عصر حاضر کو بھت سے لوگوں نے انفرمیشن ٹیکنالوجی کے انقلاب کا زمانہ قرار دیا ہے
اجتماعی ارتباط کے وسائل معاشروں پر پرامن تسلط کے لیے کارآمد ترین ھتھیار اور افکار و نظریات کی ترویج کے پیچیدہ ترین ھتھکنڈے ہیں۔ حالیہ چند عشروں کے دوران ترقی و پیشرفت کی حیرت انگیز رفتار اور انفرمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کے پیش نظر دنیا میں ان وسائل اور آلات کی پیچیدگی اور ان کے کارآمد ھونے میں بھی اضافہ ھو گیا ہے۔
عصر حاضر میں انسانی معاشرے کے پھیلاؤ نے انسانوں کے اجتماعی تعلقات کے میدان میں ذرائع ابلاغ عامہ اور میڈیا کے وجود کو ایک ناگزیر امر بنا دیا ہے۔ ماضی میں انسانوں کو ایک دوسرے سے آمنے سامنے رابطہ ھوتا تھا اور اسی طریقے سے افکار و نظریات ایک دوسرے تک منتقل ھوتے تھے لیکن ان کی رفتار انتھائي کم تھی۔ لیکن آج کے دور میں جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے جرات کے ساتھ کھا جا سکتا ہے کہ انسانی معاشرے روزانہ کی صورت میں ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں ہیں اور یھی قریبی رابطے عالمی سطح پر نئی زندگی کے انداز اور طور طریقے تیزی کے ساتھ تبدیل ھونے کا باعث بنے ہیں۔ اس وقت رابطوں میں تیزی اور ترقی سے معاشروں پر بھت سے اثرات مرتب ھوئے ہیں اور ان میں تبدیلیاں رونما ھوئي ہیں اور میڈیا نے جن میں ٹی وی چینل سیٹلائٹ حتی انٹرنیٹ بھی شامل ہے، معاشرے میں وہ مقام حاصل کر لیا ہے کہ جس کا اس سے پھلے کسی نے تصور بھی نھیں کیا تھا۔
ذرائع ابلاغ موجودہ حالات میں معاشرے کے عام لوگوں اور ان کے طرز زندگي پر گھرا اثر ڈال رھے ہیں اور اس میں زیادہ کردار ٹی وی چینلوں جیسے ذرائع ابلاغ کا ہے۔ اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت ان کو استعمال کرتی ہے کہ جو ان کی حساسیت کو بڑھا دیتی ہے اور ان زیادہ کارآمد بنا دیتی ہے۔ اس قسم کے ذرائع ابلاغ نے گزشتہ چند دھائیوں کے دوران بھت سے ناظرین کو اپنی طرف کھینچا ہے جس کے نتیجے میں طرز زندگی کا مسئلہ بھی چاھتے اور نہ چاھتے ھوئے بھی اس سے جڑ گيا ہے۔ اس لیے عصر حاضر کے بھت سے دانشوروں کا کھنا ہے کہ اجتماعی رابطے کے وسائل حتی نظریہ اور سوچ کو بنانے میں بھی اھم کردار ادا کر رھے ہیں۔
ذرائع ابلاغ وسیع اور مختلف قسم کے اثرات کے حامل ہیں جن میں نفسیاتی سیاسی اقتصادی اور ثقافتی اثرات شامل ہیں اس کے علاوہ یہ عقائد، اقدار، سلیقوں اور کلی طور پر طرز زندگی کو بدلنے میں بھی اھم کردار کے حامل ہیں۔ آج ذرائع ابلاغ نے ثقافتی طاقت کے اثر و رسوخ کو بے حد تیزی اور تنوع بخشا ہے۔ ثقافتی طاقت ، دوسروں کے جاذب نظر زندگی کے طور طریقوں کو بنانے اور ان کو معانی کے لیے افراد یا گروھوں کی طاقت و توانائي ہے۔
برطانیہ کے مشھور ماھر سماجیات انتھونی گیڈنز اسی سلسلے میں لکھتے ہیں کہ ٹیلی ویژن کی ایجاد نے انسانوں کی روزمرہ کی زندگي پر گھرے اثرات مرتب کیئے ہیں کیونکہ بھت سے لوگ ٹی وی پروگراموں سے متاثر ھو کر اپنا طرز زندگي اسی طرح کا بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نھیں کہ عصر حاضر کا میڈیا معاشرے اور لوگوں کی زندگي پر گھرے اثرات مرتب کر رھا ہے۔ اب یھاں یہ سوال پیدا ھوتا ہے کہ مخاطب کس طرح راضی ھوتا ہے کہ ذرائع ابلاغ اور میڈیا اس کے لیے کسی چیز کا انتخاب کرے؟ ماھرین سماجیات میڈیا کو معاشرے کی ضروریات کو پورا کرنے والا قرار دیتے ہیں۔ اس لیے معاشرے کا ایک فرد میڈیا کو اپنے دوست اور مشیر کے طور پر منتخب کرتا ہے اور خود اس سے بات کیے بغیر اس کی باتیں سنتا ہے۔ البتہ بعض لوگوں کا یہ کھنا ہے کہ افراد ٹی وی پروگرام دو مقصد کے تحت دیکھتے ہیں ایک وہ لوگ ہیں جو اپنی پسند کے پروگرام دیکھتے ہیں اور اگر ان کی پسنداور مقصد کا کوئي پروگرام نہ ھو تو وہ ٹی وی نھیں دیکھتے اور دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو بغیر کسی مقصد کے ٹی وی پروگرام دیکھتے ہیں۔ پھلی قسم کے لوگ ٹی وی پروگراموں سے زیادہ اثر نھیں لیتے ہیں لیکن دوسری قسم کے افراد پر ٹی وی پروگرام زیادہ اثرات مرتب کرتے ہیں اور وہ ٹی وی دیکھنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں اسی وجہ سے ان کے طرز زندگی پر ٹی وی پروگراموں کا زیادہ اثر ھوتا ہے۔ تو بھتر ہے کہ ھم طرز زندگی کی بھی کوئي تعریف کریں۔ طرز زندگي، اقدار ، رفتار و کردار اور مجموعی طور پر انسان کی عادات کے مجموعے کا نام ہے جس میں اس کی زندگی سے تعلق رکھنے والی تمام چیزیں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ایک معاشرہ بھی ایک خاص طرز زندگي کا حامل ھوتا ہے۔ طرز زندگی میں انفرادی اور اجتماعی دونوں طرح کے طرز زندگی شامل ہیں۔
اس بات میں کوئی شک و شبہ نھیں ہے کہ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ خود آزادانہ طریقے سے طرز زندگی کا انتخاب کرنا چاھیے اور یہ ان کے قانونی حقوق اور اختیارات میں شامل ہے۔ لیکن کیا آج کی دنیا میں ایسا ھوتا ہے۔
میڈیا سے وابستہ اکثر افراد کا یہ کھنا ہے کہ لوگ خود اپنے طرز زندگی کا انتخاب کرتے ہیں۔ وہ کھتے ہیں کہ وہ مسلسل اپنے ناظرین کی رائے معلوم کرتے رھتے ہیں اور وہ ان کی رائے اور خیال کا احترام کرتے ہیں اور انھیں یقین دلاتے ہیں کہ ان کے پروگرام ناظرین کی رائے کے مطابق تیار کیے جاتے ہیں لیکن اسی سلسلے میں بعض بنیادی سواالات ذھن میں آتے ہیں اور تمام چیزیں اتنی سادگي سے انجام نھیں پاتی ہیں۔
میڈیا کے شعبے کے ماھرین اس سلسلے میں خبر پھنچانے میں میڈیا کے بعض طریقوں کا ذکر کرتے ھوئے عوام کی سوچ پر میڈیا کے اثرات سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ ایک روش خبر کے گیٹ کیپر کے نام سے ہے کہ جس کے تحت انتخاب کا حق میڈیا کو دیا جاتا ہے یعنی یہ کہ میڈیا سب باتیں نھیں کھتا ہے بلکہ وہ مسائل بیان اور نشر کرتا ہے جو اس کی اسٹریٹجی سے مطابقت رکھتے ہیں۔
میڈیا کی ایک اور روش ایجنڈا سیٹنگ ہے کہ جس کے تحت میڈیا تمام خبروں اور مطالب میں سے بعض مسائل کو نمایاں طور پر بیان کرتے ہیں جبکہ ممکن ہے کہ وہ حقیقت میں اتنے اھم نہ ھوں جتنا میڈیا ان کو اھم بنا رھا ہے۔
لیکن ان دو روشوں سے اھم تیسری روش ہے جسے فریمنگ یا خبر کو ایک خاص رنگ دینا کھتے ہیں۔ اس روش میں میڈیا ناظرین کے لیے ایک خاص فریم تیار کرتا ہے اور تمام مسائل اسی فریم کے تحت بیان کیے جاتے ہیں اور ان کی تشریح کی جاتی ہے۔ اس طرح ایک عرصے کے پروپیگنڈے کے بعد ناظرین میڈیا کے ساتھ ھم فکر ھو جاتے ہیں اور اسی فریم کے تحت دنیا کو دیکھتے ہیں۔
اس طرح ھم دیکھتے ہیں کہ میڈیا کسی حد تک افراد کے فکری اور نظری نظام کی تشکیل میں مؤثر کردار کا حامل ہے۔ اور یہ فکری نظام ھی ہے کہ جو طرز زندگی کی بنیادوں کو واضح کرتا ہے۔ دوسری جانب میڈیا خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا مسلسل طرز زندگی کی تعلیم دے رھا ہے۔ یہ کہ لوگ کس طرح اپنے فارغ اوقات بسر کریں، ان کا گھر کس طرح کا ھونا چاھیے۔ انھیں کھاں دوسروں سے بات چیت کے لیے ملاقات کرنی چاھیے اور سفر کے لیے کھاں جانا چاھیے اور کس کے ساتھ جانا چاھیے۔