فروشگاه اینترنتی هندیا بوتیک
آج: Wednesday, 12 February 2025

www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 عراق میں ھونے والے آئے دن کے حملوں کے اعداد و ارقام تو بیان کئے جا سکتے ہیں لیکن عراقی عوام کے رنج و غم کو

 بیان نھیں کیا جاسکتا۔
عراق میں دھماکوں اور کئی شھریوں کے جاں بحق ھو جانے کی خبر ایک عام سی خبر میں تبدیل تو ھو کر رہ گئی ہے لیکن یہ دھشتگردی کے واقعات کئی دلوں میں انمٹ نقش چھوڑ گئے ہیں۔
یہ ایک ایسی ھی ماں کی روداد ہے جو ھر روز کی طرح 26 ستمبر کو بھی اپنے بیٹوں کے لئے ناشتہ بنانے میں مصروف تھیں۔ 66 سالہ ام حسن جو پیروں کے درد میں مبتلا ہیں اپنے بیٹوں کو دروازے تک خدا حافظ کھنے نھیں آسکیں اور ناشتے کے بعد انکے بیٹے اسکو خدا حافظ کھہ کر گھر سے باھر نکل گئے دن بھر کام کاج میں مصروف رھنے کے بعد وہ سب کے سب معمول کے مطابق شام کو گھر واپس آگئے۔ لیکن ان میں سے تین بیٹے دوبارہ تیار ھو کر محلے میں ایک جنازے میں شرکت کے لئے گھر سے نکل گئے۔ ابھی آدھا گھنٹہ ھی گذرا تھا کہ خوفناک دھماکے کی آواز سنائی دی۔ اس آواز نے جھاں در و بام ھلا کر رکھ دیئے وھیں ام حسن کا دل بھی دھل کر رہ گیا۔ ابھی وہ سنبھل بھی نہ پائی تھیں کہ گھر میں موجود چاروں بیٹے ننگے پاؤں باھر کی جانب بھاگے تاکہ باھر کی خبر لے سکیں۔
ھر طرف سے اٹھنے والی آہ و بکا کی صداوں کی وجہ سے اب ام حسن کی پریشانی بڑھتی جا رھی تھی اور وہ اپنے بیٹوں کی سلامتی کی خبر کے لئے بے چین تھیں۔ وہ بھی انتھائی پریشانی میں گھر سے باھر نکل آئیں اور دھماکے کی جگہ کی جانب بڑھنے لگیں مگر اھل محلہ نے ان کو سمجھا بجھا کر واپس گھر بھیج دیا۔ بوڑھی ماں گھر کے دروازے پر ھی پھنچی تھی کہ ایک اور دھماکے کی آواز سے علاقہ گونج اٹھا۔ ام حسن کو نھیں معلوم تھا کے ان کے بیٹے اپنی موت کا استقبال کرنے گھر سے باھر نکلے ہیں کیونکہ وہ سب کے سب ان دو بم دھماکوں میں شھید ھو گئے۔ دھماکے اتنے شدید تھے کہ ان ساتوں کے جنازے مل نھیں پائے۔
آج یہ بوڑھی ماں شدت غم سے اپنے حواس کھو بیٹھی ہے اور اپنے ایک رشتے دار کے گھر میں اپنی لٹی پٹی زندگی گذار رھی ہے۔ عراق میں جاری دھشتگردی کا ایک شکار جس نے اپنی زندگی کی سب سے قیمتی چیز اپنے جگر کے ٹکڑے کھو دیئے۔
عراق میں مسلمانوں کا قتل عام، دھشتگردی کے واقعات اور انسانیت سوز جرائم ابھی بھی جاری ہیں اور دور دور تک اس دھشتگردی کے تھمنے کی کوئی امید بھی نظر نھیں آتی۔ صرف ستمبر کے مھینے میں 200 افراد اس بربریت کا نشانہ بنے ہیں اور نہ جانے کب تک کتنی ام حسن جیسی ماوں کے لعل و گھر اس دھشتگردی کی قربانی بنیں گے یہ بات عالم اسلام کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔
 

Add comment


Security code
Refresh