تکفیری دھشت گردوں کے مفتی اور شام میں دھشت گرد تنظیموں کو روحانی باپ "عدنان العرعور" نے کھا ہے کہ دولۃالاسلامیۃ في العراق
والشام یا داعش کو خوارج کا گروہ قرار دیا ہے۔
تکفیری فتؤوں کے حوالے سے بدنام زمانہ اور آل سعود کی دولت پر پلنے والے ـ نیز دھشت گردی کے لئے عرب ریاستوں سے موصولہ دولت کو اپنے اکاؤنٹ میں جمع کرانے کے ملزم ـ تکفیری مفتی عدنان العرعور نے عالمی اور علاقائی سطح پر دھشت گرد تنظیم داعش کی بدنامی اور رسوائی کے بعد اس تنظیم کو خارجی گروہ قرار دیتے ھوئے اس کے ایک کمانڈر "ابوایمن" کی گرفتاری کے لئے انعام مقرر کیا ہے۔
عرعور نے کھا: ابو ایمن عراقی انٹیلجنس کا افسر ہے اور اس کا خیال نھيں ہے کہ وہ شرعی عدالت میں حاضر ھوکر اپنے اوپر لگے الزامات کا جواب دے گا۔
عرعور نے الزام لگایا کہ ابو ایمن سعودی عرب سے خودکش حملوں کے لئے آنے والے دھشت گردوں سے جان چھڑانے کے لئے انھیں محاذ جنگ میں بھیجواتا ہے اور انھیں ھلاکت میں ڈال دیتا ہے۔
تاھم عرعور نے کھا: میں داعش کے تمام اراکین کو مورد الزام نھیں ٹھراتا لیکن ان کی اکثریت نے ناقابل بیان اقدامات کا ارتکاب کیا ہے اور یوں داعش کے وہ افراد جو اللہ کے احکامات کو نافذ نہ کریں ان کا حکم خوارج کا حکم ہے اور وہ جھنم یا پھر انٹیلجنس ایجنسیوں کے کتے ہیں۔
اس نے اپنے غیظ و غضب کا سبب بیان کرتے ھوئے کھا: داعش نے احرار الشام نامی تنظیم میں ھمارے بھائیوں پر حملہ کیا ہے اور جرم و تجاوز کا ارتکاب کرچکی ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ عرعور ان ناکامیوں اور شکستوں کی وجہ سے فکرمند ہے جو باھمی لڑائیوں میں سعودی عرب کے حمایت یافتہ دھشت گرد ٹولوں کے کھاتے میں آئی ہیں۔
مسلح دھشت گرد ٹولوں کا کھنا ہے کہ داعش کے سینئر کمانڈر ابو ایمن یا ابو وائل العراقی ابو بصیر اللاذقانی اور مھاجرین الی اللہ نامی دھشت گرد ٹولے کے کمانڈر جلال بایرلی کا قاتل ہے اور اس نے ربیعہ نامی گاؤں کے قریب ایک صحرائی اسپتال کے عملے کو قتل کیا اور جلال بایرلی سمیت چھ دیگر افراد کو پھانسی دی۔
مبصرین کا خیال ہے کہ عرعور کے الزامات اس سعودی کوشش کا حصہ ہیں جو داعش پر باھر سے دباؤ بڑھانے کے لئے ھورھی ہے کیونکہ داعش نے شام میں سعودی حمایت یافتہ ٹولوں پر حملے کرکے انھیں شدید نقصانات پھنچائے ہیں۔