www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

حکومت ھندرستان نے خواتین کی مزید حفاظت اور ان کے خلاف جرائم کی روک تھام کے بارے میں سخت قانون نافذ کرنے کے ایک بل کومنظور کیا ہے ۔

حکومت ھندوستان نے گذشتہ روز آبرو ريزی ، تیزابی حملے چھیڑ چھاڑ اور خواتین کا پیچھا کرنے کے خلاف سخت ترین سزا دینے کے لئے ایک کو منظوری دیدی ہے ۔ اس نئے قانون کے تحت آبرو ریزی کے مرتکب افراد کے لئے کم از کم بیس سال کی جیل اور حد اکثر عمر قید کی سزا ھوسکتی ہے ۔ اگر متاثرہ خاتون کا انتقال ھوجائے تو اس برے عمل کے مرتکب کو پھانسی دی جاسکتی ہے ۔ خواتین کے خلاف جرائم کو روکنے کے لئے سخت قوانین کے بل کو سولہ دسمبر کو دھلی میں ایک 23 سالہ طالب علم لڑکی کی اجتماعی طور پر کی گئی عصمت دری کے واقعہ کے بعد منظوری دی گئی ہے ۔ ھندوستان کے مدھیہ پردیش صوبے میں سوئٹزر لینڈ کی ایک سیاح کی حالیہ رپورٹ میں عصمت دری کے بارے میں اشارہ کیا گیا ہے کہ سات یا آٹھ بدمعاشوں نے ان کی آبرو ریزی کی اور اس کے بعد اس سوئٹزر لینڈ کی عورت اور اس کے شوھر کے مال واسباب کو لوٹ کر لےگئے ۔ ھندوستان کی پولیس کے مطابق عصمت دری کرنے والے پانچ افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے ۔ایک ارب تین سو ملین کے قریب آبادی پر مشتمل ملک ھندوستان میں یہ موضوع ھندوستانی حکام کے لئے ایک مصیبت میں تبدیل ھوگیا ہے ۔حکومت ھندوستان اس بات سے نگراں ہے کہ سوئٹزیرلینڈ کی ایک سیاح خاتون کی عصمت ریزی کا کھیں ھندوستان کی صنعت سیاحت پر منفی اثر نہ پڑے اور سیاح ھندوستان آنے سے گریز کریں ۔ ھندوستان کی پولیس نے جمعرات کے دن اعلان کیا کہ نئی دھلی کے نزدیک دو الگ الگ واقعات میں دو ھندوستانی خواتین کو اغواکرکے ان کی عصمت ريزی کی گئ۔ نیز چودہ فروری کو چھ ، نو اور گيارہ سال کی تین لڑکیوں پر تجاوز کیا گیا اور ان کی لاشیں گاؤں کے ایک کنوئیں میں ملیں ۔دھلی سمیت ھندوستان کے مختلف شھروں میں عصمت ریزی کے واقعات کے خلاف وسیع پیمانے پر احتجاج ھوئے اور حکام سے خواتین کے حقوق کے دفاع کا مطالبہ کیاگیا ۔ مظاھرین کا کھنا ہے کہ ھندوستان میں عورتیں دوسرے درجہ کی شھری شمار ھوتی ہیں لھذا ھندوستان کی ثقافتی میدان میں بنیادی اور قانونی طورپر تبدیلی آنی چاھئیے ۔پارلیمنٹ میں گھریلو امور میں ھندوستان کے وزیر داخلہ کے مشیر رام چندرن نے حالیہ دنوں میں کھا ہے کہ رواں سال میں ھندوستان میں عصمت دری کے واقعات دوگنا ھوچکے ہیں ۔
 ھندوستان کے وزیر قانون اشوانی کمار نے حالیہ دنوں میں ھندوستان میں خواتین کی عصمت دری کے بارے میں پارلمانی نمایندوں کے سوال کے جواب میں کھا کہ سپریم کورٹ سمیت ھندوستان کی مختلف عدالتوں میں عورتوں کے ساتھ جنسی تشدد اور عصمت دری سے متعلق چوبیس ھزار سے زیادہ کیسزکے بارے میں تحقیقات ھورھی ہیں ۔
کمار کا کھنا ہے کہ خواتین پر جنسی تشدد اور عصمت دری سے متعلق سب سےزیادہ کیسز اور مقدمے الہ آباد کے ھائی کورٹ میں ہیں ۔
وزارت قانون کی رپورٹوں کے مطابق مدھیہ پردیش ،پنجاب ، چھتیس گڑھ ،اڑیسہ اور راجھستان بالترتیب خواتین پر جنسی تشدد اور عصمت دری کے بارے میں سب سے زیادہ ملوث ہیں یہ ایسی حالت میں ہے کہ ھندوسان میں خواتین پر جنسی تشدد اور عصمت دری کے بھت سے واقعات درج ھی نھیں ھوتے ہیں ۔ گذشتہ برس سولہ دسمبر کو دھلی میں ایک تئیس سالہ طالب علم لڑکی کی اجتماعی صورت میں عصمت دری کے بعد سماجی میدانوں میں سرگرم افراد کی توجہ اس مسئلے کی طرف مرکوز ھوئی ۔ ھندوستانی عدالتوں میں خواتین کی بے حرمتی اور عصمت دری کے جرائم سے متعلق مقدمات کے طولانی ھونے کی وجہ سے جنسی تشدد اور عصمت دری کرنے والوں کو امن وسکون سے زندگی گذارنے کا موقع مل گیا۔حکومت ھندوستان کو امید ہے کہ خواتین کے تحفظ کے بارے میں سخت قوانین کی منظوری کے بعد اس ملک کو خواتین پر جنسی تشدد اور عصمت دری کرنے والوں کے مقدمات کا جائزہ لینے اورمرتکبین کو جلد سزادینے میں عدالتوں کے تعاون کی ضرورت میں کافی مدد ملے گی ۔
     

Add comment


Security code
Refresh