آپ معزز مھمانوں کو خوش آمدید کھتا ھوں اور خدائے عزیز و رحیم کی بارگاہ میں دعا گو ھوں کہ اس اجتماعی سعی و کوشش میں برکت عطا کرے
اور اسے مسلمانوں کے حالات کی بھتری کی سمت موثر قدم میں تبدیل کر دے۔" انہ سمیع مجیب" وہ سننے اور قبول کرنے والا ہے۔
اسلامی بیداری کا موضوع جس پر آپ اس اجلاس میں بحث کریں گے، اس وقت عالم اسلام اور امت مسلمہ کے مسائل میں سر فھرست ہے۔ ایسی حیرت انگیزی تبدیلی جو اذن پروردگار سے اگر صحیح و سالم رہ گئی تو وہ دن دور نھیں کہ یہ اس بات پر قادر ھو جائیگی کہ امت اسلامیہ اور پھر عالم بشریت کے لئے اسلامی تمدن کو وجود عطا کر دے۔
آج جو کچھ ھماری نگاھوں کے سامنے ہے اور جس کا کوئی بھی باخبر اور سمجھدار انسان منکر نھیں ھو سکتا یہ ہے کہ اس وقت اسلام دنیا کے سیاسی و سماجی معاملات میں حاشئے سے نکل کر عالمی تغیرات کے فیصلہ کن عناصر کے مرکز میں نمایاں مقام پر پھنچ گیا ہے اور امور حیات، سیاست، حکومت اور سماجی تغیرات کے میدان میں ایک نیا طرز فکر پیش کر رھا ہے۔ یہ چیز موجودہ دنیا میں جو کمیونزم اور لبرلزم کی شکست کے بعد گھرے فکری و نظری خلاء سے دوچار ہے، بھت اھم اور بامعنی ہے۔
یہ شمالی افریقا اور عرب علاقے کے انقلابی و سیاسی تغیرات کا پھلا اثر ہے جو عالمی سطح پر مرتب ھوا ہے اور مستقبل میں زیادہ بڑے واقعات کے وقوع پذیر ھونے کی خوش خبری دے رھا ہے۔
اسلامی بیداری کہ استکباری اور رجعت پسند محاذ کے ترجمان جس کا نام بھی زبان پر لانے سے گریزاں اور ھراساں ہیں، وہ اٹل سچائی ہے جس کے آثار اس وقت تقریبا پورے عالم اسلام میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس کی نمایاں ترین علامت رائے عامہ اور بالخصوص نوجوان طبقے میں اسلام کی عظمت و جلالت کے احیاء کا گھرا اشتیاق، عالمی استکبار کی حقیقی ماھیت سے اس کی آشنائی، اور ان مراکز اور حکومتوں کے پست استکباری و استبدادی چھرے کا بے نقاب ھو جانا ہے جنھوں نے دو صدیوں سے بھی زیادہ عرصے سے مشرق کے اسلامی و غیر اسلامی خطوں کو اپنے خونیں پنجوں میں جکڑے رکھا اور تھذیب و ثقافت کے پردے میں قوموں کے وجود کو اپنی بے رحمانہ اور جارحانہ تسلط پسندی کی بھینٹ جڑھایا۔
اس با برکت بیداری کے پھلو ویسے تو بھت وسیع اور پراسرار پھیلاؤ کے حامل ہیں لیکن فوری طور پر شمالی افریقا کے ممالک میں اس کے جو ثمرات سامنے آئے ہیں وہ مسقتبل میں زیادہ بڑے اور حیرت انگیز نتائج کی بابت دلوں کو امید بڑھاتے ہیں۔ اللہ کے وعدوں کا کرشماتی طور پر جامہ عمل پھننا ھمیشہ زیادہ بڑے وعدوں کی تکمیل کی امید بڑھاتا ہے۔ قرآن میں اللہ کے ان دو وعدوں کا قصہ جو اس نے مادر موسیٰ کو دیا خاص روش خداوندی کا نمونہ ہے۔
جب اس مشکل گھڑی میں اس صندوق کو پانی میں ڈالنے کا فرمان صادر ھوا جس میں نوزاد تھا تو خطاب پروردگار میں یہ وعدہ کیا گيا کہ؛ "انّا رادّوہ الیک و و جاعلوہ من المرسلین"۔ پہلے وعدے کا ایفاء جو چھوٹا وعدہ تھا اور ماں کی مسرت و شادمانی کا سامان فراھم کرنے والا تھا، رسالت عطا ھونے کے وعدے کی تکمیل کی نوید تھا جو بھت بڑا وعدہ تھا تاھم اس کے لئے طویل جدوجھد اور صبر و تحمل درکار تھا۔"فرددناہ الی امّہ کی تقرّ عینھا و لا تحزن و لتعلم انّ وعد اللہ حقّ۔۔۔۔۔ "یہ سچا وعدہ در حقیقت مقام نبوت عطا کئے جانے کا بڑا وعدہ تھا جو چند سال بعد پورا ھوا اور جس نے تاریخ کی سمت موڑ دی۔
ایک اور مثال بیت اللہ الحرام پر حملہ کرنے والوں کی سرکوبی کرنے والی اللہ کی قدرت غالبہ کی یاد دھانی ہے۔ اللہ تعالی نے عوام الناس کو اطاعت و فرمانبرداری کی ترغیب دلانے کے لئے پیغمبر اعظم (ص)کے ذریعے یہ یاددھانی کرائی؛" فلیعبدوا ربّ ھذا البیت"، اس کے بعد فرمایا : "ا لم یجعل کیدھم فی تضلیل"، اسی طرح اپنے پیارے نبی کی حوصلہ افزائی اور وعدے کی تکمیل کی بابت یقین دھانی کے لئے فرمایا؛ "ما ودّعک ربّک و ما قلی"، معجزاتی نعمتوں کا ذکر کرتے ھوئے فرمایا؛" ا لم یجدک یتیما فآوی و وجدک ضالّا فھدی"۔
قرآن میں اس طرح کی مثالیں کثرت سے موجود ہیں۔
جب ایران میں اسلام کو فتح ملی اور اس نے اس انتھائی حساس علاقے کے بے حد اھم ملک میں امریکا اور صھیونزم کے قلعے کو فتح کر لیا تب اھل حکمت و اھل عبرت لوگوں کو معلوم ھوا کہ اگر صبر و بصیرت پر کاربند رھا جائے تو پے در پے مزید کامیابیاں حاصل ھوں گی، اور حاصل ھوئیں۔
اسلامی جمھوریہ کی درخشاں کامیابیاں، جن کا اعتراف ھمارے دشمنوں کو بھی ہے، سب اللہ کے وعدے پر ایقان و اطمینان، صبر و استقامت اور پروردگار سے طلب نصرت کے طفیل حاصل ھوئی ہیں۔ ھمارے عوام نے اضطراب انگیز مواقع پر کمزور قوت ارادی کے افراد کی؛ "انّا لمدرکون" کی چیخ پکار کے جواب میں ھمیشہ؛ "کلّا انّ معی ربّی سیھدین"، کا نعرہ بلند کیا ہے۔
آج یہ گراں قدر تجربہ ان اقوام کی دسترسی میں ہے جنھوں نے استکبار اور استبداد کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور بدعنوان اور امریکا کی اطاعت شعار حکومتوں کو سرنگوں یا متزلزل کر دیا ہے۔ استقامت، صبر و بصیرت اور اللہ کے اس وعدے پر: " ولینصرنّ اللہ من ینصرہ انّ اللہ لقویّ عزیز" مکمل یقین سے امت مسلمہ کے سامنے اسلامی تمدن کی بلند چوٹی تک رسائی کا راستہ ھموار ھو جائے گا۔
اس اھم ترین اجلاس میں جس میں مختلف ممالک اور گوناگوں اسلامی مکاتب فکر کے علماء تشریف فرما ہیں، اسلامی بیداری کے باب میں چند نکتے بیان کر دینا لازمی سمجھتا ھوں:
پھلا نکتہ: اس علاقے کے ممالک میں استعمار کے ھراول دستے کی آمد کے ساتھ ھی شروع ھونے والی اسلامی بیداری کی لھر غالبا دین اور دینی مصلحین کے ذریعے وجود میں لائی گئی۔ سید جمال الدین، محمد عبدہ، میرزا شیرازی، آخوند خراسانی، محمود الحسن، محمد علی، شیخ فضل اللہ، الحاج آقا نور اللہ، ابو الاعلی مودودی اور دوسرے دسیوں معروف، بزرگ، ذی اثر مجاھد علماء کا نام جن کا تعلق ایران، مصر، ھندوستان اور عراق جیسے ممالک سے ہے تاریخ کے صفحات پر ھمیشہ کے لئے ثبت ھو گیا ہے۔ موجودہ دور میں امام خمینی(رہ) کا درخشاں نام چمکتے ستارے کی مانند ایران کے اسلامی انقلاب کی پیشانی پر ضوفشانی کر رھا ہے۔ اس عرصے میں سیکڑوں معروف اور ھزاروں غیر معروف علماء نے مختلف ممالک میں چھوٹے بڑے اصلاحی اقدامات میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ علمائے دین کی صنف کے باھر بھی حسن البناء اور علامہ اقبال جیسے دینی مصلحین کی فھرست بھی بھت طویل اور حیرت انگیز ہے۔
علمائے کرام اور دینی امور کے ماھرین کم و بیش ھر جگہ ھی عوام الناس کے فکری مرجع اور روحانی اطمینان و سکون کا سرچشمہ رھے ہیں اور جھاں بھی بڑے تغیرات کے موقعے پر وہ قائد اور رھنما کے طور پر آگے آئے اور خطرات کے مقابل عوامی صفوں میں پیش پیش رھے ہیں عوام سے ان کا فکری رشتہ اور بھی مستحکم بن گیا اور عوام کے راستے کے تعین کے لئے ان کا اشارہ زیادہ موثر رھا ہے۔ یہ چیز اسلامی بیداری کی تحریک کے لئے جتنی مفید اور بابرکت ہے، امت مسلمہ کے دشمنوں، اسلام سے کینہ رکھنے والوں اور اسلامی اقدار کی حکمرانی کے مخالفوں کے لئے اتنی ھی ناپسندیدہ اور باعث تشویش ہے۔ اسی لئے وہ کوشش کر رھے ہیں کہ دینی مراکز کی فکری محور کی حیثیت کو ختم کر دیں اور عوام کے لئے ایسے نئے محور تراشیں جن کے بارے میں وہ تجربہ کر چکے ہیں کہ یہ افراد قومی اقدار اور اصولوں پر بآسانی سودےبازی کر سکتے ہیں۔ جبکہ باتقوی علمائے کرام اور دینی افراد سے یہ چیز محال ہے۔
اس صورت حال میں علمائے دین کا فریضہ اور بھی سنگین ھو جاتا ہے۔ انھیں چاھئے کہ پوری دانشمندی، دقت نظری اور دشمن کی فریب آمیز چالوں اور حربوں کی مکمل شناخت کے ساتھ دراندازی کے سارے راستے مسدود کر دیں اور دشمن کے اس فریب کو نقش بر آب کر دیں۔ دنیاوی نعمتوں کے رنگارنگ دستر خوان پر بیٹھنا بھت بڑی آفت ہے، صاحبان دولت و ثروت سے رشتہ اور ان کے احسان تلے دب جانا، طاغوتی طاقتوں کا نمک خوار بن جانا علماء سے عوام کی روگردانی اور عوامی اعتماد و مقبولیت کے ختم ھو جانے کا خطرناک سبب ہے۔ انانیت اور جاہ طلبی جو کمزور ارادے کے مالک افراد کو طاقت و دولت کے مراکز کے قریب لے جاتی ہے، انحراف و فساد میں مبتلا ھونے کا مقدمہ ہے۔ قرآن کریم کی اس آیت کو ھمیشہ ذھن میں رکھنا چاھئے؛ "تلک الدار الآخرۃ نجعلھا للّذین لا یریدون علوّا فی الارض و لا فسادا و العاقبۃ للمتّقین"۔
آج امید افزا اسلامی بیداری کی تحریکوں میں بعض اوقات ایسے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں جو ایک طرف غیر قابل اعتماد فکری مراجع تراشنے کی امریکا اور صھیونزم کے مھروں کی تگ و دو اور دوسری طرف خواھشات نفس کے اسیر قارونوں کی اپنی آلودہ اور زھر آلود بساط پر اھل دین و تقوا کو گھسیٹ لینے کو کوششوں کی عکاسی کرتے ہیں۔
علمائے دین، دینی امور کے ماھرین اور دیندار افراد کو چاھئے کہ بھت محتاط اور ھوشیار رھیں۔
دوسرا نکتہ: مسلم ممالک میں اسلامی بیداری کی تحریک کے لئے دراز مدتی اھداف کا تعین ہے، ایسی بلندی و رفعت والا ھدف جو قوموں کی بیداری کو سمت و جھت عطا کرے اور انھیں اس بلند چوٹی پر پھنچائے۔ اسی بلند ھدف کی شناخت کے بعد ھی روڈ میپ تیار کیا جا سکتا ہے اور اس میں واقع کم اور میانہ دوری کے اھداف کی نشاندھی کی جا سکتی ہے۔ یہ حتمی ھدف درخشاں اسلامی تمدن کی ایجاد سے کم کوئي اور چیز نھیں ھو سکتی۔ امت مسلمہ قوموں اور ملکوں پر محیط اپنے تمام وجود اور پھلوؤں کے ساتھ قرآن کے مطلوبہ تمدن تک پھنچے۔ اس تمدن کا اصلی اور عمومی معیار اور پھچان یہ ہے کہ انسان ان تمام مادی و روحانی صلاحیتوں اور توانائیوں سے بھرہ مند ھو جو اللہ تعالی نے انسانوں کی بلندی و سعادت کے لئے عالم فطرت میں اور خود ان کے وجود کی گھرائی میں ودیعت کر دی ہیں۔ عوامی حکومت، قرآن سے ماخوذ قوانین، انسان کی نئی نئي احتیاجات پر عالمانہ بحث اور ان کی تکمیل، قدامت پسندی، رجعت پرستی، بدعت اور دوسروں کی نقالی سے اجتناب، عمومی رفاہ و ثروت، قیام عدل، سود،سود خوری، کمیشن خوری اور امتیازی مراعات سے آزاد معیشت جیسی اس تمدن کی ظاھری خصوصیات کو انسانی اخلاقیات کی ترویج، دنیا کے مظلومین کی حمایت اور سعی و کوشش اور ابتکار عمل کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے بلکہ دکھائی دینا چاھئے۔ ھیومن سائنس سے لیکر تعلیم و تربیت کے رسمی نطام تک، اقتصاد و بنکاری سے لیکر ٹکنالوجی اور تکنیکی پیداوار تک، جدید ذرائع ابلاغ سے لیکر آرٹ اور سنیما تک اور عالمی روابط تک گوناگوں شعبوں پر عالمانہ اور تجزیاتی نظر، یہ سب اس تمدن سازی کے لوازمات ہیں۔
تجربے سے ثابت ھو چکا ہے کہ یہ سارے اھداف حد امکان کے اندر اور ھمارے معاشروں کی صلاحیتوں کی رسائی میں ہیں۔ اس نصب العین کو عجلت پسندی اور احساس کمتری میں مبتلا ھوکر نھیں دیکھنا چاھئے۔ اپنی صلاحیتوں کے سلسلے میں احساس کمتری کفران نعمت ہے۔ امداد خداوندی اور فطرت کے اصولوں سے ملنے والی مدد سے غفلت "الظانّین باللہ ظنّ السّوء" اللہ کے بارے میں بدگمانی رکھنے والے افراد کی کھائی میں گر جانے کے مترادف ہے۔ ھم استکباری طاقتوں کے سیاسی، اقتصادی اور علمی حصار کو توڑ سکتے ہیں اور مٹھی بھر استکباری طاقتوں سے مغلوب دنیا کی اقوام کی اکثریت کے حقوق کی بازیابی کے عمل میں امت مسلمہ کو پیش قدمی کرنے پر قادر بنا سکتے ہیں۔
اسلامی تمدن ایمان، علم، اخلاق اور پیھم جدوجھد کی اپنی خصوصیات کے ذریعے امت مسلمہ اور تمام انسانیت کو پیشرفتہ افکار اور اعلی اخلاقیات سے آراستہ کر سکتا ہے اور مادہ پرست ظالمانہ آئيڈیالوجی اور پست و آلودہ اخلاقیات سے جو مغرب کے موجودہ تمدن کے بنیادی ستون ہیں، نجات کا اھم موڑ بن سکتا ہے۔
تیسرا نکتہ : اسلامی بیداری کی تحریک میں اس بات پر ھمیشہ توجہ رھے کہ سیاست، اخلاقیات اور طرز زندگی میں مغرب کی تقلید کے کیسے تلخ اور وحشت ناک تجربات سے گزرنا پڑا ہے۔
ایک صدی سے زیادہ عرصے تک مغرب کی استکباری حکومتوں کی ثقافت و سیاست کی پیروی کے نتیجے میں مسلم ممالک تباہ کن آفتوں جیسے سیاسی انحصار اور ذلت، اقتصادی فقر و غربت، اخلاقی انحطاط، سائنس و ٹکنالوجی کے شعبے میں شرمناک پسماندگی میں مبتلا ھو گئے۔ حالانکہ امت اسلامیہ ان تمام شعبوں میں افتخار آمیز ماضی کی مالک رھی ہے۔
ان باتوں کو مغرب دشمنی پر محمول نھیں کرنا چاھئے۔ ھم جغرافیائی اختلاف کی بنیاد پر انسانوں کی کسی بھی جماعت سے دشمنی نھیں رکھتے۔ ھم نے علی علیہ السلام سے سبق لیا ہے جو انسانوں کے بارے میں فرماتے ہیں؛ "اماّ اخ لک فی الدین او نظیر لک فی الخلق"۔ ھمارا اعتراض ظلم و استکبار، جارحیت و تجاوز، فساد، اخلاقی انحطاط اور ان کارروائیوں پر ہے جو استعماری و استکباری طاقتوں نے ھماری اقوام کے خلاف انجام دی ہیں۔ آج بھی ھم ان ممالک میں جھاں نسیم بیداری عوامی قیام و انقلاب کے طوفان کی شکل اختیار کر گئی ہے امریکا اور علاقے میں اس کے حاشیہ برداروں کی مداخلتوں، تحکمانہ اقدامات اور زور زبردستی کا مشاھدہ کر رھے ہیں۔ ان کے وعدوں اور دھمکیوں کا سیاسی شخصیات کے فیصلوں اور اقدامات اور عظیم عوامی تحریک پر اثر نھیں پڑنا چاھئے۔ اس مرحلے پر بھی ھمیں گزشتہ تجربات سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔ جن لوگوں نے برسوں امریکی وعدوں سے آس لگائی اور ظالم پر اعتماد کو اپنی سیاست اور روش کی بنیاد قرار دیا وہ اپنی قوم کی کوئی بھی مشکل حل نھیں کر پائے اور خود کو یا دوسروں کو ظلم سے نجات بھی نھیں دلا سکے۔ امریکا کے سامنے ھتھیار ڈال دینے کے بعد وہ ایک بھی فلسطینی مکان کو مسمار ھونے سے نھیں روک سکے جو فلسطینیوں کی سرزمین پر تعمیر کیا گيا تھا۔ جو سیاستداں اور کوئی بڑی شخصیت استکباری محاذ کی دھمکیوں سے مرعوب ھو جائے یا ان کے لالچ میں پڑ جائے اور اسلامی بیداری کے اس عظیم موقعے کو گنوا دے اسے اللہ کے اس انتباہ سے ڈرنا چاھئے کہ: "الم تر الی الذین بدّلو نعمت اللہ کفرا و احلّوا قومھم دار البوار جھنّم یصلونھا و بئس القرار"
چوتھا نکتہ : آج اسلامی بیداری کو سب سے بڑا خطرہ اختلافات کی آگ اور ان تحریکوں کو خونیں فرقہ وارانہ، مسلکی، نسلی اور قومی تصادم میں تبدیل کر دینے کی سازش سے ہے۔ اس وقت تیل کے عوض ملنے والے ڈالروں اور بکے ھوئے سیاستدانوں کی مدد سے اور مغربی و صھیونی خفیہ ایجنسیوں کے ھاتھوں مشرقی ایشیا سے لیکر شمالی افریقا اور خاص طور پر عرب علاقے میں پوری سنجیدگی اور باریک بینی سے اس سازش کا جال بچھایا جا رھا ہے۔ وہ دولت جو خلق خدا کی فلاح و بھبود کے لئے استعمال ھو سکتی تھی دھمکیوں، کفر کے فتوؤں، ٹارگٹ کلنگ، بم دھماکوں، مسلمانوں کا خون بھانے اور دراز مدتی کینے کی آگ بھڑکانے پر خرچ ھو رھی ہے۔ جو لوگ متحدہ مسلم امہ کی قوت کو اپنے خبیثانہ اھداف کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں، امت مسلمہ کے اندر فتنے کی آگ بھڑکانے کو اپنے شیطانی ھدف کی تکمیل کا آسان ترین راستہ پاتے ہیں۔ وہ فقہ، کلام، تاریخ اور حدیث سے متعلق اختلاف رائے کو جو فطری اور ناگزیر شئے ہے دوسروں کو کافر قرار دینے، خونریزی اور فتنہ و فساد کے سبب کے طور پر استعمال کر رھے ہیں۔
داخلی تصادم کے میدان کا بغور جائزہ لیا جائے تو ان المیوں کے پس پردہ دشمن کا ھاتھ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ دھوکے باز ھاتھ ھمارے معاشروں میں پائی جانے والی جھالت، تعصب اور سطحی سوچ کواستعمال کر رھا ہے اور آگ میں تیل ڈال رھا ہے۔ اس مسئلے میں دینی و سیاسی شخصیات اور مصلحین کی ذمہ داری بھت اھم ہے۔
اس وقت لیبیا کسی انداز میں، مصر اور تیونس کسی اور انداز میں، شام کسی اور طریقے سے، پاکستان کسی اور انداز میں، عراق و لبنان کسی الگ طریقے سے ان خطرناک شعلوں میں جل رھے ہیں۔ بھت زیادہ توجہ رکھنے اور راہ حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ سادہ لوحی ھوگی کہ ھم ان ساری چیزوں کو اعتقادی اور نسلی جذبات و عوامل سے منسوب کر دیں۔ مغربی میڈیا اور بکے ھوئے علاقائی ذرائع ابلاغ کی تشھیراتی مھم میں شام کی خانماں سوز جنگ کو شیعہ سنی تصادم کا رنگ دینے کی کوشش کی جا رھی ہے اور شام و لبنان میں اسلامی مزاحمت کے دشمنوں اور صھیونیوں کو محفوظ راھداری دینے کی کوشش کی جا رھی ہے۔ حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ شام کی لڑائی کے دو فریق شیعہ اور سنی نھیں بلکہ صھیونیت مخالف مزاحمت کے طرفدار اور اس مزاحمت کے مخالفین اس کے دو فریق ہیں۔ نہ تو شام کی حکومت کوئی شیعہ حکومت ہے اور نہ ھی اس کے اسلام دشمن مخالفین سنی ہیں۔ اس المناک سناریو کی بساط بچھانے والوں کا ھنر یہ ہے کہ اس مھلک آگ کو بھڑکانے میں سادہ لوح افراد کے مذھبی جذبات کو انھوں نے خوب کیش کرایا ہے۔ اس میدان اور اس میں مختلف سطح پر سرگرم افراد کا بغور جائزہ لینے سے ھر منصف مزاج انسان کے لئے صورت حال واضح ھو سکتی ہے۔
یھی پروپیگنڈا بحرین کے سلسلے میں بھی جھوٹ اور فریب کے ایک الگ انداز کے ساتھ جاری ہے۔ بحرین میں عوام کی مظلوم اکثریت جو برسوں سے حق رائے دھی اور قوموں کو حاصل دیگر بنیادی حقوق سے محروم ہے، اپنے برحق مطالبات کے ساتھ سامنے آئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ مظلوم اکثریت چونکہ شیعوں کی ہے اور وھاں دین مخالف جابر حکومت سنی ہھونے کا دکھاوا کرتی ہے تو کیا اسے شیعہ سنی تنازعہ قرار دے دینا چاھئے؟
یورپی اور امریکی استعماری طاقتیں اور علاقے میں ان کی کاسہ لیسی کرنے والی حکومتیں یھی تاثر دینے کی کوشش کر رھی ہیں لیکن کیا یہ حقیقت ہے؟
یہ باتیں علمائے دین اور انصاف پسند مصلحین کو غور و خوض کرنے اور اپنے فرائض کو پھچاننے کی دعوت دیتی ہیں اور مذھبی، نسلی اور جماعتی اختلافات کی تشھیر کے پس پردہ دشمن کے خاص اھداف کے ادراک کو سب کا فریضہ قرار دیتی ہیں۔
پانچواں نکتہ : اسلامی بیداری کی تحریکوں کی صحیح سمت کو پرکھنے کے لئے مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں ان کے موقف کو دیکھنا چاھئے، ساٹھ سال سے اب تک امت اسلامیہ کے قلب پر سرزمین فلسطین پر غاصبانہ قبضے سے بڑا کوئی زخم نھیں لگا ہے۔
فلسطین کا المیہ روز اول سے اب تک، قتل عام، ٹارگٹ کلنگ، انھدامی کارروائیوں، غاصبانہ اقدامات اور اسلامی مقدسات کے خلاف جارحیت کا مجموعہ رھا ہے۔ اس غاصب اور "حربی" دشمن کے خلاف استقامت و مزاحمت اسلامی مسلکوں کا نقطہ اتفاق اور تمام صادق و صحتمند قومی تحریکوں اور جماعتوں کا نقطہ اشتراک رھا ہے۔ اسلامی ممالک میں اگر کسی بھی جماعت یا گروہ نے اس دینی اور ملی فریضے کو امریکا کی تحکمانہ خواھش کی وجہ سے یا کسی اور غیر منطقی بھانے سے فراموش کر دینے کی کوشش کی تو اسے یہ توقع نھیں رکھنا چاھئے کہ اسے اسلام کا وفادار اور وطن دوستی کے اس کے دعوے کو سچ سمجھا جائیگا۔
یہ ایک کسوٹی ہے۔ جو بھی قدس شریف کی آزادی اور فلسطینی قوم و سرزمین کی نجات کے نعرے کو قبول نہ کرے یا اسے حاشئے پر ڈالنے کی کوشش کرے اور مزاحتمی محاذ سے روگرداں ھو جائے، وہ الزام اور شک کے دائرے میں آ جائے گا۔
امت اسلامیہ کو چاھئے کہ ھر جگہ اور ھر وقت اس نمایاں اور اساسی معیار اور کسوٹی کو مد نظر رکھے۔
دشمن کے مکر و فریب کو نگاھوں سے ھرگز دور نہ ھونے دیجئے۔ ھماری غفلت ھمارے دشمنوں کے لئے سنھرے مواقع فراھم کریگی۔
حضرت علی علیہ السلام سے ھمیں یہ سبق ملا ہے کہ:" من نام لم ینم عنہ۔۔ "اسلامی جمھوریہ میں بھی اس سلسلے میں ھمارے تجربات بڑے سبق آموز ہیں۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی فتح کے ساتھ ھی امریکا اور مغرب کی استکباری حکومتوں نے جو مدتوں سے ایران کی طاغوتی حکومتوں کو اپنی مٹھی میں کئے ھوئے تھیں اور ھمارے ملک کی سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی سرنوشت کا تعین اپنے ھاتھوں سے کرتی تھیں، معاشرے کی اندرونی تھوں میں موجود اسلامی عقیدے اور ایمان کی طاقت کو معمولی سمجھ بیٹھی تھیں اور اسلام و قرآن کی عوام کو متحد کرنے اور صحیح راستے کی ھدایت کی صلاحیت سے بے خبر تھیں، اچانک اپنی اس غفلت سے آگاہ ھوئيں، ان کے حکومتی ادارے، خفیہ ایجنسیاں اور فیصلہ ساز مراکز حرکت میں آئے کہ کسی صورت سے خود کو شکست فاش سے بچا سکیں۔
ان تیس پینتیس برسوں میں ان کی گوناگوں سازشیں ھم نے دیکھی ہیں۔ تاھم دو عوامل نے ھمیشہ ان کے مکر و فریب کو نقش بر آب کیا۔ ایک ہے اسلامی اصولوں پر استقامت اور دوسرے میدان میں عوام کی موجودگی۔
یہ دو عوامل ھر موڑ پر فتح و گشائش کی کنجی ثابت ھوئے۔ پھلا عامل اللہ کے وعدوں پر سچے ایمان اور دوسرا عامل پرخلوص مساعی کی برکتوں اور صحیح تفسیر و تشریح کے ذریعے حاصل ھوتا ہے۔ جو قوم اپنے رھنماؤں کی صداقت اور خلوص کا یقین کر لے وہ میدان عمل کو اپنی موجودگی سے رونق بخشتی ہے۔ جھاں بھی عوام الناس عزم راسخ کے ساتھ میدان میں ڈٹ جاتے ہیں وھاں کوئی طاقت انھیں شکست نھیں دے سکتی۔ یہ ان تمام قوموں کے لئے ایک آزمودہ نسخہ ہے جو میدان عمل میں اپنی موجودگی سے اسلامی بیداری کے تعلق سے فیصلہ کن کردار ادا کر رھی ہیں۔
اللہ تعالی سے آپ سب کے لئے اور تمام مسلم اقوام کے لئے نصرت و ھدایت اور کمک و رحمت کی دعا کرتا ھوں۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔