اسرائیل کے خلاف جس کے پاس بڑے پیمانے پر تباھی پھیلانے والے ھتھیار جن میں کیمیائی ھتھیار، بائیولوجیکل اور
جراثیمی ھتھیار اور ایٹمی ھتھیار شامل ہیں کوئی واضح پالیسی اپنائی نھیں گئی اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اسرائیل نے اگرچہ لبنان کے بعض حصوں میں محدود پیمانے پران ھتھیاروں کا استعمال کیا ہے لیکن اب تک وسیع پیمانے پر ان ھتھیاروں کو بروئے کار نھیں لایا۔
1940کے عشرے کے اختتام پر اسرائیل کی جعلی ریاست کی تشکیل کے رسمی طور پر اعلان اور اس کے بعد انجام پانے والی عالمی جنگ جو امریکہ کی جانب سے ایٹمی ھتھیار استعمال کئے جانے کے ذریعے اختتام پذیر ھوئی باعث بنیں کہ چین اور مغربی یورپ کی ریاستیں اپنی سرزمین اور قومی مفادات کے تحفظ کا واحد راستہ ایٹمی ھتھیاروں کی تیاری میں جستجو کرنے لگیں۔ اس دوران بین الاقوامی سطح پر کسی ملک کے طاقتور ھونے کا تنھا معیار اس کی ایٹمی طاقت کو تصور کیا جاتا تھا۔ لھذا اسرائیلی حکام نے بھی جوھری ھتھیاروں کے حصول کی کوششیں شروع کر دیں۔ اس سلسلے میں اسرائیلی وزیراعظم ڈیوڈ بن گوربن نے 1952ء میں ایک تقریر کے دوران اعلان کیا کہ اسرائیل نے خود کو جوھری ھتھیاروں سے لیس کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اگرچہ اس بارے میں مصدقہ معلومات میسر نھیں ہیں کہ آیا یہ تقریر اسرائیل کے ایٹمی پروگرام کا آغاز تھا یا نھیں، لیکن یہ بات طے تھی کہ اسرائیل کی دفاعی ڈاکٹرائن ایٹمی ھتھیاروں پر مبنی تھی۔
کچھ ایسے شواھد و مدارک موجود ہیں جو یہ ظاھر کرتے ہیں کہ اسرائیل کے جوھری پروگرام کی بنیادیں فرانس کی مدد سے رکھی گئی تھیں۔ اس دوران اسرائیل اور فرانس کے درمیان انتھائی قریبی تعاون جاری تھا۔ ان حالات کے پیش نظر ایسا معلوم ھوتا ہے کہ چونکہ اس وقت اکثر سائنسدان اور ماھرین یھودی تھے لھذا فرانس اور اسرائیل کے درمیان قریبی تعاون کی بنیاد جوھری تحقیقات ھی رھی ھوں گی۔ یعنی فوجی ٹیکنولوجی کے اعتبار سے جو ترقی فرانس میں ھو رھی تھی اس کا فائدہ براہ راست اسرائیل کو بھی پھنچ رھا تھا۔
مختلف مواقع پر اسرائیل کے جوھری ھتھیار بین الاقوامی اداروں کی توجہ کا مرکز رھے ہیں۔ سابق سوویت یونین کے زوال کے بعد عرب اسرائیل تنازعہ ایک نئے مرحلے میں داخل ھوا جس کی وجہ سے اس تنازعے میں مختلف قوتوں کی جانب سے مداخلت اور ثالثی کی نوعیت میں کافی تبدیلی دیکھی گئی۔ اسی طرح اقوام متحدہ کی بین الاقوامی ایجنسی نے اسرائیل سے کھا کہ وہ اپنی جوھری تنصیبات کے معائنے کی اجازت دے لیکن اسرائیلی حکام نے ان مطالبات کو مسترد کر دیا۔
بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی نے اس مسئلے کو اپنی رپورٹس میں لانے کی کوشش کی ہے۔ اسرائیل کے جوھری پروگرام پر عالمی برادری کی توجہ میں اس وقت اضافہ دیکھنے میں آیا جب اسلامی جمھوریہ ایران کے پرامن جوھری پروگرام کومتنازع بنا دیا گیا۔ اس تنازع کے دوران ایرانی مذاکرات کاروں نے انتھائی مھارت سے یہ مسئلہ اٹھایا کہ کیسے ممکن ہے کہ اسرائیل جس کے پاس 300 سے 600 تک ایٹم بم موجود ہیں خطے کیلئے کسی قسم کا خطرہ محسوب نھیں ھوتا لیکن اسلامی جمھوریہ ایران جس کا ایٹمی پروگرام پرامن نوعیت کا ہے اور صرف پرامن مقاصد کیلئے توانائی کے حصول کی خاطر ہے دنیا کیلئے خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔
اس دوران حتی مغربی تھنک ٹینکس میں بھی یہ بحث چھڑ گئی کہ اگر مشرق وسطٰی کو بڑے پیمانے پر تباھی پھیلانے والے ھتھیاروں سے پاک کرنا چاھیں تو اس میں سب سے بڑی رکاوٹ اسرائیل ھو گا۔ مغرب کے بعض حقیقت پسند ماھرین جیسے "والٹ" کا خیال تھا کہ چونکہ اسرائیل کے پاس جوھری ھتھیاروں کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے لھذا اس کے اردگرد تمام ھمسایہ ممالک کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی قومی سلامتی اور ملک کے دفاع کی خاطر جوھری ھتھیاروں سے لیس ھوں۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ جب اسرائیل سرتاپا جوھری ھتھیاروں سے لیس ہے تو ھمیں اس کے ھمسایہ ممالک سے یہ توقع نھیں رکھنی چاھیئے کہ وہ ایٹمی ھتھیار حاصل کرنے کی کوشش نھیں کریں گے۔
دوسری طرف اسرائیلی حکام کھلم کھلا یہ اعلان کرتے تھے کہ وہ کسی کو ڈیمونا نامی اپنی جوھری تنصیبات کے معائنے کی اجازت نھیں دیں گے۔ اس دوران اگرچہ بعض اسرائیلی عیسائی جو وھاں کی حکومت سے ناراضی تھے کے توسط سے ایٹمی ماھرین کے ذریعے انتھائی محدود پیمانے پر معلومات فاش ھوتی رہیں اور حتٰی اس خطرے کا اظھار بھی کیا گیا کہ ڈیمونا اٹامک ری ایکٹر میں ایٹمی دھماکہ بھی ھو سکتا ہے جو خطے اور دنیا کی سلامتی کو شدید نقصانات پھنچنے کا باعث بن سکتا ہے لیکن کسی بین الاقوامی تنظیم یا ادارے نے ان خبروں پر توجہ نہ دی ۔
اس کے علاوہ 17 عرب ممالک نے بھی اس ایجنسی کے مقدماتی کمیشن کو بعض ایسے شواھد و مدارک پیش کئے ہیں جن سے ثابت ھوتا ہے کہ اسرائیل نے این پی ٹی کی رکنیت اختیار کرنے سے انکار کر کے مشرق وسطٰی کو ایٹمی جنگ کے خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود نہ فقط اقوام متحدہ نے اسرائیل کے خلاف کوئی کاروائی نھیں کی بلکہ عالمی برادری نے بھی ڈرامائی خاموشی اختیار کی اوراپنی تمام تر توجہ اسلامی ممالک پر مرکوز کی اورایک اسلامی ملک ھونے کے ناطے پاکستان کے ایٹمی ھتھیاروں کو ھدف تنقید بنایا حالانکہ پاکستان نے ابھی تک اپنے آپ کو ایک اسلامی ملک کے طور پر پیش نھیں کیا ہے لیکن اس کے باوجود اس کے خلاف سازشیں ھو رھی ہیں اور امریکہ مختلف حیلے بھانوں سے پاکستان کی ارضی سالمیت کی خلاف ورزی کرتے ھوئے چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پائمال کر رھا ہے۔لیکن اسرائیل کی نہ فقط سر زنش نھیں کر رھا بلکہ اس کی ھمہ جانبہ حمایت کر رھا ہے جبکہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی بھی دوسرے بین الاقوامی اداروں کی مانند مختلف لابیز اور عالمی طاقتوں کے اثرورسوخ تلے دبی ھوئی ہے اور خود مختاری سے محروم ہے لھذا بین الاقوامی تنظیمیں بھی اس مسئلے پر کوئی موثر اقدام کرنے سے قاصر نظر آتی ہیں۔
درحقیقت جوھری ابھام نظریاتی اعتبار سے ایک انتھائی اھم موضوع جانا جاتا ہے لیکن عملی طور پر جوھری ابھام اور جوھری طاقت بن جانے کے درمیان زیادہ فاصلہ پایا نھیں جاتا۔ یعنی یہ کھنا انتھائی مشکل ہے کہ ایک ملک حقیقت میں ایٹمی طاقت نہ ھو لیکن اس نے جوھری ابھام پر مبنی پالیسیاں اختیار کر رکھی ھوں۔ خاص طور پر ایک ایسا ملک جو جوھری ٹیکنولوجی کے میدان میں کافی ترقی یافتہ ملک سمجھا جا تا ھو۔ اسرائیل نے جوھری ابھام پر مبنی پالیسیاں امریکہ کے کھنے پر اختیار کر رکھی ہیں جن کا مقصد ایک طرف ھمسایہ ممالک کی تنقید سے بچنا ہے اور دوسری طرف مشرق وسطٰی پر کولڈ وار والی صورتحال کو حکمفرما کر کے اپنے عزائم کی تکمیل ہے ۔اس لئے کہ یہ بات سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسرائیل کی تمام تر طاقت اس کی ایٹمی خطرات کی مرھون منت ہے ورنہ جغرافیائی اعتبار سے اسرائیلی حکومت زیادہ طاقتور نھیں۔ یعنی اسرائیل چاھے جتنی طاقتور فوج کا مالک ھو جائے جوھری ھتھیاروں کے بغیر اسے اپنے ھمسایہ ممالک کے ساتھ جنگ شروع کرنے کی جرات نھیں ھو سکتی۔
شام میں جاری کیمیائی ھتھیاروں کی نابودی سے متعلق کھا جا سکتا ہے کہ اگرچہ کیمیائی ھتھیار جوھری ھتھیاروں کی مانند اسٹریٹجک ھتھیار محسوب نھیں ھوتے اور دشمن ممالک کو کنٹرول کرنے میں ایٹمی ھتھیاروں جیسی طاقت نھیں رکھتے لیکن اس کے باوجود اسرائیل کی کوشش ھو گی کہ اس کے تمام ھمسایہ ممالک میں موجود کیمیائی ھتھیار مکمل طور پر نابود کر دیئے جائیں اور خطے کا کوئی ملک ایٹمی ھتھیار تیار نہ کر پائے۔ دوسری طرف اسرائیل چاھتا ہے کہ وہ خطے کے ممالک خاص طور پر اپنے ھمسایہ ممالک کو ایسی بدامنی اور عدم استحکام کا شکار کر دے کہ اس کیلئے وہ کسی پریشانی یا خطرے کا باعث نہ بن سکیں۔ اس کا واضح نمونہ شام اور عراق میں جاری شدت پسندی اور دھشت گردانہ اقدامات ہیں۔ اس لئے کہ اسرائیل ان اقدامات کے ذریعے شام کی قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالنا چاھتا ہے اور عراق کی خودمختاری کو ختم کرنے کے درپے ہے۔