سنی اتحاد کونسل پاکستان کے چیئرمین صاحبزادہ فضل کریم نے کھا ہے کہ دھشت گرد اپنے حامیوں کو
پارلیمنٹ بھیجنا چاھتے ہیں ان کا کھنا تھاعوام سیاسی فرعونوں سے نجات کے لیے نظامِ مصطفٰی (ص) کا پرچم تھام لیں۔ نظامِ مصطفٰی (ص) آئے گا تو عوام کو روٹی، کپڑا، مکان اور امن ملے گا ۔ سنی اتحاد کونسل کے رھنما کا یہ کھنا کہ دھشت گرد اپنے حامیوں کو پارلیمنٹ بھجوانا چاھتے ہیں ایک ایسی حقیقت کا اظھار ہے جس کو بھت سے سیاستداں اپنی مجبوریوں اور مصلحتوں کی وجہ سے زبان پر لانے سے ھچکچا رھے تھے۔ پاکستان کی سیاسی بساط پر نظر دوڑائی جائے تو واضح طور پر محسوس ھورھا ہے کہ ایک مخصوص پارٹی کے اردگرد دھشت گردوں نے اپنا گھیرہ تنگ کیا ھوا ہے وہ جماعت اپنے متنازعہ ماضی یا بیرونی وابستگی کی وجہ سے انتھا پسندوں کو ساتھ ملانے پر مجبور نظر آرھی ہے ۔ دھشت گردوں کے نمائندوں کو پاکستانی پارلیمنٹ تک پھنچنے کے لئے ایک سیڑھی اور سھارے کی ضرورت ہے دوسری طرف بعض جماعتیں دھشت گردوں کے چند ووٹوں کے عوض یہ خطرناک کھیل کھیلنے کے لئے پرتول رھی ہیں ایسے میں پاکستان کے محب وطن حلقوں کا اس بات کا اندیشہ ہے کہ اگر مذھب اور اسلام کے نام پر دھشت گردی کا بازار گرم کرنے والے گروہ کسی بھی روپ میں پاکستان کے قانون ساز اداروں تک پھنچ گئے تو اسکے ملک اور خطے دونوں پر منفی اثرات مرتب ھوسکتے ہیں اور اسکا اظھار پاکستانی فوج نے اپنے نئے دفاعی ڈاکٹرئن میں بھی کیا ہے۔پاکستانی فوج کے دفاعی تصورات کو سرد جنگ کے بعد کے ماحول، خطے کی نئی سیاسی اور عسکری صف بندی اور معاشی ضرورتوں اور تقاضوں سے ھم آھنگ کرنے کی جو کوششیں کی تھیں، ایسا لگتا ہے کہ اب وہ برگ و بار لا رھی ہیں۔ پاک فوج نے آخرکار برضا و رغبت یہ تسلیم کرلیا ہے کہ اِس وقت ملک کو درپیش اصل خطرہ سرحدوں سے باھر نھیں بلکہ سرحدوں کے اندر ہے۔ یہ تسلیم کرتے ھوئے فوج کی سبز کتاب میں اس نئے دشمن اور اس نئے طرزِ جنگ کو کتاب میں نئے باب کی صورت میں شامل کیا گیا ہے۔ایسا لگتا ہے ڈاکٹرائن میں اس تبدیلی کا تعلق طالبان کی سرگرمیوں سے ہے۔ اب فوج نے طالبان کو اصل خطرہ تسلیم کرلیا ہے۔ اب اس سے انکار ممکن نھیں کہ طالبان کی صورت میں ریاست پاکستان کو ایک غیر روایتی اور نیم گوریلا جنگ کا سامنا ہے،اور اس جنگ کا زیادہ تر انحصار انسانی سرمائے پر ہے۔ اس جنگ میں انسانوں کو خودکش حملہ آوروں کی صورت میں استعمال کیا جاتا ہے۔
پاکستانی فوج نے دھشت گردی کو اس کی تمام شکلوں کے ساتھ تسلیم کرلیا ہے تو یہ ایک خوش آئند بات ہے۔ اسے پاکستان کے دفاعی تصور میں تبدیلی نھیں کھا جاسکتا بلکہ ایک نئے خطرے کا مکمل ادراک کھا جاسکتا ہے۔ خطے میں نئے تجارتی مقاصد، نئی دھڑے بندیوں اور اقتصادی رسّا کشی کا جو عمل جاری ہے وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا جائے گا۔ پاکستان مشرق اور مغرب کے درمیان ایک تجارتی پل ھونے کی وجہ سے درپردہ جنگ کا شکار رہ سکتا ہے۔اس لیے یہ خدشات اپنی جگہ موجود ہیں کہ وسائل کی چھینا جھپٹی کے کھیل میں خطے میں درپردہ جنگوں کا سلسلہ رکنے نھیں پائے گا۔ اس لیے پاک فوج کے دفاعی تصور میں نئے اضافے کو اصل سیاق وسباق کے ساتھ سمجھنے کی ضرورت ہےاور اسی تناظر میں پاکستان کے فیصلہ ساز اداورں کو موجودہ انتخابات کی صف بندیوں پر نظر رکھنے کی بھی ضرورت ہے ایسا نہ ھو کہ سعودی عرب،قطر اور ترکی امریکی ایما پر جو کھیل شام اور خطے کے دوسرے ممالک میں کھیل رھے ہیں ان انتخابات کے بھانے پاکستان میں بھی یہ سلسلہ شروع ھو جائےامریکہ عرب دنیا میں آنے والی اسلامی اور عوامی بیداری سے سخت خوفزدہ ہے اس نے دوسرے ممالک میں اس طرح کی تحریکوں کو روکنے اور کمزور کرنے کے لئے جھاں اور سازشیں ترتیب دی ہیں وھاں اسکی سب سے زيادہ توجہ مسلمانوں کے درمیان اندرونی اختلافات کو ھوا دینا ہے ۔ لڑاؤ اور حکومت کرو ایک قدیمی استعماری حربہ ہے اور اب اس حربے کو سنی شیعہ کے درمیان اختلافات پیدا کرکے استعمال کیا جا رھا ہے ۔ بھت سے مبصرین کا یہ کھنا ہے کہ پاکستان جو عالم اسلام کا اھم ملک ہے اس میں فرقہ وارانہ فسادات کے پیچھے بھی وھی سوچ کارفرما ہے جو دوسرے مسلمان ممالک کو اسلامی بیداری سے منحرف کرنے کےلئے استعمال کی گئي تھی البتہ پاکستان کے معروضی حالات کے پیش نظر اس میں کچھ معمولی تبدیلیاں لائی گئي ہیں اس حوالے سے پاکستان کے آئندہ انتخابات کو نھایت اھم قرار دیا جا رھا ہے ۔ پاکستان کے بعض اخبارات اور سیاسی شخصیات اس بات کا مسلسل ذکر کررھی ہیں کہ اگر عبوری حکومت اور الیکشن کمیشن نے صورتحال پر کڑی نظر نہ رکھی تو بیرونی قوتوں کو مداخلت کا موقع مل سکتا ہے اور وہ اپنے مذموم ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لئے تکفیری دھشت گردوں کو آگے لا سکتے ہیں شاید یھی وجہ ہے کہ پاکستان کے ایک اھم سنی اتحاد نے دھشت گردوں کے حامیوں کو پارلیمنٹ تک پھنچنے کے حوالے سے خبردار کیا ہے۔