www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

648g6
اسرائیل کے اخبار ھارتض میں یکلاس سایدل کا ایک مقالہ شائع ہوا ہے جس میں انھوں نے ایران و اسرائیل کے درمیان تصادم اور دیگر علاقائی طاقتوں اور شخصیتوں کے کردار کا جائزہ لیا ہے جس کے کچھ حصے یہاں پیش کئے جا رہے ہیں البتہ یہ واضح رہے کہ یہ مقالہ معلومات کے لئے یہاں نقل کیا جا رہا ہے اور وب سائٹ پر شائع کئے جانے کا مطلب ، مقالے میں کہی جانے والی باتوں سے متفق ہونا قطعی نہيں ہے ۔یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ علاقے کے لئے سب سے بڑا خطرہ اسرائیل اور اس کی ہمیشہ جاری رہنے والی سازشیں ہیں ۔
ترکی کو امریکہ جیسے اتحادیوں اور دوستوں کی ضرورت ہے ۔ دوسری طرف اسرائیل کو بھی علاقے میں ایران کے خلاف ایک مشترکہ محاذ تیار کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ ان حالات میں "کمزور" اور " ضرورت مند" اردوغان سے اسرائيل کی قربت سے تل ابیب کو ایک اہم اور اسٹریٹجک کامیابی مل سکتی ہے ۔
جس طرح مشرق وسطی کو طاقت کے تین بلاکوں ، یعنی ترکی ، ایران اور اسرائيل و اس کے عرب اتحادوں میں تقسیم کیا جاتا ہے اس کے مد نظر یہ اسرائيل کے لئے ایران کے مقابلے میں اپنی صف کو مضبوط بنانے کا بہترین موقع ہے لیکن اس کام کو صحیح طریقے سے انجام دینے کے لئے اسے ترکی کی ضرورت ہے ۔ اب بہت سی وجوہات کی بناء پر ، اسرائيل و ترکی کے درمیان صلح صفائی کا وقت آ گیا ہے ۔
پہلی بات تو یہ ہےکہ حالانکہ ترکی اور ایران ایک دوسرے کے دشمن نہيں ہیں لیکن قفقاز ، عراق اور شام میں دونوں ملکوں کی پالیسی میں مطابقت نہ ہونے کی وجہ سے ، تہران و انقرہ کے تعلقات میں کافی حد تک سردمہری پیدا ہو گئی ہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان اسرائيل کے لئے ایسے سگنل بھیج رہے ہیں جن کا مطلب یہ ہے کہ وہ یہودی حکومت کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے خواہاں ہیں ۔ جو بائيڈن کے دور میں اردوغان کے سلسلے میں امریکہ کے سرد رویہ کی وجہ سے ، اسرائیل کو دباؤ کا حربہ استعمال کرنا چاہئے ۔
سرانجام اسرائیل یہاں پر قومی سلامتی کے شعبے میں اپنے ذیلی مقاصد کی تکمیل کر سکتا ہے ۔ یعنی ترکی سے قریب ہوکر ، اس ملک کی جانب سے حماس کی حمایت کم کر سکتا ہے ۔ اسرائیل ترکی سے قریب ہونے کے ساتھ ہی ساتھ ایسا کام بھی کر سکتا ہے جس کی وجہ سے ترکی مشرقی بحر اوسط میں کشیدگی کم کر دے اور ان پالیسیوں کو بھی چھوڑ دے جن کی وجہ سے اسرائیل نیٹو میں شامل نہيں ہو پا رہا ہے ۔
حالانکہ اردوغان نے اسرائيل کے ساتھ تعلقات کی بحالی میں دلچسپی ظاہر کی ہے اور دو سال کے بعد پھر سے اسرائیل کے لئے اپنے سفیر کا تعین کیا ہے لیکن دوسری طرف اسرائیل نے ، اس بات کے پیش نظر کہ فوج اور خفیہ ایجنسیوں نے جو ، اب ، ترکی کو بڑھتے خطرے کی شکل میں دیکھتی ہیں ، اردوغان کی پیش قدمی کا خیر مقدم نہيں کیا ہے ۔
اسرائيل ، اردوغان کی طرف سے حماس کی مدد جاری رہنے کو اپنی ریڈ لائن سمجھتا ہے ۔ حماس کی میزبانی، موقع پرستی اور اسرائیل کے خلاف اردوغان کے اقدامات اور ایران کے ساتھ ترکی کے لچک دار تعلقات کے پیش نظر ، اسرائيل کی تشویش کو سمجھا جا سکتا ہے۔
موجودہ دور میں اسرائیل کی اصل اولیت ، ایران کے ایٹمی اور میزائيلی پروگراموں اور لبنان میں اس کے اصل اتحادی یعنی حزب اللہ کو محدود کرنا ہے۔
اسرائيل کو جتنی جلدی ممکن ہو ، ترکی کے ساتھ تعلقات بحال کرنا چاہیے کیونکہ مشرق وسطی کے بدلتے سیاسی حالات کے پیش نظر ، یہ موقع بہت جلد ہاتھ سے نکل جائے گا۔
ہمارے لئے یہ تصور کرنا ممکن نہيں ہے کہ ترکی ، اسرائيل اور خلیج فارس کے عربوں کے محاذ سے اپنے مفادات کو جوڑ دے یا پھر اپنے وسائل اور اپنی طاقت کو اس اتحاد کے لئے ایران کے خلاف استعمال کرنے پر تیار ہو جائے ۔
ایران نہ صرف یہ کہ ترکی کے لئے براہ راست خطرہ نہيں ہے بلکہ اس کے بر عکس ، یہ دونوں پڑوسی ملک، تجارت اور سیکوریٹی کے شعبے میں ایک دوسرے سے پرانے تعلقات رکھتے ہيں ۔ مشترکہ سیکوریٹی تشویش اور علیحدگي پسندوں کے خطرے نے ان دونوں ملکوں کو طاقتور اتحادی بنا رکھا ہے لیکن ان سب کے باوجود حالیہ کچھ واقعات اور ترکی و ایران کے درمیان فاصلے کی وجہ سے یہ محسوس ہو رہا ہے کہ اسرائيل حالات سے فائدہ اٹھا سکتا ہے ۔
قففاز میں ترکی کا بڑھتا اثر و رسوخ ، ایران کے لئے تشویشناک ہے ۔ جمھوریہ آذربائیجان ایک شیعہ لیکن نسبتا سیکولر ملک ہے جو اسرائیل اور ترکی سے تعلقات رکھتا ہے اور ایران کے ساتھ بھی متزلزل تعلقات کا حامل ہے ۔
آذربائیجان نے اسرائيل اور ترکی کے درمیان مذاکرات ميں ثالثی کی پیش کش کی ہے تاکہ دونوں حکومتوں کو تعلقات کی بحالی کی سمت بڑھایا جا سکے ۔
اسرائيل کے ساتھ تعلقات کی بحالی سے ترکی میں بڑی تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہيں اور یہ ملک اسرائيل- عرب محاذ کی سمت مائل ہو سکتا ہے ۔ اس وقت مشرق وسطی سے امریکہ کی پسپائي کے بعد نیا سیکوریٹی محاذ بن رہا ہے تاہم اسرائيل کو بہت احتیاط سے آگے بڑھنا ہوگا اور یہ یقین رکھنا ہوگا کہ ترکی کو بائيڈن کو خوش کرنے کے لئے امریکہ کے اتحادیوں کی ضرورت ہے ۔ ان حالات میں ایران کے مبینہ خطرات کے پیش نظر ، ایران پر قابو پانا ، اسرائيل اور ترکی دونوں کے لئے اہم ہے ۔ اب یہ تل ابیب حکومت کا فریضہ ہے وہ ترکی کے ساتھ تعلقات کی راہ ہموار کرے اور جلد ہی اپنے پرانے حلیف سے تعلقات بحال کرے ۔

Add comment


Security code
Refresh