www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

ایک قوم کے قیام کی کامیابی کی اصل وجہ اپنی اور اپنے ملک کی تقدیر اور سرنوشت کو بدلنے میں عام لوگوں کی شرکت اور اس کا مطالبہ ہے ۔

 قرآن کریم میں بھی سورہ رعد کی گیارھویں آیت میں ارشاد ھوتا ہے کہ خدا کسی قوم کے حالات اس وقت تک نھیں بدلتا جب تک وہ خود اپنےکو تبدیل نھیں کر لیتی ہے۔امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی قیادت میں ملت ایران کا قیام اور سن انیس سو اناسی میں انقلاب اسلامی کی کامیابی نے دنیا والوں کے اندر نئی روح پھونک دی اور یہ انقلاب ایرانی عوام کے لئے بھت سی کامیابیوں کا تحفہ لیکر آیا۔اس وقت تیئیس برس گزرجانے کے بعد ،اسلامی ممالک اس عظیم انقلاب کے اسی اھداف کے ساتھ یعنی استبداد ، بیرونی طاقتوں کی مداخلت کے خلاف جنگ اور اسلام کی طرف رجحان کے ساتھ اپنی تقدیرکا فیصلہ کر رھے ہیں۔
ایران کے اسلامی انقلاب نے دنیا کے سامنے ایک نیا حکومتی نظام پیش کیا جس کی جڑیں قرآن اور اسلامی تعلیمات میں پیوست ہیں اور سیاسی اور سماجی میدانوں میں عوام کی شر کت پر تاکید کرتا ہے ۔ایران کا اسلامی انقلاب لوگوں کو اعلی اور سعادت مند زندگی کی طرف دعوت دیتا ہےاور عدل وانصاف اس کا اھم ترین نعرہ ہے ۔ اسی لئے مختلف ممالک کے مسلمان مختلف میدانوں میں اسلامی جمھوریہ کی قابل دید کامیابیوں کو د یکھتے ھوئے اپنے ممالک کے سیاسی ڈھانچے میں گھری تبدیلیاں لے آئے ہیں جو اسلامی بیداری کا نتیجہ ہے۔رھبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے مشیر ڈاکٹر علی اکبر ولایتی کھتے ہیں کہ اسلامی بیداری درحقیقت ایک گھری اور عمیق خود آگھی ہے جو اسلامی تعلیمات کے پر تو میں مسلمان اقوام کو فکری ،سیاسی اور اقتصادی قید سے نجات دلاکر انھیں ترقی و عزت اور ان کے درمیان اتحاد قائم کرنا چاھتی ہے ۔ مصر،لیبیا، یمن اورتیونس کے عوام نے ظلم واستبداد اور ذلت ورسوائی سے تنگ آکر اسلام پسندی کا نعرہ لگایا۔ اسلام اور اسلامی نظام کے مطالبے کی لھر ایسی چلی کہ اس نے حسنی مبارک ،بن علی ، قذافی اور علی عبداللہ صالح جیسے ڈکٹیٹروں کی حکومتوں کا بھت ھی کم مدت میں تختہ الٹ کر رکھدیا ۔
اس میں کوئی شک نھیں کہ انقلاب اسلامی ایران اور خطے کی اسلامی تحریکوں کے درمیان بھت سے مشترکات پائے جاتے ہیں کہ جن کی جڑیں عالم اسلام کی اقدار میں پیوست ہیں ۔ایک قدر مشترک یہ ہےکہ انقلاب اسلامی ایران اور حالیہ انقلابی تحریکوں کی بنیاد یں وحدانیت خدا اور پیغمبر اسلام کی رسالت پر استوار ہیں اور اسلام پسندی ان کا بنیادی ھدف ہے ۔انقلاب اسلامی ایران اور حالیہ تحریکوں کے درمیان ایک اور قدر مشترک ان تحریکوں کا عوامی ھونا ہے یہ خصوصیت انقلاب اسلامی میں بھت ھی اچھے انداز میں نمایاں ھوئی اور عوام نےمختلف سماجی اور سیاسی میدانوں میں حاضر ھوکر دنیا کے سامنے حقیقی جمھوریت کو پیش کیا۔ انقلاب اسلامی ایران اور خطے کی حالیہ تحریکوں کے درمیان ایک قدر مشترک یہ ہےکہ دونوں کے دشمن مشترک ہیں ۔یعنی امریکہ اور اسرائل کی قیادت میں عالمی استکبار دونوں کا دشمن ہے جواسلام اور اقوام کی آزادی وخود مختاری کے لئے خطرہ ہے ۔ انقلاب اسلامی ایران اورحالیہ اسلامی تحریکوں کی اھم ترین خصوصیت یہ ہےکہ دونوں مغرب سے عدم وابستگی اوراپنے ممالک کے قومی مفادات کی بنیاد پر استقلال و آزادی پر تاکید کر تے ہیں ۔ درحقیقت ایران کے اسلامی انقلاب نے دنیا کے مسلمانوں کوان کے حقوق اور صلاحیتوں سے آگاہ کیا اور داخلی وخارجی استبداد کے نہ ٹوٹنے والے طلسم کو توڑ کر رکھدیا ۔اس اھم مسلئے نے مسلمان اقوام کی جرائت و شجاعت میں اضافہ کر دیا اورانھیں خود اعتمادی عطا کردی۔اس وقت اسلامی بیداری کی لھر بڑی تیزی کے ساتھ آگے کی سمت بڑھ رھی ہے اور کسی مطلوب نتیجہ تک پھونچنے والی ہے۔
گزشتہ برس اسلامی ممالک میں عوامی تحریکوں کے ساتھ تھران نے خطے میں مؤثر کردار ادا کیا اور انقلابی تحریکوں کے رھنماؤں کی فعال شرکت کے لوگ شاھد تھے ۔ تیرہ سو نوے ھحری شمسی میں مصر، تیونس ، لیبیا اور بعض انقلابی ممالک سے مختلف گروہ ایران آئے اور انھوں نے ایران کے اعلی حکام سے ملاقات اور گفتگو کی ۔اس کے علاوہ تھران نے مختلف انقلابی گروھوں کے لئے خصوصی اور مختلف قسم کے اجلاس منعقد کرائے تاکہ ایران اپنے تجربات کو منتقل کرنے کے ساتھ ساتھ ان گروھوں کے ساتھ مستقبل میں اسلامی بیداری تحریکوں کے لئے درپیش چیلنجوں اور مختلف مسائل کا بھی جائزہ لے سکے۔ تھران میں گزشتہ برس اسلامی بیداری کے پھلے بین الاقوامی اجلاس کا نو جوانوں اور اسلامی بیداری کے عنوان سے انعقاد اسلامی تحریکوں کی حمایت کے بارے میں اولین اجلاس تھا ۔تھران میں یہ اجلاس سترہ اور اٹھارہ ستمبرسن دوھزارگیارہ کو منعقد ھوا اور انتیس و تیس جنوری بارہ کو بھی بین الاقوامی اسلامی بیداری کا اجلاس منعقد ھوا جس میں دنیا کی مختلف اسلامی تنظیموں اور مراکز کے ایک ھزار سے زیادہ سیاسی اور علمی میدانوں میں فعال اور ممتاز جوا نوں نے شرکت کی۔اس کے علاوہ اس اجلاس میں دنیا کے مختلف ممالک خاص طور پر عالم اسلام کے سیکڑوں علماء دانشور، روشن خیال ،صاحبان نظر،ماھرین سماجیات ،مورخین اورانقلابی جوانوں نے شرکت کی ۔ لبنان ،مصر، عراق اور خطے کے بھت سے ممالک سے بھی انقلابی اور فعال سیاسی گروھوں نے اس اجلاس میں شرکت کی تاکہ اسلامی بیداری کی تحریک اور اس سے متعلق مسائل کا جائزہ لےسکیں ۔ اس اجلاس میں شرکت کرنےوالوں نے اجلاس میں شرکت کے بعد رھبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کی اور آپس میں صاحبان نظر اساتذہ ،اور دانشوروں نےتبادلہ خیال کیا۔ ان دونوں اجلاس میں خصوصی کمیشن کی چھ میٹنگیں بھی منعقد ھوئیں۔ ایک میٹنگ میں فکری ،نظری اصولوں اور اسلامی بیداری کے فروغ کے اسباب کا جائز ہ لیا گیا۔ اور ایک میٹنگ میں حاکمیت اسلام اور جوانوں کے کر دار کا جائزہ لیا گیاجبکہ دوسری میٹنگوں میں اسلامی بیداری کے مقابل امریکہ اور اسرائیل کی قیادت میں عالمی سامراج کی سازشوں اور دیگر بھت سے مسائل پر تنقید اور گفتگو کی گئی ۔ خصوصی میٹنگوں میں اسلامی بیداری کو لاحق خطرات اور مواقع اور مستقبل میں اسلامی بیداری کے افق کا بھی جائزہ لیا گیا ۔
اسلامی بیداری اجلاس میں شرکت کرنےوالوں نے اسلامی بیداری تحریکوں کی کامیابی پر خوشی کا اظھار کر تے ھوئے اجلاس اور مختلف میٹنگوں میں پیش کئے گئے نظریات اورتجاویز کو مفید قراردیا اور آیندہ بھی اس طرح کے اجلاس کے انعقاد کا مطالبہ کیا گیا ۔ لھذا اجلاس کے اعلامیہ میں طے پایا ہے کہ اسلامی جمھوریہ ایران اس سلسلے میں اھتمام کرے گا۔اعلامیہ کی ایک شق میں آیا ہے کہ اسلامی بیداری کی بالندگی و استمرار ، باھمی تعلقات اور تعاون میں فروغ ،تجربوں کی منتقلی،مواقع اور خطرات کا تجزیہ اور اس کے حل کےلئے حکمت عملی، اسلامی بیداری کے عالمی مرکز کی تشکیل اور تھران میں سیکریٹریٹ قائم کر نے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ سیکٹریٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس اجلاس کے فیصلوں پر عملدرآمد کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ اسلامی بیداری کے بعد میں نوبت کے ساتھ ھونے والے اجلاسوں اور خصوصی میٹنگوں کے لئے مقدمات اور عالم اسلام کے دانشوروں اور ماھرین کے درمیان مسلسل رابطہ قائم رکھنے کا انتظام کرے گا۔
اس اجلا س کے سلسلے میں عالمی سطح پر رد عمل سے مغربی ممالک کےخوف ھراس کا پتہ چلتا ہے کہ مغربی ممالک تھران اوران ممالک کے انقلابی گروپوں کے درمیان تعلقات سے سخت پریشان اور خوف زدہ تھے جن کے اندر اسلامی بیداری کی لھر آئی ھوئی ہے لیکن خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ انقلابی جوان اور اسلامی ممالک سے آنے والے گروپ ایرانی حکام خاص طور پر رھبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کرنے کے بھت زیادہ مشتاق تھے ۔مثال کے طورپر مصر کے جوان نامہ نگاروں اور مصنفین نے رھبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے بیانات کو بھت زیادہ پسند کیا اور انھوں نے رھبر انقلاب اسلامی کی قدر دانی کی اور ان کے بیان کو سراھا۔ رھبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں اسلامی ممالک کےنو جوانوں کو مستقبل میں عالم اسلام کے علمبردار ھونے کی نوید دی تھی ۔ مصری نوجوانوں نے اپنے انٹرویوز میں رھبر انقلاب اسلامی کے اس بیان کو انقلابی تحریکوں کے لئے امید افزا قرار دیا۔ اس وقت اسلامی تحریکوں نے قرآن کریم اور اسلامی نعروں پر بھروسہ اورانقلاب اسلامی ایران کی اعلی اقدار کی پیروی کر تے ھوئے ، امریکہ سے وابستہ حکام سے اپنی تقدیر کو الگ اور استقلال و آزادی کے راستے کا انتخاب کر لیا ہے ۔امام خمینی رحمت اللہ علیہ ھمیشہ اس نکتہ پر تاکید کرتے تھے کہ ھمارے انقلاب کے برآمدکر نے کے معنی یہ ہیں کہ دنیا کی تمام قومیں بیدار ھوجایئں ۔تمام حکومتیں بیدار ھوجايئں اورخود کو مشکلات سےنجات دیں اور پورے عالم اسلام حتی دنیا کی حریت پسند قومیں انقلاب اسلامی کی برکت اوراسلامی بیداری کی روح پرور تحریکوں کے ذریعہ استکبار سے مقابلہ کے لئے آمادہ ھوجایئں اوراللہ اکبر کے نعروں سے پوری دنیا کو ھلا دیں ۔

Add comment


Security code
Refresh