریف الرضی قم ١٤١٤ھ۔
۳۔ مختار اللیثی، سمیرہ ، جھاد الشیعہ ، دار الجیل ، بیروت ، ١٣٩٦ھ، ص :٢٥۔
۴۔ ابن ندیم الفھرست ''دار المعرفة''طبع،بیروت(بی تا) ص٢٤٩۔
۵۔ ابن عبدربہ اندلسی احمد بن محمد ، العقد الفرید ،دار الاحیاء التراث العربی ، بیروت ١٤٠٩ھ ج٢ ص٢٣٠۔
۶۔ بغدادی ، ابو منصور عبد القادر بن طاھر بن محمد ''الفرق بین الفرق'' طبع،قاھرہ،١٣٩٧، ص١٣٤۔
۷۔ مختار اللیثی، ڈاکٹر سمیرہ '' جہاد الشیعہ '' ٣٥ ۔ نقل از برنا '' رولویس '' اصول الاسماعیلیہ ص٨٤۔
۸۔ دفاع از حقانیت شیعہ، ترجمہ غلام حسن محرمی ، مومنین ، طبع اول ١٣٧٨ ص ٤٨، اورشیعہ در تاریخ،، ترجمہ محمد رضا عطائی ، انتشارات آستانہ قدس رضوی ، طبع دوم ، ١٣٧٥ ، ش ، ص ، ٣٤۔
۹۔ خطط الشام ، مکتبة النوری ، دمشق ، طبع سوم ، ١٤٠٣ ھ ۔ ١٩٨٣ ، ج ٦ ، ص ٢٤٥۔
۱۰۔ الدر المنثور فی التفسیر بالمأ ثور،ج :٦ ،ص :٣٧٩، منشورات مکتبةآیة اللہ مرعشی نجفی ، قم ١٤٠٤ھ۔
۱۱۔ابن حجر ھیثمی المکی صواعق محرقہ ،ص ٢٣٢ طبع دوم مکتب قاھرہ، ١٣٨٥۔
۱۲۔ ابن حجرمجمع الزوائد، نورالدین علی ابن ابی بکر ۔ ج ٩ ، ص ١٧٧ ، دار الفکر ١٤١٤ھ ۔
۱۳۔المناقب ، ص ٢٠٦ ، اخطب خوارزمی منشورات مکتبةالحیدریہ ، نجف ١٣٨٥۔
۱۴۔ مذکورہ مصدر کے علاوہ، ینابیع المودة ، قندوزی حنفی ، منشورات مؤسسہ اعلمی طبع اول، ١٤١٨ ھ ج ١، ص ٣٠٢۔
۱۵۔ المناقب ، ص ٢١٠ ، اخطب خوارزمی۔
۱۶۔ المناقب ، ص ١٥٨، ١٣٨٥ھ ۔
۱۷۔ مذکورہ مصدر ،ص ٣٢٢ ۔ ٣٢٩ حدیث کے ضمن میں، فصل ١٩۔
۱۸۔مذکورہ مصدر ص ٢٣٤۔
۱۹۔ مذکورہ مصدر ص ٢٣٥۔
۲۰۔ ینابیع المودة ، القندوزی الحنفی ، شیخ سلمان ،ص ٣٠١۔
۲۱۔ ینابیع المودة ص ٣٠١
۲۲۔ ینابیع المودة ص ٣٠٢
۲۳۔ مجمع الزوائد ص١٧٨، ھیثمی نور الدین علی بن ابی بکر۔
۲۴۔تذکرة الخواص ص ٥٤ ، ابن جوزی ، منشورات المطبعة الحیدریہ نجف ١٣٨٣ ھ، ص ٥٤، بلا ذری انساب الاشراف ،تحقیق محمد باقر محمودی ، موسسہ اعلمی بیروت ، ج ٢ ،ص ١٨٢ ، قندوزی حنفی ینابیع المودة منشورات اعلمی للمطبوعات ،طبع بیروت ،طبع اول ١٤١٨ ھ ج ١، ص٣٠١، اخطب خوارزم المناقب، منشورات المطبعة الحیدریہ ، نجف ، ١٣٨، ص٢٠٦، سیوطی جلا ل الدین ، الدر المنثور فی تفسیر بالمأ ثور ، مکتبة آیة اللہ العظمیٰ مرعشی نجفی ، قم ، ١٤٠٤ھ ، ج ٦، ص ٩ا٣٧۔
۲۵۔ابن واضح ،تاریخ یعقوبی ، منشورات الشریف الرضی ، قم ١٤١٤ھ ج٢، ص٢٣١۔
۲۶۔ ابن ابی الحدید، شرح نھج البلاغہ ۔دار الاحیاء التراث العربی ، بیروت ، ج ٢٠ ، ص ٢٢٦
۲۷۔ ہیثمی مکی ،ابن حجر ، صواعق محرقہ، مکتبة قاہرة، ١٣٨٤، ص ٢٣٢۔
۲۸۔ مظفر ، محمد حسین تاریخ الشیعہ ، منشورات مکتبة بصیرتی ، ص٥۔
۲۹۔ دفاع از حقانیت شیعہ ، ترجمہ غلام حسن محرمی ،مؤمنین، طبع اول ١٣٧٨ھ،ص٤٨۔٤٩۔
۳۰۔سعد بن عبد اللہ اشعری اس بارے میں کھتے ہیں :سب سے پھلا فرقہ شیعہ ہے اوریھی فرقہ علی بن ابی طالب کے نام سے مشھورہے کہ جس کے افراد زمانہ ٔ پیغمبر(ص)میں شیعیان علی کھے جاتے تھے اور وفات پیغمبر(ص) کے بعد بھی مشھور تھا کہ یہ افرادحضرت علی(ع) کی امامت کے معتقد ہیں ،جن میں مقداد بن اسود کندی ، سلمان فارسی اور ابوذر و عمار ہیں ،یہ حضرات حضرت علی(ع) کی اطاعت و پیروی کو ھر چیز پر ترجیح دیتے تھے اور آنجناب کی اقتدا کرتے تھے ،دیگر کچھ افراد ایسے تھے کہ جن کا نظریہ حضرت علی(ع) کے موافق تھا اور یہ اس امت کا پھلا گروہ ہے ، جس کو شیعیت کے نام دیا گیا،نیز شیعہ ایک قدیم نام ہے جیسا کہ اس سے پہلے بھی لفظ شیعہ کا استعمال ھوا ہے مثلا، شیعۂ نوح ، شیعۂ ابراھیم ، شیعۂ موسیٰ اور شیعۂ عیسیٰ نیزدیگر انبیاء کے سلسلہ میں بھی ملتا ہے''المقالات والفرق ، مرکز انتشارات علمی ، فرھنگی ، تھران ص٣۔
۳۱۔ شیخ مفید محمد، بن محمد نعمان ''الجمل ''مکتبة العلوم الاسلامی ، مرکز نشر ط دوم ١٤٢٦ھ ص٢٤٣۔
۳۲۔شیخ مفید ،محمد بن محمد نعمان ، ''الارشاد'' ترجمہ محمد باقر ساعدی خراسانی ، کتاب فروشی اسلامیہ ، طبع دوم ، ص٢٢٨۔
۳۳۔شیخ مفید، محمد بن محمد نعمان''الجمل ''ص٢٨٥۔
۳۴۔شیخ مفید ،محمد بن محمد نعمان ص٢٣٥ ۔
۳۵۔ شرح نھج البلاغہ ، ابن ابی الحدید معتزلی ،ج ٢، ص٣٤٩،طبع دار الاحیاء التراث العربی۔
۳۶۔ ھیثمی مکی صواعق المحرقہ، ص١٢٢، مکتبة القاھرہ، طبع دوم ١٣٥٨۔
۳۷۔ تاریخ طبری، ج٢ ص٦٥ طبع سوم، دار الکتب العلمیة ، بیروت، تیسری طباعت ١٤٠٨ھ ۔
۳۸۔ صواعق محرقہ ص١٢٣، ھیثمی مکی۔
۳۹۔ ھیثمی مکی الصواعق المحرقہ ، ص ١٢٣،تذکرة الخواص،ص ٢٠٩، سبط ابن جوزی طبع ، منشورات مطبعہ حیدریہ نجف اشرف ١٣٨٣۔
۴۰۔ مناقب ، ص ٢١٤ ، اخطب خوارزمی ١٣٨٥۔
۴۱۔الاخبار الموفقیات ، انتشارات الشریف الرضی ، قم، ١٤١٦ھ ص٣١٢۔
۴۲۔ شرح نھج البلاغہ ،ج ٣ ، ص ٩٨ ابن ابی الحدید معتزلی ،طبع ، دار الاحیاء الکتب العربیة مصر،طباعت اول، ١٣٧٨ھ ق۔