بارہ اماموں کے اسماء مبارک احادیث نبوی میں وارد ھوئے ہیں اورپھلے دور کے شیعہ ان حضرات کو دیکھنے سے پھلے ان کے نا م جانتے تھے ،جیسا کہ پیغمبرکے وفا دار صحابی جابر بن عبداللہ انصاری نقل کرتے ہیں کہ
جس وقت قرآن مجید کی یہ آیت:"یا ایّھاالّذین آمنوااطیعوااللّٰہ و اطیعوا الرّسول و اولی الامر منکم "(۱)
اے ایمان لانے والو! اللہ کی ، اس کے رسول کی اور صاحبان امر کی اطاعت کرو۔
ناز ل ھوئی تو میں نے عرض کی: یارسول اللہ! میں خدا اور اس کے رسول کو پھچانتا ھوں اور ان کی اطاعت بھی کرتا ھوں لیکن اولی الامرسے مراد کون لوگ ہیں جن کی اطاعت کو خدا وند عالم نے اپنی اور آپ کی اطاعت کے ساتھ ذکر کیا ہے؟ حضرت نےفرمایا: اولی الامرسے مراد میرے جانشین اور میرے بعدکے پیشوا ہیں، ان میں سب سے پھلے علی بن ابی طالب اور ان کے بعدحسن ان کے بعد حسین ان کے بعد علی بن حسین ان کے بعد محمد بن علی جو توریت میں باقر کے نام سے معروف ہیں تم ان کی زیارت بھی کرو گے جس وقت تم ان کو دیکھنا میراسلام کھنا ، ان کے بعد جعفربن محمد ان کے بعد موسیٰ بن جعفر ان کے بعدعلی بن موسی ان کے بعد محمد بن علی ان کے بعد علی بن محمدپھران کے بعد حسن بن علی اور ان کے بعدان کا فرزندجو میرا ھمنام اورجس کی کنیت میری کنیت ھوگی وہ امام ھو گا، اسی کے ذریعہ شرق وغرب فتح ھوں گے وہ لوگوں کی آنکھوں سے غائب ھو گا اس کی غیبت اتنی طولانی ھوگی جس کی وجہ سے لوگ اس کی امامت میںشک کریں گے سوائے ان لوگوں کے جن کے دلوں کو خدا وندعالم نے ایمان کے ذریعہ پاک کیا ہے۔(۲)
یھی جابر مسجد نبوی کے دروازے پر بیٹھ کر کھتے تھے اے باقرالعلم !آپ کھاں ہیں ؟ لوگ کھتے تھے: جابر ھذیان بک رھا ہے۔ جابر کھتے تھے کہ میں ھذ یان نھیں بک رھا ھوں بلکہ مجھ کو رسول اکرم(ص) نے خبر دی ہے کہ میرے خاندان میں سے ایک شخص جو میرا ھم نام اور میرا ھم شکل ھو گا تم اس کی زیارت کرو گے وہ علم کو شگافتہ کرے گا۔(۳)
ائمہ معصومین نے بھی دلیلوں اور معجزوں کے ذریعہ اپنی حقا نیت ثابت کی ہے اس کے باوجودبعض اسباب و وعوامل اس بات کا باعث بنے کہ بعض شیعوں پر حقیقت مشتبہ ھوگئی اور وہ راہ (حق )سے منحرف ھوگئے ان عوامل کو ھم ذیل میںذکر کرتے ہیں ۔
۱۔ اختناق(گھٹن، اضطراب)
٤٠ھ کے بعد خاندان پیغمبراور ان کے چاھنے والوں پراس قدرگھٹن کا ماحول چھایا ھواتھا کہ شیعہ کے لئے ممکن نھیں ھوسکا کہ وہ ا پنے اماموں سے رابطہ برقرار کریں اورا ن کی ضروری معرفت حاصل کر تے پھلی صدی میں ٧٢ ھ اور ابن زبیر(جو شیعوں کا دشمن تھا) کی شکست کے بعد حجاج بن یوسف بیس سال تک عراق و حجازپر حاکم رھا اور شیعوں کو بھت زدو کوب کیا ان کو قتل کیا زندان میں ڈالااور عراق و حجاز سے انھیں فرار ھونے پر مجبورکیا۔(۴)
امام سجاد تقیہ میں تھے اورشیعہ معارف کو دعائوں کی شکل میںبیان کرتے تھے فرقہ کیسانیہ اسی زمانہ میں رونما ھوا ،امام باقراور امام صادق علیھما السلام کواگرچہ نسبتاًآزادی ملی تھی، انھوںنے شیعہ معارف کو وسعت بخشی لیکن جب منصور عباسی کوحکومت ملی تو شیعوں کی طرف متوجہ ھوا اور جس وقت اس کوامام صادق(ع) کی خبر شھادت ملی تو اس نے مدینہ میں اپنے والی کو خط لکھا کہ امام صادق(ع) کے جانشین کی شناسائی کرکے ان کی گردن اڑادے، امام جعفر صادق(ع) نے پانچ لوگوں کو اپنا جانشین بنایا تھا، ان میں ابو جعفرمنصور (خلیفہ)محمد بن سلیمان، عبداللہ، موسیٰ اور حمیدہ تھے۔(۵)
امام کاظم(ع) کی عمر کا زیادہ حصہ زندان میں گذرا سب سے پھلے موسیٰ ھادی عباسی نے حضرت کو زندان میں ڈالا اور کچھ مدت کے بعد آزاد کر دیا ھارون نے چار بار امام کو گرفتارکیا اور شیعوں کوآپ کے پاس آنے جانے اور دیدار سے منع کیا ۔(۶)
شیعہ حیران وسرگردان اور بغیر سرپرست کے رہ گئے ، اسماعیلیہ اور فطحیہ کے مبلغین کے لئے راستہ ھموار ھو گیا ،اس زمانہ میں کوئی ایسا نھیں تھا جو شیعوں کو ان کے شبہ کا جواب دیتا،عباسی حکومت اور اس کے جاسوسوں کی نظرامام کاظم(ع) کی کوششوں کے بارے میں اس حد تک تھی کہ علی بن اسماعیل جو آپ کے بھتیجے تھے وہ بھی اپنے چچا کی مخالفت میں چغلخوری کرتے تھے(۷) اکثر شیعہ اس وقت یہ نھیں جانتے تھے کہ امام موسیٰ کاظم (ع) زندہ ہیں یا نھیں؟
چنانچہ یحییٰ بن خالد برمکی کا بیان ہے:
میں نے رافضیوں کے دین کو ختم کر دیا اس لئے کہ انکا خیال ہے کہ دین بغیر امام کے زندہ اور استوار نھیں رہ سکتاآج وہ نھیں جانتے کہ ان کے امام زندہ ہیں یا مردہ۔ (۸)
حضرت کی شھادت کے وقت ایک بھی شیعہ حاضر نھیں تھا اسی لئے واقفیہ نے آپ کی موت( شھادت )سے انکار کردیا اگرچہ مالی مسائل واقفیہ کے وجود میں زیادہ مؤثر تھے ،ائمہ معصومین مسلسل عباسی حکومت کے زیر نظر تھے ،یھاں تک کہ امام ھادی اور
امام عسکری کوسامرہ کی فوجی چھاونی میں رکھاگیاتا کہ ان دو نوں اماموں پرکڑی نظر رکھ سکیں،امام حسن عسکری(ع) کی شھادت کے بعد آپ کے جانشین (حضرت ولی عصر)کو پھچاننے کے لئے امام حسن عسکری(ع) کی کنیزوں اور بیویوں کوقید خانوں میں ڈال دیا، یھاںتک کہ جعفر بن علی (جو جعفر کذاب کے نام سے مشھور ہیں )نے اپنے بھائی امام حسن عسکری(ع) کے خلاف جد و جھد کی اسی وجہ سے غلات کے عقائدنصیری یعنی محمد ابن نصیر فھری کے ذریعہ پھیل گئے چند لوگ جعفر کے ارد گرد جمع ھوگئے اورانھوں نے امامت کا دعویٰ کردیا(۹)
۲۔ تقیہ
یعنی جب جان کا خوف ھو تو حقیقت کے خلاف اظھار کرنا، شیعوں نے اس طریقہ کار کو گذشتہ شریعتوں اور شریعت اسلام کی پیروی میں عقل وشرع سے اخذ کیا ہے جیسا کہ مومن آل فرعون نے فرعو ن اور فرعونیوں کے خوف سے اپنے ایمان کو چھپایا ،اصحاب رسول میں سے عمار یاسر نے بھی مشرکین کے شکنجہ اور آزار کی وجہ سے تقیہ کیا اور کفر کا اقرار کیا اور روتے ھوئے پیغمبرکے پاس آئے تو حضرت نے فرمایا : اگردوبارہ تم کو شکنجہ کی اذیت دیں تو پھر اس کام کو انجام دینا۔(۱۰)
شیعہ چونکہ بہت ھی کم مقدار میں تھے اس لئے اپنی حفاظت کے لئے تقیہ کرتے تھے اور اس روش کی بناء پر مکتب تشیع باقی رھاجیسا کہ ڈاکٹر سمیرہ مختار اللیثی نے لکھا ہے: شیعہ تحریک جاری رھنے کے عوامل میں سے ایک عامل تقیہ اور مخفی دعوت ہے کہ جس نے یہ فر صت دی کہ شیعوں کی نئی تحریک خلفائے عباسی اور ان کے حاکموں کی آنکھوں سے دور رہ کر ترقی کرے۔ (۱۱)
لیکن دوسری طرف تقیہ شیعو ں کے مختلف گروھوں میں تقسیم ھونے کا سبب بنا کیونکہ شیعہ وقت کے ظالموں کے خوف سے اپنے عقائد کو مخفی رکھتے تھے اور ھمارے ائمہ بھی ایسا کرتے تھے چنانچہ اس دور کی خفقانی کیفیت اور گھٹن اور سختی کی وجہ سے اپنی امامت کو ظاھر نھیں کرتے تھے یہ بات امام رضا(ع) اور واقفیوںکے درمیان ھونے والی گفتگو سے روشن ھوجاتی ہے۔
علی بن ابی حمزہ کہ جس کا تعلق واقفی مذھب سے تھا اس نے امام علی رضا(ع) سے سوال کیا کہ آپ کے والد کیا ھوئے؟امام نے فرمایا: انتقال کرگئے، ابن ابی حمزہ نے کھا:انھوں نے اپنے بعد کس کو اپنا جانشین قرار دیا؟ امام نے فرمایا : مجھ کو، اس نے کہا :تو پس آپ واجب الاطاعت ہیں ؟ امام نے فرمایا: ھاں، واقفیوں کے دو افراد ، ابن سراج اور ابن مکاری نے کھا : کیاآپ کے والد نے امامت کے لئے آپ کو معین کیا ہے؟ امام رضا(ع) نے فرمایا : وائے ھو تم پریہ لازم نھیں ہے کہ میں خود کھوں کہ مجھے معین کیا ہے، کیا تم چاھتے ھوکہ میں بغداد جاؤں اور ھارون سے کھوں کہ میں امام واجب الاطاعت ھوں؟ خدا کی قسم یہ میرا وظیفہ نھیں ہے ،ابن ابی حمزہ نے کہا :آپ نے ایسی چیز کا اظھار
کیا کہ آپ کے آباءواجداد میں سے کسی نے بھی ایسی چیز کا اظھار نھیں کیا ،امام نے فرمایا: خدا کی قسم میں ان کا بھترین جانشین ھوں یعنی پیغمبر پر جس وقت آیت یہ نازل ھوئی اور خدا وند متعال نے حکم دیاکہ تم اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈراؤ تو آپ نے اس کا اظھار کیا۔(۱۲)
امام محمد باقر(ع) نے اپنے زمانہ میں کئی مسئلہ کے جواب میں تقیہ سے کام لیا جس کی وجہ سے کچھ شیعہ آپ کی امامت سے منحرف ھو کر فرقۂ زیدیہ بتریہ کے پیروں ھوگئے۔(۱۳)
دوسری طرف بعض افراد تقیہ کی مصلحت کو نھیںسمجھ سکے اور ائمہ اطھار(ع)کا اپنی امامت کے بارے میں کھل کر اظھار نہ کرنے کو خطا سے تعبیر کیا یعنی وہ لوگ تند خو اور افراطی تھے یہ بات بھی زیدیہ مذھب کے وجود میں آنے کا سبب بنی ،جس وقت فشار و گھٹن کا ماحول کم ھوا اور حالات کچھ بھتر ھوئے اور ائمہ نے اپنی حجت تمام کی تو شیعوں کے اندر فرقہ بندی بھی کم ھوگئی امام صادق(ع) کے زمانہ میں امویوں اور عباسیوں کے درمیان کشمکش کی وجہ سے ایک بھترین موقع فراھم ھوگیا تھا اور امام صاد ق(ع) کو عملی اعتبار سے آزادی حاصل تھی اس بناء پر شیعہ فرقہ بندی میں کمی واقع ھوگئی تھی، لیکن آپ کی شھادت کے بعد منصور خلیفہ مقتدر عباسی کادباؤ بھت زیادہ تھا،فرقۂ ناؤسیہ،اسماعیلیہ،خطابیہ ،قرامطہ،سمطیہ اور فطحیہ وجود میں آئے ۔(۱۴)
امام رضا کے زمانہ میں حالات بھتر ھو گئے یھاں تک کہ ھارون کے زمانہ میں حضرت نسبتاًعمل میں آزاد تھے اور اس زمانہ میں واقفیہ کے چند بزرگ مثلاًعبدالرحمٰن بن حجاج ،رفاعة بن موسیٰ،یونس بن یعقوب ،جمیل بن دراج،حماد بن عیسیٰ،وغیرہ اپنے باطل عقیدہ سے پھر گئے اور حضرت کی امامت کے قائل ھو گئے، اسی طرح امام رضا(ع) کی شھادت کے بعد باوجود اس کے کہ امام جواد(ع) سن میں چھوٹے تھے لیکن امام رضا(ع) کی کوششوں اور اپنے فرزند کو جانشین کے عنوان سے پھچنوانے کی بناء پر شیعوں کے اندر فرقہ بندی میں کمی آگئی تھی۔
۳۔ ریاست طلبی اورحب دنیا :
جس وقت گھٹن کا ماحول ھوتاتھاتوائمہ اطھاراساس تشیع کے تحفظ نیز شیعوں کی جان کی حفاظت کے لئے تقیہ کرتے تھے، اس وقت مطلب پرست اور ریاست طلب افراد جوشیعوں کی صفوں میںشامل ھوتے تھے لیکن دیانت پر بالکل اعتقاد نھیں رکھتے تھے وہ اس وضعیت سے غلط فائدہ اٹھاتے تھے جیسا کہ امام جعفرصادق(ع) نے ایک صحابی کے جواب میں کہ جس نے احادیث کے اختلاف کے بارے میں پوچھا تھاتو آپ نے فرمایا :کچھ لوگ ایسے ہیں جو ھماری حدیثوں کی تاویل کرکے دنیا اور ریاست تک پھنچنا چاھتے ہیں۔(۱۵)
اس بنیاد پر دوسری صدی ھجری میں اور اس کے بعد جب شیعیت پھیل گئی تھی امام صادق،امام کاظم اورامام عسکری علیھم السلام کی شھادت کے بعد مطلب پرست اور ریاست طلب افراد شیعوں کے درمیان کچھ زیادہ پیدا ھوگئے تھے، مال اورریاست کی بنیاد پرفرقوں کو ایجاد کرتے تھےامام باقر(ع)کی شھادت کے بعد مغیرہ بن سعید نے اپنی امامت کادعویٰ کیا اور کھا : امام سجاد اور امام باقرعلیھما السلام نے میرے بارے میں تاکید کی ہے اس وجہ سے اس کے طرفدار مغیریہ کھلائے ۔
امام صادق(ع) کی شھادت کے بعد ناؤسیہ اور خطابیہ فرقے پیدا ھوئے جن کے رھبروں نے لوگوں کو اپنی طرف جذب کرنے کے لئے امام صادق(ع) اور ان کے فرزند اسماعیل کے نام سے فائدہ اٹھایا ،فرقۂ ناؤسیہ کا رھبر ابن ناؤس ہے اس نے امام صادق(ع) کی رحلت کا انکار کیا اور ان کو مھدی مانا ہے اور خطابیہ امام صادق(ع) کے فرزند اسماعیل کی موت کے منکر ہیں اور ان کے رھبروں نے ان دو بزرگوں کے بعد خود کو امام کےعنوان سے مشھور کیا ۔(۱۶)
امام موسیٰ کاظم کی شھادت کے بعدمال کی وجہ سے کثرت سے فرقے وجود میں آئے یونس جوامام کاظم(ع) کے صحابی ہیں نقل کرتے ہیں: جس وقت امام موسیٰ کاظم(ع) دنیا سے گئے ان کے نوابین ووکلا کے پاس بھت سے مال اور رقوم شرعیہ موجودتھی اسی وجہ سے انھوںنے حضرت پر توقف کیا اور حضرت کی شھادت کے منکر ھوگئے، نمونہ کے طور پر زیاد قندی انباری کے پاس ستر ھزار دینار اور علی بن حمزہ کے پاس تیس ھزار دینار تھے یونس کا بیان ہے : جس وقت میں نے ان کی اس وضعیت کو دیکھا تو میرے لئے حقیقت روشن ھوگئی اور حضرت امام رضا(ع) کی امامت کا قضیہ بھی میرے لئے واضح ھو گیا تھا،میں نے حقائق بیان کرنا شروع کردیئے اورلوگوں کو حضرت کی جانب دعوت دی، ان دونوں نے میرے پاس پیغام کھلوایا کہ تم کیوں لوگوں کو امام رضا(ع) کی امامت کی طرف دعوت دیتے ھواگر تمھارا مقصد مال حاصل کرنا ہے تو ھم تم کو بے نیاز کردیں گے اورانھوں نے دس ھزار دینار کی مجھے پیش کش کی لیکن میں نے قبول نھیں کیا لھذاوہ غصہ ھوئے اورانھوں نے مجھ سے دشمنی اور عداوت کا اظہار کیا ۔(۱۷)
سعد بن عبداللہ اشعری کا بیان ہے :امام کاظم(ع) کی شھادت کے بعد فرقۂ ہسمویہ کا یہ عقیدہ تھاکہ امام موسیٰ کاظم(ع) کی وفات نھیں ھوئی ہے اور وہ زندان میں بھی نھیں رھے ہیں بلکہ وہ غائب ھو گئے ہیں اور وھی مھدی ہیں، محمد بن بشیر ان کا رھبر تھا اس نے دعوٰی کیا کہ ساتویں امام نے خوداس کواپنا جانشین بنایا ہے، انگوٹھی اور وہ تمام چیزیں جن کی دینی اوردنیوی امورمیں احتیاج ھوتی ہے اسے میرے حوالے کیا ہے اور اپنے اختیارات بھی مجھے دیئے ہیں اور مجھے اپنی جگہ بٹھایا ہے لہذا میں امام کاظم(ع) کے بعد امام ھوں محمد بن بشیر نے اپنی موت کے وقت اپنے فرزند سمیع بن محمد کو اپنی جگہ بٹھایا اور اس کی اطاعت کو امام موسیٰ کاظم(ع) کے ظھور تک واجب قرار دیا اور لوگوں سے کھا کہ جوبھی خدا کی راہ میں کچھ دیناچاھتا ہے وہ سمیع بن محمد کو عطا کرے ان لوگوں کانام ممطورہ پڑا۔(۱۸)
۴۔ ضعیف النفس افراد کا وجود :
شیعوں میں کچھ ضعیف النفس افراد موجود تھے جس وقت امام سے کوئی کرامت دیکھتے تھے تو ان کی عقلیں اس کو تحمل نھیں کرپاتی تھیں اور وہ غلو کر نے لگتے تھے اگرچہ خود ائمہ طاھرین(ع) نے شدت سے اس طرح کے عقائد کا مقابلہ کیا ہے ،رجال کشی کے نقل کے مطابق بصرہ کے سیاہ نام لوگوں میں سے ستّر لوگوں نے جنگ جمل کے بعد حضرت علی کے بارے میں غلو کیا۔(۱۹)
مفاد پرست اور ریاست طلب افرادان لوگوں کے عقیدے سے سوء استفادہ کرتے تھے ایسا عقیدہ رکھنے والوں کو منحرف کرتے تھے اور اپنے مفاد میں ان سے کام لیتے تھے جیسا کہ ابی خطاب نے فرقۂ خطابیہ کو ایجاد کیا اور امام صادق(ع) کو مقام پیغمبری میں قرار دیا اورکھا : خدا ان میں حلول کر گیا ہے اور خود کو ان کا جانشین بتایا۔(۲۰)
امام زمانہ کی غیبت صغریٰ میں بھی ابن نصیر نے خود کو پھلا باب اور احکام کے نشر کرنے اور اموال جمع کرنے میں خود کوامام کا وکیل مشھور کیا ، اس کے بعد پیغمبری کا دعویٰ کیا اور آخر میں خدائی کا دعویٰ کیا،(۲۱) اس کے چاھنے والوں نے اس کو قبول بھی کرلیا بلکہ اپنے چاھنے والوں کے ایمان کی بناء پر ھی اس نے یہ دعوے کئے تھے اور اسی طرح فرقہ غلات وجود میں آئے ۔
حوالہ:
۱۔ سورہ نساء،آیت٥٩۔
۲۔پیشوائی،مھدی،شخصیتھای اسلامی،انتشارات توحید۔قم١٣٥٩،ص٦٣،تفسیرصافی سے نقل کیا ہے ، ج١، ص٣٦٦، کمال الدین وتمام النعمة،ج١،ص٣٦٥،طبع تھران،فارسی ترجمہ۔
۳۔ شیخ طوسی اختیارمعرفةالرّجال،(رجال کشی)موسسہ آل البیت لاحیا التراث قم،١٤٠٤ھ ج :١، ص٢١٨۔
۴۔ زین عاملی، محمد حسین، شیعہ در تاریخ، ترجمہ محمد رضا عطائی، انتشارات آستانہ قدس رضوی،طبع دوم،١٣٧٥ھ ش،ص١٢٠۔
۵۔ طبرسی،بوعلی فضل بن حسن، اعلام الوریٰ،موسسہ آل البیت، لاحیاء التراث، قم ١٤١٧ھ ج٢ ص١٣۔
۶۔ مظفر،محمد حسین ،تاریخ شیعہ،منشورات مکتب بصیرتی،قم،(بی تا) ص٤٧۔
۷۔ابو الفرج اصفھانی ،مقاتل الطالبین ، منشورات الشریف الرضی ،قم ١٤١٦ھ ،ص ٤١٤۔
۸۔زین عاملی(،محمد حسین)شیعہ در تاریخ: ج ١، ص٢٣۔
۹۔ شیخ طوسی،اخبار معرفت الرجال(رجال کشی)موسسہ آل البیت لاحیاء التراث، قم ١٤٠٤ھ، ج ٢۔
۱۰۔امین ،سید محمد،اعیان الشیعہ،دارالتعارف للمطبوعات،بیروت(بی تا)ج١،ص١٩٩۔
۱۱۔جھادالشیعہ،دارالجیل،بیروت ،١٣٩٦ھ،ص٣٩٤۔
۱۲۔جھادالشیعہ،دارالجیل،بیروت ،١٣٩٦ھ، ص ٧٦٣۔
۱۳۔اشعر ی قمی،سعد بن عبداللہ،مقالات والفرق،مرکز انتشارات علمی فرھنگی،تھران ص٧٥۔
۱۴۔اشعر ی ،قمی ، سعد بن عبد اللہ المقالات والفرق،مرکز انتشارات علمی و فرھنگی تھران، ص٧٩۔
۱۵۔ شیخ طوسی ،اختیار معرفة الرجال، رجال کشی،موسسہ آل البیت لاحیاء التراث، قم ١٤٠٤ ج ،١ ص ٣٧٤۔
۱۶۔شیخ طوسی ،رجال کشی ،موسسہ آل البیت لاحیاء التراث ، قم ، ١٤٠٤ھ ج١،ص٨٠۔
۱۷۔ زین عاملی ،محمد حسین ،شیعہ در تاریخ ،ص١٢٣،شیخ طوسی کی غیبت سے نقل کی ہے ص٤٦۔
۱۸۔اشعری قمی،سعد بن عبد اللہ،المقالات والفرق،ص٩١۔
۱۹۔جب امیر المومنین جنگ جمل سے فارغ ھوئے ٧٠لوگ جو سیاہ پوست جوبصرہ میں رھتے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ھوئے، نے اپنی زبان میں علی سے بات کرنا شروع کی علی نے ان کی زبان میں ان کو جواب دیا انھوںنے آپ کے بارے میں غلو کیا علی نے فر مایا: میں خدا کی مخلوق اور اس کا بندہ ھوں انھوں نے قبول نھیں کیاانھوں نے کہا: آپ ھی خدا ہیں، آپ نے ان سے توبہ کرنے کی در خواست کی لیکن انھوںنے توبہ نھیں کی اس وجہ سے آپ نے ان کو پھانسی دی،شیخ طوسی،اختیار معرفة الرجال، رجال کشی،موسسہ آل البیت لاحیاء التراث،قم،١٤٠٤ھ،ج١، ص ٣٢٥۔
۲۰۔ شھرستانی ،کتاب ملل ونحل،منشورات شریف رضی،قم ،ج١،ص١٦٠۔
۲۱۔ شیخ طوسی، رجال کشی،ج٢،ص٨٠٥۔
(منبع : تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک)