www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

ترکی میں بعض وزراء کے بیٹوں پر مالی بدعنوانی کے لگنے والے الزامات کے بعد پیدا ھونے والے سیاسی بحران نے اب نیا رخ

اختیار کرلیا ہے۔
 ذرائع کے مطابق ترک وزیر اعظم رجب طیب اردوغان نے اپنی کابینہ کے 10 وزرا تبدیل کر دیئے ہیں جن میں نائب وزیر اعظم بھی شامل ہیں۔
 اس سے پھلے ترکی کے 3 وزیر اپنے بیٹوں پر کرپشن کے الزامات سامنے آنے کے بعد مستعفی ھوگئے تھے۔ ترکی کے وزیراعظم رجب طیب اردوغان اور مستعفی ھونے والے دو وزرا نے مالی بدعنوانی اور کرپشن کے الزامات کو حکومت اور عوام کے خلاف سازش قرار دیا ہے۔
ترک کابینہ کے بعض اراکین کے بیٹوں کے بارے میں مالی بدعنوانی سے متعلق الزامات سامنے آنے کے بعد استنبول میں وسیع پیمانے پر حکومت مخالف مظاھرہ بھی کیا گیا جھاں مظاھرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں بھی ھوئیں۔
مبصرین کا خیال ہے کہ ترکی میں مالی بدعنوانی اور کرپشن کے الزامات کے نتیجے میں پیدا ھونے والا سیاسی بحران اب شدّت اختیار کرتا جارھا ہے جس سے نہ صرف ترکی کی حکومت کو اپنے ملک کی رائے عامّہ میں رسوائی کا سامنا ہے بلکہ مالی بدعنوامنی کے ان الزامات سے وزیر اعظم رجب طّیب اردوغان کی جماعت کی ساکھ کو بھی بڑا دھچکا لگا ہے۔
ترکی کے سیاسی بحران نے اس اعتبار سے نیا رخ اختیار کرلیا ہے کہ کرپشن کے لگنے والے الزامات کے بعد اس ملک میں وسیع پیمانے پر احتجاجی مظاھرے شروع ھوگئے ہیں۔
سجاد میر ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردگان نے حال ھی میں پاکستان کا دورہ کیا۔ ان کا دورہ پاکستان ایسے میں انجام پایا جب ترکی میں حکومت مخالف مظاھرے اپنے عروج پر ہیں اور مالی بدعنوانی کے الزام کی وجہ سے ترکی کے وزیراعظم اپنی کابینہ میں بڑے پیمانے پرردوبدل کرنے پر مجبور ھوئے اور نائب وزیراعظم کو بھی ان کے عھدے سے ھٹا دیا گیا۔ لیکن اس کے باوجود مظاھرے جاری ہیں اور مظاھرین کا کھنا ہے کہ وزیراعظم اپنے عھدے سے مستعفی ھو جائیں۔ جبکہ اس ملک کے وزیر اعظم نے عوام سے خطاب میں پر امن رھنے کی اپیل کرتے ھوئے کھا کہ مالی بدعنوانی میں ملوث افراد کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔
ترکی میں بڑے پیمانے پر کابینہ میں ردوبدل اور ترک وزیراعظم کی جانب سےعوام سے خطاب کے بعد۔ایسی امید کی جارھی تھی کہ ترکی میں بدامنی اور مظاھروں کی شدت میں کمی آجائے گی لیکن حالات سے پتہ چلتا ہے کہ فی الحال مظاھروں کی شدت میں کمی آنے کا امکان نھیں ہے اور دوسری طرف مظاھرین کے مقابل حکومت کے موقف میں بھی کسی لچک کے آثار نظر نھیں آتے ۔
رجب طیب اردوغان اور مخالفین کے درمیان جاری تنازعہ نے ترک حکومت کو ایک عجیب مشکل میں ڈال دیا ہے۔ ترک وزیراعظم رجب طیب اردوغان کو سخت سیاسی بحران اور احتجاج کا سامنا ہے اور اس بحران کو رجب طیب اردوغان حکومت کی تاریخ کا شدید ترین سیاسی بحران اور احتجاج کھا جاسکتاہے۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ ترکی کے مختلف شھروں میں حکومت مخالف مظاھروں کاسلسلہ بدستور جاری ہے اور کل رات بھی ترکی کے دارالحکومت انقرہ اور استنبول میں بھی وسیع پیمانے پر مظاھرےھوے مظاھرین نے ترک وزیر اعظم رجب طیب ادروغان سے ایک پھر استعفی کا مطالبہ کیا ۔
ترکی میں ھونے والے سروے سے پتہ چلتاہے کہ مشرق وسطی کے علاقے میں ترکی کی محبوبیت میں کافی کمی واقع ھوئی ہے ۔
ترکی کے اقتصادی وسماجی تحقیقاتی سینٹر نے لکھا ہے کہ مشرق وسطی کے بعض ممالک خاص طور پر مصر میں لوگوں کی بیداری اور شام میں جاری داخلی جنگ نے ترکی کے بارے میں علاقے کے لوگوں کی ذھنیت اور فکر پر بھت زیادہ منفی اثرڈالا ہے کیونکہ ترکی کے حکام نے مصر میں محمد مرسی کی برطرفی اورا‍ خوان المسلمین کی گرتی ھوئی طاقت کو بچانے کے سلسلے میں سخت رد عمل کا مظاھرہ کیا تھا ۔
شام میں بھی حکومت شام کے خلاف اس کی پالیسیاں اور سلفی اور تکفیری گروھوں کی حمایت کی وجہ سے مشرق وسطی کے علاقے کے لوگوں میں ترکی کے خلاف بھت زیادہ منفی فکر پائی جاتی ہے اور کوئی بھی ترکی کو اچھی نظر سے نھیں دیکھتا ۔
یہ ایسے میں ہے کہ احمد داود اوغلو کے ڈکٹرائن میں ترکی کی پالیسی علاقے کے ممالک خصوصا پڑوسی ممالک کے ساتھ پرامن تعلقات پر مبنی رھی ہے اور وہ اس بارے میں اھم کردار ادا کرنے کی کوشش کرتا رھا ہے ۔
ترکی کے اقتصادی وسماجی تحقیقاتی سینٹر نے اعلان کیا ہے کہ حکومت ترکی کی اس پالیسی کے تحت دوھزار گیارہ میں علاقے کے سولہ ملکوں میں کئے گئے سروے کے مطابق 78 فیصد لوگ ترکی کے بارے میں مثبت اور اچھی فکر رکھتے تھے ۔ اس تحقیقاتی سنٹر کے سروے کے مطابق 2013 میں یہ فیصد گھٹ کر 59 فیصد تک پھنچ گئی ہے ۔
ترکی کی جمھوری خلق نامی پارٹی کے سربراہ کمال قلیچدار اوغلو نے کھا ہے کہ اردوغان کی غلط خارجہ پالیسی کی وجہ سے ترکی بحران سے دوچار ھوچکا ہے اور اب اس کاکوئی ایسا پڑوسی باقی نھیں ہے جسے سلام کیا جاسکے یا انھیں تعاون کے لئے دعوت دی جاسکے ۔
مشرق وسطی حتی ملکی سطح پر حکومت انقرہ کی ناکامی کا انعکاس اس حد تک رھا ہے کہ عالمی سطح پر اس کے بارے میں بحث وگفتگو اور اس کا جا ئزہ لیا جارھا ہے، امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کے ممتاز محقق اور سیاستداں اسٹیفن لارابی جیسے عالمی تجزیہ کار نے ترکی مکمل طوفان کے زیر عنوان ایک مقالے میں لکھاہے ہے کہ ترکی میں داخلی سطح پر عوام کی ناراضگی کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر حکومت کے خلاف مظاھرے ھوئے اور سیاسی میدان میں بھی جو خلفشار اور بے چینی رھی اس کی اصل وجہ اردوغان کی متضاد خارجہ پالیسیاں رھی ہیں ۔
ترکی مشرق وسطی میں حالیہ تجربے کے نتیجے میں اس مسئلے کو سمجھ گیا ہے کہ امریکہ اور صھیونی حکومت کے ساتھ ایک اتحادی کی حیثیت سے تعلقات نھیں رکھے جا سکتے۔
اگرچہ ترکی کی حکومت کی اعلان کردہ پالیسی امریکہ کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات کو برقرار رکھنے پر استوار ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ ترک حکمرانوں نے جو عملی پالیسی اختیار کی ہے وہ خارجہ پالیسی کے میدان میں موجودہ بحران سے نکلنے کے لیے درمیانی راستے کے عنوان سے ھمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنا ہے ۔
ترکی کے عوام بھی یہ چاھتے ہیں کہ حکومت انقرہ علاقائی مسائل کے بارے میں اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرے اس لئے کہ اگر شام، عراق اور اسی طرح علاقے کے دیگر ممالک میں ترکی کی مداخلت پسندانہ پالیسیوں کا سلسلہ جاری رھا توترکی کی نہ فقط عالمی سطح پر ساکھ متاثر ھو گی بلکہ علاقائی سطح پر وہ گوشہ نشینی کا شکارھو جائیگا۔
 

Add comment


Security code
Refresh