www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 میانمار کے مسلمانوں پر ظلم وستم، ان کی نسل کشی، مساجد کی شھادت اور میانمار میں ھونے والے جانی و مالی نقصان کا

 سلسلہ جاری ہے لیکن بین الاقوامی برادری اس انسانیت سوز کارروائیوں کو روکنے میں اب تک بہ ظاھر نا کام رھی ہے۔
 جبکہ اقوام متحدہ بھی میانمار حکومت کی اس نسل کشی پر جواب طلبی میں نا کام ہے اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں یہ مسئلہ بین الاقوامی عدالت انصاف میں اٹھانے سے قاصر رھیں۔ تاھم مسلسل خاموشی کے بعداقوام متحدہ نے اپنی خاموشی توڑی اور میانمار کے مسلمانوں پر ظلم وستم کے خلاف آواز اٹھاتے ھوئے حکومت میانمار پر برھمی کا اظھار کیا۔
میانمارمیں انسانی حقوق کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی ٹامس اوجہ آکینتانا نے میانمار کے مسلمانوں کی صورتحال کو اس ملک کی سیاسی اور اقتصادی اصلاحات کے عمل کیلئے نقصان دہ قرار دیا۔
ھرمھذب قوم کو ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھانی چاھیئے، اس لئے کہ مسلمانوں کے خلاف جس قسم کی سازشیں ھو رھی ہیں اور جس طریقے سے مسلمانوں کو جارحیت کا نشانہ بنایا جا رھا ہے اس کیلئے ضروری دکھائی دیتا ہے کہ مسلمان ممالک اپنے اتحاد اور سفارتی سرگرمیوں کے ذریعے ھی اپنی قومی سلامتی کے خلاف خطرات کو ٹال سکتے ہیں۔ لیکن میانمار میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ھو رھا ہے کیا عالمی اداروں کی جانب سے صرف مذمتی بیان دینا ھی کافی ہے۔
میانمار میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اب کوئی ڈھکی چھپی بات نھیں رھی، طاغوتی شکنجوں میں جکڑے عالمی میڈیا اور غلامانہ ذھنیت کے حامل مسلم ممالک کے حکمرانوں کی مسلسل چشم پوشی کے باوجود میانمار کی روھنگیا مسلمانوں کی مظلومیت انسانی حقوق کے علمبرداروں کے ضمیروں کو مسلسل جھنجوڑنے میں مصروف ہے۔ آج میانمار کی سرزمین مسلمانوں پر تنگ کردی گئی ہے، انسانی حقوق کا علمبردار عالمی ادارہ اقوام متحدہ بھی خاموش ہے اور او آئی سی کو بھی سانپ سونگھ گیا ہے۔ ظلم و بربریت کی یہ انتھاء میانمار میں کوئی نئی بات نھیں بلکہ 1978ء میں برمی انسان نماء بھیڑیوں نے ھزاروں مسلمانوں کو ملک سے بے دخل کیا۔ یہ مسلمان ھزاروں کی تعداد میں در بدر کی ٹھوکریں کھاتے ھوئے بنگلہ دیش پھنچے۔ اور آج وہ وھاں مھاجرین کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
عالمی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق رواں سال مظالم کی نئی داستان میں ھزاروں مسلمان ھلاک، زخمی اور بے گھر ھوئے۔ ظلم صرف یھاں تک ھی نھیں رھا بلکہ مسلمانوں کے کئی گھروں اور مساجد کو بھی ملیا میٹ کردیا گیا۔ اس بربریت کی کھانی میں تقریباً 9 ھزار مسلمان ایک مرتبہ پھر دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ھوئے۔ رواں سال اپریل میں 400 انسان نماء وحشی بدھ متوں نے اوکان کے علاقے میں تقریباً 100 سے زائد مسلمانوں کے گھروں پر حملہ آور ھوتے ھوئے انھیں تھس نھس کردیا۔ قبل ازیں 2009ء کے مسلم کش فسادات کے باعث ایک لاکھ 17 ھزار مسلمان برما سے دربدر ھوئےتھے ۔
دوسری جانب امن کا پرچار کرنے اور عالمی ایوارڈ سمیٹنے والی اور میانمار میں سب سے بڑی سیاسی رھنما اور نوبل انعام یافتہ سیاستدان آنگ سان سوچی نے روھنگیا مسلمانوں کے قتل عام کو ان کی نسل کشی قرار دینے سے انکار کردیا۔
برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں آنگ سان سوچی کا کھنا تھا کہ برما کے چند علاقوں میں گزشتہ چند برسوں سے وقفے وقفے سے ھونے والے فسادات میں صرف روھنگیا مسلمان ھی نشانہ نھیں بنے، ان پرتشدد واقعات میں بدھ مت سے تعلق رکھنے والے افراد کی بھی بڑی تعداد متاثر ھوئی ہے، انھوں نے کھا کہ اگر سیکڑوں روھنگیا مسلمان فسادات کی وجہ سے ملک چھوڑنے پر مجبور ھوئے تو بدھ مت کے ماننے والے بھی علاقے سے بے دخل ھوکر مختلف علاقوں میں پناہ لئے ھوئے ہیں اس لئے وہ فسادات میں روھنگیا مسلمانوں کے قتل کو ان کی نسل کشی نھیں مانتیں تاھم وہ سمجھتی ہیں کہ بدھ اکثریت کے ملک میں مسلمانوں کو سیکیورٹی فراھم کی جانی چاھئے۔
واضح رھے کہ روھنگیا مسلمانوں کو برمی حکومت اپنا شھری تسلیم نھیں کرتی، ان پر ڈھائے گئے مظالم کی وجہ سے اقوام متحدہ نے روھنگیا مسلمانوں کو دنیا کی سب سے زیادہ ستائی جانے والی قوم قرار دیا ہے لیکن اس کے باوجود برما میں جمھوریت کے لئے طویل عرصے تک پابند سلاسل رھنے والی آنگ سان سوچی نے کبھی بھی روھنگیا مسلمانوں کے خلاف مظالم پر اپنی آواز بلند نھیں کی۔
اورتواورعالمی حقوق انسانی کے نام نھاد علمبردار بھی چپی سادھے ھوئے ہیں۔ انسانی حقوق کے نام نھاد چیمپئن امریکی صدر اوبامہ تو میانمار کی حکومت سے جیو اسٹریٹیجک تعلقات بڑھانے میں مصروف ہیں۔ او آئی سی اور عرب لیگ کے دلوں پر مھر لگ گئی ہے اور کسی کو بھی مسلم آبادی پر ڈھائے جانے والے مظالم پر لب کشائی کی جرات نگیں گو پا رگی۔
ھیومن رائٹ واچ کی ایک حالیہ رپورٹ میں کھا گیا ہے کہ میانمار کی حکومت، بدھ مانکس، سیاست دان اور بیوروکریسی ایک خاص منصوبے کے تحت میانمار میں مسلمانوں کی نسل کشی کے جرم میں شریک ہے۔ اوروسطی میانمار میں تقریباً 400 بدھسٹ کا مسلمان آبادی پر حملہ اسی مزموم سازش کا حصہ تھا۔ شمال مشرقی میانمارکے شھر میں بھی یھی کچھ ھوا۔ مسجدیں شھید کی گئیں، قرآن کریم نذر آتش کئے گئے اور مسلمانوں کو زندہ جلا دیا گیا۔
دراصل امریکہ اور مغربی دنیا کے بدقسمتی سے دوگرے معیار ہیں۔ ان کے لئے صرف اور صرف اپنے معاشی مفادات گی مقدم ہیں، جن کے سامنے انسانی حقوق کی کوئی اھمیت نھیں۔ تاھم میانمار کے مسلمانوں کو انصاف دلوانے کے لئے عالمی ضمیر کو جنجھوڑنے کی ضرورت ہے۔
 

Add comment


Security code
Refresh