آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی نے سعودی حکومت سے مطابلہ کیا ہے کہ ان وھابیوں کو باز رکھے جو مھمان نوازی کا لحاظ نھيں رکھتے
اور مھمانوں کے خلاف ساٹھ لاکھ کتابیں تقسیم کرتے ہیں۔
آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی نے حرم مطھر حضرت فاطمہ معصومہ (س) کے احاطے میں واقع مسجد اعظم میں درس خارج فقہ کے آغاز پر سینکڑوں طلبہ اور فضلاء سے خطاب کرتے ھوئے حالیہ برسوں میں تشیع کی بے مثال تابناکیوں کی طرف اشارہ کرتے ھوئے کھا: ان چند سالوں کے دوران عاشورا کا دامن وسیع تر ہوگیا ہے اور یہ چند سال ماضی سے بالکل مختلف تھے اور عید غدیر کے مراسمات بھی بھت زيادہ شان و شوکت سے منعقد کئے جاتے ہیں اور حضرت امام زمانہ(عج) کے سلسلے میں بھی بھت وسیع و عریض پروگرام منعقد ھورھے ہیں۔
انھوں نے کھا: ھمیں بھی اپنے ان مراسمات میں زیادہ روی اور کام چوری اور افراط و تفریط کا شکار نھيں ھونا چاھئے کیونکہ یہ رویئے ولایت کے سلسلے میں منعقدہ روحانی اور معنوی تقریبات و مجالس کم اثر یا بے اثر ھوجاتے ہیں اور اگر یہ مراسمات غلط مسائل کے ساتھ خلط ملط ھوجائیں تو ان کا الٹا اثر ھوگا اور ان کی عظمت کم ھوکر رہ جائے گی۔
انھوں نے "فرھنگ جامع احادیث امام ھادی(ع)" نامی کتاب کے صفحہ 432 سے ایک حدیث نقل کی اور کھا: مروی ہے کہ ایک شخص امام ھادی(ع) کی خدمت میں حاضر ھوا اور امام(ع) کی ثنا خوانی میں زیادہ روی سے کام لیا تو امام(ع) نے فرمایا: اپنے کام سے کام رکھو اور زیادہ چاپلوسی کرو گے تو میں تم پر بدگمان ھوجاؤں گا، جب تم اپنے بھائی پر اعتماد اطمینان رکھتے ھو تو چاپلوسی کو ترک کرو اور خوش بین رھو (حسن ظن رکھوں)۔
انھوں نے کھا: تملق کا مسئلہ ان بلاؤں میں سے ہے جو انسانی معاشروں میں قدیم الایام سے موجود ہے اور آج بھی موجود ہے؛ حتی بعض لوگ جانتے ہیں کہ ان کی چاپلوسی کے وقت جھوٹ بولا جاتا ہے لیکن پھر بھی چاپلوسی کو پسند کرتے ہیں۔
انھوں نے کھا کہ چاپلوسی کی وجہ سےشخصیت اور چاپلوس لوگ طاقت و اقتدار حاصل کرتے ہیں اور شخصیت کے مالک افراد دیوار سے لگائے جاتے ہیں۔
آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی نے سعودی انتظامیہ کے حکم پر حج کے دوران شیعیان آل رسول(ص) اور مکتب تشیع کے اصولوں اور اعتقادات کے خلاف ساٹھ لاکھ کتب کی تقسیم پر رد عمل ظاھر کرتے ھوئے کھا: اس کام پر اربوں ریال اخراجات آتے ہیں لیکن ان کتب کا مضمون اور محتوی جھوٹ اور تھمت ہے اور میں بعید جانتا ھوں کہ سعودی حکومت اس طرح کے کاموں کی طرف مائل ھو بلکہ متعصب وھابی جو سعودی حکومت کے مختلف شعبوں پر قابض ہیں اور ثقافتی و تعلیمی امور کو اپنے ھاتھوں میں لئے ھوئے ہیں، پے درپے ناکامیوں کا انتقام لینا چاھتے ہیں؛ گوکہ اس کام کا کوئی اثر نھیں ہے خواہ وہ چھ کروڑ کتابیں کیوں نہ شائع کریں۔
انھوں نے کھا: شیعہ انسانوں کے قاتل نھیں ہیں؛ صالحین کی قبروں کو تباہ نھیں کرتے، بلکہ ایک منطق اور ایک پروگرام کے تحت کارم کرتے ہیں چنانچہ جھوٹ اور تھمت کے ذریعے مکتب اھل بیت(ع) کا راستہ نھيں روکا جاسکتا تاھم یہ کام بھت بھونڈا اور بھیانک ہے کہ ھم کسی کو اپنے گھر آنے کی دعوت دیں اور ساٹھ لاکھ کتب اس کے خلاف شائع کریں!
آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی نے حجاج کرام کو ضیوف الرحمن قرار دیا اور کھا: ھم بھرصورت سعودی عرب کے مھمان ہیں اور کوئی بھی منطق اجازت نھيں دیتی کہ مھمان کی اس طرح سے توھین و بےحرمتی کی جائے اور پھر اجازت بھی نہ دی جائے کہ ایک کتاب ان کتب کے جواب میں لکھی جائے اور شائع کی جائے؛ یہ ٹولے اتحاد و یکجھتی کے ایام میں نفاق اورتفرقہ کا بیج ھوتے ہیں گوکہ ان کا یہ نامعقول کام بے اثر ہے؛ سعودی حکمرانوں کو جان لینا چاھئے کہ ان کے مفاد میں نھيں ہے کہ متعصبین اس طرح کے اعمال انجام دیتے رھیں۔