www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

2013 کی تاریخ کا سورج لوح پر بھت سی تبدیلیاں رقم کرنے کے بعد وقت کے گھرے سمندر میں ڈوب گيا۔

بے شک زمانہ ڈوبے ھوئے تاروں کا ماتم کرنے کے بجائے مشرق سے ابھرتے آفتاب تازہ پہ نظر رکھتا ہے لیکن مستقبل کے سارے موسم ماضی و حال ھی کی آب و ھوا سے پھوٹتے ہیں۔
 سو صاف دکھائی دے رھا ہے کہ 2014ء کے معمولات و معاملات پر 2013 کے حالات و واقعات کا گھرا سایہ رھے گا۔ دیکھنا ھوگاکہ عالمی سیاسی قیادت، شعور کی کس پختگی کا اظھار کرتی ہے، میڈیا کس فکری بلوغت کا مظاھرہ کرتا ہے، ھماری سوسائٹی کتنی متحرک رھتی ہے، چلیےیہ سب بحثیں تو ھوتی رھیں گی ھم چلتے چلتے جانے والے سال پر ایک سرسری نظر ڈال لیتے ہیں۔
 اس سال عالمی سطح پر جھاں کئی اھم واقعات رونما ھوئے۔ وھیں کئی افسوسناک واقعات بھی رونما ھوئے۔ چند خاص واقعات جن میں ایران اور گروپ 1+5 کے مابین طے پانے والا معاھدہ بھی شامل ہے جس کیوجہ سے عالمی سطح پر دنیا بھر کے ملکوں نے ایران کے اصولی موقف کی نہ فقط بھر پور طریقے سے حمایت کی بلکہ ایران کو حق بجانب قرار دیا۔ اس معاھدے میں جھاں ایران سرخرو ھوا تو وھیں اسرائیل اور سعودی عرب جو ایران کو عالمی سطح پر گوشہ نشین کرنے کی کوشش میں تھے، بذات خود گوشہ نشینی کا شکار ھوئے۔
2013کےعالمی مسائل میں سے ایک شام کا بحران بھی ہے جسے بعض عرب اور مغربی ممالک کی جانب سے عالمی سطح پر اچھالنے، اس میں شدت لانے اور صدر بشار اسد کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کی بھر پور کوشش کی گئی۔ لیکن ایران کی صحیح ڈپلومیسی اور روس اور چین کی مثبت حکمت عملی کیوجہ سے شام کے دشمنوں کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ جبکہ اس کے نتیجے میں شام کے بحران کو جنیوا ٹو کانفرنس کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جا رھی ہے۔البتہ ایران کا شروع دن سے یھی کھنا تھا کہ شام کا بحران مذاکرات کے ذریعے حل ھو گا نہ کہ فوجی طریقے سے۔
2013کا سال بحرین کے مظلوم عوام پر بھی قیامت سے کم نہ تھا آل خلیفہ کے آلہ کاروں نےبحرینی عوام کے خلاف ظلم کی انتھا کر دی اور مظلوم بحرینی عوام کو دیوار سے لگانے کی بھر پور کوشش کی گئی لیکن بحرین کے عوام نے ظلم کے خلاف سیسہ پلائی ھوئی دیوار کا کام کیا اور یہ عھد کیا کہ اپنے حقوق کیلئے بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی دریغ نھیں کریں گے۔
2013میں اگر مصر میں دیکھا جائے تو امریکہ اور سعودی عرب کی حمایت سے ایک منتخب جمھوری حکومت کا تختہ فوج نے الٹ دیا اور عوامی حکومت کے صدر محمد مرسی کو گرفتار کر کے ان کے حامیوں کے احتجاج کو بری طرح سے سرکوب کر دیا گیا،جن میں سینکڑوں افراد ھلاک ، زخمی اور گرفتار ھوئے۔
ادھر2013میں سعودی عرب میں جو بحرین، شام اورعراق سمیت علاقے کے دوسرے کئی ممالک میں واضح مداخلت کر رھا ہے عوام اپنے حقوق کیلئے اٹھ کھڑے ھوئے ہیں اور ھونے والے احتجاجی مظاھروں کے دوران عوام نے آل سعود کے ظلم و ستم کے خلاف تحریک کو جاری رکھنے کا مطالبہ کرتے ھوئے عالمی سطح پر انسانی حقوق کی تنظیموں سے سعودی عرب میں ھونے والی انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیوں کا نوٹس لینے اور سیاسی قیدیوں کی رھائی کیلئے آواز بلند کرنے کا مطالبہ کیا۔
2013 میں پاکستان کے شیعہ مسلمانوں کے خلاف پر تشدد واقعات رونما ھوئے جن میں ھزاروں شیعہ مسلمان شھید اور زخمی ھوئے،جن میں کوئٹہ کے علمدار روڈ اور بروری اور اسی طرح کراچی، گلگت اور راولپنڈی کے واقعات سرفھرست ہیں جن میں تکفیری دھشتگردوں نے اپنے غیرملکی آقاوں کو خوش کرنے کیلئے خون کی ھولی کھیلی اور کئی گھروں کو اجاڑ دیا۔ اس سے بھی بڑھکرظلم یہ ھوا کہ ریٹائر ھونے والے سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے شیعہ مسلمانوں کی نسل کشی کے واقعات میں بالکل دلچسپی نھیں لی اور اس قسم کے واقعات پر نہ فقط از خود نوٹس نھیں لیا بلکہ اپنی آنکھیں بند کر لیں۔
دنیا بھر میں 2013میں مسلمانوں کے مابین فرقہ واریت کی آگ کو بھڑکانے کی بھر پور کوشش کی گئی اور اسی سلسلے میں گذشتہ دنوں معروف امریکی روزنامے "دی انڈیپنڈینٹ" کی 29 دسمبر کی اشاعت میں عرب دنیا میں پھیلنے والی فرقہ وارنہ شدت پسندی کے حوالے سے ایک کالم شائع ھوا۔ شائع ھونے والے اس مقالے میں مولف کا کھنا تھا کہ عرب بادشاھتوں کی ایماء پر اھلسنت علماء کا شیعوں سے نفرت کا پراپیگنڈہ مسلم دنیا میں خانہ جنگی کی بنیادیں فراھم کر رھا ہے۔ مولف نے اس حوالے سے پوری عرب دنیا میں رواج پانے والی شیعہ دشمنی سے متعلق اسکیم کی چند ایک مثالیں بھی پیش کیں۔
انگریزی اخبار کے مولف پیٹرک کک برن کے مطابق اس فرقہ وارانہ شدت پسندی کے پھیلاؤ میں ٹی وی، سیٹلائٹ، سوشل میڈیا منجملہ فیس بک، یو ٹیوب اور ٹویٹر اھم کردار ادا کر رھے ہیں۔ پیٹرک نے اپنی حکومت بالخصوص نیشنل سکیورٹی ایجنسی کو ھدف تنقید بناتے ھوئے کھا کہ آپ لوگ اپنے لوگوں کی جاسوسی تو کر رھے ہیں لیکن مشرق وسطٰی میں القاعدہ کے بڑھتے ھوئے اثر و رسوخ کی جانب آپ کی کوئی توجہ نھیں۔
پیٹرک کا کھنا ہے کہ تیل کی دولت سے مالا مال عرب ریاستوں میں قائم سٹلائیٹ ٹی وی چینل اس نفرت کی آگ کو بھڑکانے میں بنیادی کردار کے حامل ہیں۔ اس کے بقول ان ٹی وی چینلز کی یہ فرقہ وارانہ نفرت ان علاقوں تک بھی پھنچ رھی ہے جھاں شیعہ انتھائی اقلیت میں ہیں۔
آپ میں سے شاید بعض لوگ کھیں کہ میں ایک انگریز مولف کی باتوں پر یقین کرکے انھیں کیوں بیان کر رھا ھوں، تو وضاحت کے لیے عرض کرتا چلوں کہ پیٹرک نے جو واقعات بیان کیے ہیں نیز بھت سی ایسی باتیں جو شاید پیٹرک بیان نھیں کرسکا، میں نے خود سوشل میڈیا پر مشاھدہ کی ہیں۔ میں پیٹرک کی اس بات کی تائید کرتا ھوں کہ وہ سوشل میڈیا جو تیونس، مصر، لیبیا، بحرین اور دیگر عرب ممالک میں تبدیلی کا پیش خیمہ بنا آج فرقہ وارانہ نفرت کو عام کرنے کے لیے استعمال ھو رھا ہے۔
علاوہ ازیں یہ بتانا بھی مقصود ہے کہ آپ کا دشمن آپ کے حالات سے کس قدر باخبر ہے۔ مجھے نھیں معلوم پیٹرک نے یہ کالم اپنے لوگوں کو آگاہ کرنے کے لیے لکھا یا آپ لوگوں میں سے ان کے لیے جو ابھی تک اس سب سے بے خبر ہیں۔
بھرحال کالم میں بیان کیے گئے واقعات ایک حقیقت ہیں۔ یہ واقعات ھمیں بتا رھے ہیں کہ دنیا میں مسلم معاشرہ کس جانب گامزن ہے۔ کالم میں بیان کیے گئے واقعات اور ان کا بیان کرنے والا شخص اس بات کی بھی نشاندھی کر رھا ہے کہ دشمن نے آپ کی کمزوری کو بھانپ لیا ہے اور اب وہ یقیناً اس راہ سے بڑا حملہ کرے گا۔ اسے اب ضرورت نھیں رھی کہ آپ کے دیسوں پر براہ راست حملے کرے بلکہ اسے اب تماشا دیکھنا ہے۔ وہ یہ تماشا عراق، شام، لبنان، پاکستان اور افغانستان میں کسی حد تک پھلے ھی دیکھ رھا ہے۔ اسی تماشے پر پیسہ لگانے اور مزید لڑانے میں اس کے تمام مفادات پوشیدہ ہیں۔
لھذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ھم سوشل میڈیا کی صورت میں مفت ملنے والی اس سھولت کو نھایت محتاط انداز سے استعمال کریں۔ ھمارا مسلک چاھے کوئی بھی ھو ھمیں کوشش کرنی چاھیے کہ ھ ھر واقعہ، ھر بات کو من و عن تسلیم نہ کریں بلکہ اس کے بارے میں ضروری تحقیق کے بعد اگر اس بات کو اھم سمجھیں تو مزید لوگوں تک پھنچائیں۔ اسی طرح ھر غلط بات جو ھمارے علم میں آجائے کی جھاں تک ممکن ھو اصلاح کریں، تاکہ وہ نفرتیں جو اس میڈیا کے ذریعے عام کی جا رھی ہیں، کا سد باب ھو۔
 

Add comment


Security code
Refresh