شیعوں کے خلاف تکفیری وھابیوں کی تمام تر کوششوں اور مخالفتوں کے باوجود مصر کے شھر اسکندریہ میں ۲۰ ھزار لوگوں نے شیعہ مذھب قبول کر لیا ہے۔
تکفیری وھابی اور شدت پسند سلفی ایڑی چوٹی کا زور لگا کر یہ باور کروانا چاھتے ہیں کہ ایران کے مصر کے ساتھ تعلقات بڑھانے کا مقصد، مصر میں شیعت کی تبلیغ ہے جبکہ مصر خود زمانہ قدیم سے مذھب تشیع کی طرف کافی حد تک رجحان رکھتا ہے۔ مصر پر فاطمیون کی حکومت سے لے کر اب تک اس ملک میں شیعت کے آثار نمایاں ہیں۔ حتی عالم اسلام کی بڑی یونیورسٹی "دانشگاہ الازھر" کی بنیاد بھی پھلے حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کے نام گرامی پر ھی رکھی گئی تھی لیکن بعد میں اھلسنت کے مصر پر مسلط ھونے کے بعد اس کا نام بگاڑ کر الازھر کر دیا گیا تھا۔
مصر میں شیعت کے پھیلنے کے خطرے کے پیش نظر شیخ الازھر "احمد الطیب" اس کے باجود وہ کسی بھی مسلمان کے ساتھ دشمنی نہ رکھنے کے دعویدار ہیں ایک نامہ نگار سے گفتگو میں کھتے ہیں: ھم عربی ممالک مخصوصا مصر میں بالکل شیعت کا فروغ نھیں ھونے دیں گے۔
شیخ الازھر نے یہ بھی کھا: شیعت کے پھیلنے کا مطلب علاقے میں آگ کی بازی لگانا ہے جو سوائے مشکلات کو وجود میں لانے کے کچھ نھیں ہے۔
دوسری طرف سے مصر کی پارلیمنٹ کے ثقافتی کمیٹی کے اراکین نے ایرانیوں اور شیعوں کے سیاحت کے حوالے سے مصر میں داخل ھونے کو خطرناک گردانا اور یہ دعویٰ کیا کہ یہ چیز مصر میں شیعت کے پھیلنے کا سبب بن سکتی ہے۔
اس کمیٹی کے اراکین نے جوتقریبا مصر کی پارلیمنٹ کے نمائندے بھی ہیں مصر کے وزیر سیاحت "ھاشم زعزوع" کو اس مسئلہ کی تحقیقات کے لیے دعوت دی ہے۔
اس ملاقات میں حزب النور کے نمائندے " ثروت عطاء اللہ" نے بھت ھی برا لھجہ استعمال کرتے ھوئے کھا مصر میں شیعوں کا خطرہ برھنہ عورتوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اس کی مراد وہ مغربی سیاح ہیں جو مصر میں سیاحت کے لیے آتے ہیں۔
اس کے باوجود کہ اخوان المسلمین، مصر کے دانشمند حضرات اور عوام، مصر کے ایران کے ساتھ تعلقات بڑھانے کے موافق ہیں بعض تکفیری وھابی اور سعودی عرب اور قطر کے مزدور مفتی اس ملک کے مختلف علاقوں میں شیعوں کے خلاف کانفرنسیں منعقد کر کے، کتابیں لکھ کر اور تقریریں کر کے لوگوں کو شیعت سے متنفر کرنے کی ناکام کوشش کر رھے ہیں۔
شیعوں کے خلاف تکفیری وھابیوں کی ان تمام تر کوششوں اور مخالفتوں کے باوجود براثا خبر رساں ایجنسی نے مطلع کیا ہے کہ مصر کے شھر اسکندریہ میں ۲۰ ھزار لوگوں نے شیعہ مذھب قبول کر لیا ہے۔