شام میں نام نھاد جھاد کے فتوے سازی کرنے والے سعودی درباری مفتی در اصل القاعده، النصره اور طالبان کی مدد سے امریکی اور صھیونی ایجنڈے کو مزید تقویت دے کر آگے بڑھا رھے ہیں۔
پچھلے دنوں دنیا نے غیر یقینی کے عالم میں یہ خبر سنی کہ تکفیری دهشت گردوں نے شام میں واقع صحابی رسول حضرت حجر بن عدی (رض) کے مزار اقدس کو نه صرف منهدم کردیا بلکه آپ کے جسد مبارک کو بھی قبر کھود کر اپنے ساتھ لے گئے۔ اس قبیح اور غیر انسانی فعل سے دنیا والوں پر ایک بار پھر تکفیریوں اور ان کی سر پرستی کرنے والوں کے کریه چھرے اور ناپاک عزائم کھل کر سامنے آگئے۔
19 صدی کے اوائل میں حجاز کی مقدس اور پاک سرزمین پر خاندان آل رشید کا تخته الٹ کر براجمان هونے والے خاندان آل سعود نے کہ جسے برطانوی سامراج کی مکمل حمایت اور پشتپناھی حاصل تھی، عالم اسلام میں ایک ایسا رخنه ڈالا کہ آج تک مسلمان آپس میں دست بگریباں ہیں اور حالات بظاھر بدتر ھوتے جا رھے ہیں۔
معاملات اگر سیاسی چپقلشوں اور اقتدار کی رسه کشی تک محدود هوتے تو صبر کرلیا جاتا۔ فلسطین کا سودا کرنے پر بھی صبر آجا تا لیکن سلفیت اور تکفریت کے نام پرجو خنجر امت مسلمه کی پشت میں گھونپا گیا ہے اور اسلام کے نام پر جو خباثتیں یہ گروہ انجام دے رھا ہے وه اب ناقابل برداشت هوتی جا رھی ہیں۔ سعودی عرب میں فتوی سازی کرنے والے درباری مفتی دراصل القاعده، النصره اور طالبان کی مدد سے امریکی اور صھیونی ایجنڈے کو آگے بڑھا رھے ہیں۔
گیارہ ستمبر کے مشکوک واقعے کے بعد صدر وقت امریکہ جارج ڈبلیو بش نے چند ممالک کو بدی کا محور قرار دیا تھا ان میں شام بھی شامل تھا۔ البتہ افغانستان اورعراق کو ملیامیٹ کرکے امریکه بدی کے محور دیگر ملکوں خصوصا شام پر براه راست جارحیت نہ کرسکا اس کی ایک بنیادی وجہ یہ تھی کہ امریکه عالمی سطح پر تنھا پڑ گیا تھا اور دوسرے یہ کہ اندورن ملک امریکی عوام کی جانب سے شدید مخالفت اور دباؤ کا سامنا تھا۔
اس صورتحال سے فائدہ اٹھا تے ھوئے مسٹراوباما تبدیلی کا نعره لگا کرامریکی عوام اور عالمی رائے عامہ کو گمراه کرکے وائیٹ هاؤس میں براجمان ھوگئے تاھم اسلامی ملکوں پر تسلط اور اسرائیل کا تحفظ ان کی بنیادی خارجہ پالیسی کی حثیت سے ان کے پیش نظر رھا۔
دو ڈھائی برس قبل شام میں بظاھر سیاسی مخالفین ملک میں اصلاحات کا نعرہ لگا کر سڑکوں پر نکلے تو عرب لیگ نے بالکل غیر متوقع اقدام کرتے ھوئےاس تنظیم میں شام کی رکنیت معطل کردی۔ اس سے بھی بڑھ کر ایک اور تعجب خیز اقدام سعودی عرب کی جانب سے دیکھنے کوملا جس نے شام میں جمهوریت اور آزادی کے فقدان کو ناقابل قبول قرار دیتے ھوئے بشار اسد سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کیا۔
سعودی عرب کی دیکھا دیکھی قطر نے بھی اسی طرح کے مضحکه خیز بیانات دئے اور پھر ترکی بھی اپنی نقاب اتار کر شام کے میدان جنگ میں بشار اسد کے حریف کے طور پر کود پڑا۔ ابتدا میں عالمی رائے عامہ اور اسلامی دنیا میں شام کے معاملے میں گمراہ ھوگئی اور مغربی میڈیا کے پروپیگنڈے کے زیراثر دھشت گردی کو بھار عربی سمجھ بیٹھی، لیکن ایک مسئله ایسا تھا کہ جو حالات و واقعات سے معمولی سی واقفیت رکھنے والوں کی سمجھ سے بالاتر تھی اور وہ شام میں آزادی اور جمھوریت کے فقدان پر سعودی عرب اور قطر جیسے ملکوں کی جانب سے واویلا تھا، کیونکہ دنیا جانتی ہے کہ آزادی اور جمھوریت دو ایسے مفاھیم ہیں کہ جن کا سعودی عرب اور قطر سے گذر بھی نھیں ھوتا، ان ملکوں پر ایک ھی خاندان کی حکومتیں برسھا برس سے قائم ہیں اور انتخابات کے مفھوم سے ان ملکوں کے عوام اور حکام دونوں نا آشنا ہیں۔
مغربی میڈیا کے زیر اثر اسلامی دنیا کے اخبارات و جرائد اور ٹی وی چینلز شام سے متعلق خبروں کو برعکس کر کے پیش کرتے رھے نیز یورپ و امریکہ والے شامی باغیوں اور حکومت مخالفین کو شامی عوام کے حقیقی نمائندوں کے طور پر متعارف کرانے کا مشن انجام دیتے رھے۔ اس سارے قضیے کا دلچسپ پھلو یہ کہ امریکہ اور مغرب والے ساری دنیا میں القاعدہ اور اس کے همفکر گروپوں کو دھشت قرار دے کر ان کا قلع قمع کرنے کا دعویٰ کررھے ہیں لیکن شام میں بشار اسد کے مخالفین کی حثیت سے انھی دہشت گرد گروھوں کی مالی، سیاسی، اور فوجی سپورٹ کرنے میں ذرہ برابر نھیں ھچکچا رھے۔ یھی کھلا تضاد اس امر کا باعث بنا که دنیا بتدریج اس بات سے واقف ھو گئی کہ شام میں آزادی اور جمهوریت کے فقدان کو بھانہ بناکر لڑی جانے والی جنگ دراصل اسی صلیبی جنگ کا تسلسل ہے کہ جس کا اعلان گیارہ ستمبر 2001 کے مشکوک واقعات کے بعد صدر وقت امریکه جارج ڈبلیو بش نے کیا تھا۔
البتہ اس وقت امریکہ اور مغرب والے ایک تیر سے بیک وقت کئی شکار کر رھے ہیں۔ ایک طرف انھوں نے شام میں بشاراسد کے ھاتھوں انجام پانے والے فطری اور تدریجی سیاسی اصلاحات کے عمل کو روک دیا ہے اور دوسری طرف، ترکی، قطر اور سعودی عرب کو ایک ایسے محاذ پر کھڑا کردیا ہے کہ جھاں شکست یا کامیابی کی صورت میں خانه جنگی میں مشغول نام نھاد جھادی قوتوں کو سمٹنا اور ان کو ان کے گھروں میں پھچانا مکمن نه ھوگا اور نام نهاد جھادی قوتوں کو اپنے میزبان ملکوں میں پھلنے پھولنے کا موقع ملے گا جس کے نتیجے میں ترکی، سعودی عرب اور قطر اسی صورتحال سے دوچار ھوں گے جس سے آج پاکستان دوچار ہے۔
در اصل نام نهاد جھادی قوتوں کی انحرافی فکر اور طرز زندگی اور ان کی میزبان حکومتوں کے طور طریقوں اور روشوں میں اتنا زیادہ فرق اور تضاد پایا جاتا ہے کہ ممکن ھی نھیں ہے کہ وہ ایک دوسرے کو برداشت کر سکیں۔ لہذا اپنے پیش نظر نام نھاد جھادی عمل سے فارغ ھونے کے بعد شامی باغی وھی کریں گے جو انھوں نے پاکستان اور افغانستان میں کیا اورجس سے اس وقت ملت عراق دوچار ہے۔
ترکی میں باغیوں کی موجودگی کے آثار ھویدا ھونا شروع ھوگئے ہیں۔ شام میں خانہ جنگی میں مشغول دھشت گرد عناصر کی حمایتی محاذ میں اب اسرائیل بھی علی الاعلان کود پڑا ہے جس سے یہ اندازہ لگانا اب کوئی مشکل کام نھیں کہ یه جنگ محض صدر بشار اسد کو ااقتدار سے بے دخل کرنے کے لئے نھیں بلکہ شام کی ارضی سالمیت اور اقتدار اعلی کے خلاف لڑی جارھی ہے کہ جس کا اصل اور بنیادی مقصد قدس شریف کی غاصب حکومت کو ان خدشات اور خطرات سے نکالنا ہے جو اسلامی بیداری کے لھر کے نتیجے میں اس کے وجود کو لاحق ھوگئے ہیں۔
افسوس کے ساتھ کھنا پڑتا ہے کہ اسرائیل کے تحفظ کے لئے شام کے خلاف لڑی جانے والی اس جنگ کا سارا بوجھ سعودی عرب اور قطر سمیت چند دیگر رجعت پسندعرب ممالک اور ترکی برداشت کر رھے ہیں اور امریکی مفادات کی خاطر حتی اپنے ملکوں کے اقتدار اور اعلی ارضی سالمیت کو خطرے میں ڈال رھے ہیں۔