مصراس وقت اپنی تاریخ کے سخت ترین دور سے گزر رھا ہے۔ اخوان المسلمین نے منگل کے روز سول نافرمانی کی تحریک کی
دعوت دی تھی اور محمد مرسی کی برطرفی کے بعد پھلی بار اس جماعت کے حامیوں نے قاھرہ کے تحریر اسکوائر پر مظاھرہ کیا۔
تحریر اسکوائر وہ جگہ ہے کہ جھاں سے مصری عوام نے آمرانہ نظام کے خلاف اپنی تحریک شروع کی تھی۔ اس وقت بھی انھیں امید ہے کہ مصر کے موجودہ حکمرانوں کے خلاف تحریک کی نئی لھر وجود میں آئے گی۔ لیکن اسی کے ساتھ ھی مصر کی فوج نےاعلان کیا کہ کل قاھرہ کے مشرق میں واقع علاقےاسماعیلیہ میں فوجی اھلکاروں اور مسلح افراد کے مابین ھونے والی جھڑپ میں 4 حملہ آور ھلاک ھو گئے۔
جولائی کے مھینے میں جب مرسی کی حکومت کو ختم کیا گيا اس کے بعد سے مصر میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاھرے اور سکیورٹی فورسز پر حملوں کا سلسلہ شروع ھوا ہے جو تھمنے کل نام نھیں لے رھا۔
مصر میں جاری سیاسی کشمکش ،احتجاجی مظاھرے، پر تشدد واقعات اور بدامنی کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح ھو جاتی ہے کہ ان دنوں تمام سیاسی ماھرین مصر میں رونما ھونے والے واقعہ یعنی قانونی صدر کی برکناری اور فوج کے دوبارہ برسراقتدار آنے کو ایک غیرجمھوری قدم قرار دیتے ھوئے اسے جمھویت کے اعتبار سے پیچھے کی جانب ایک قدم قرار دیتے ہیں۔
ھر چند کہ جمھوریت پیچیدہ ترین نظام حکومت ہے۔ لیکن ٹھیک ایک سال پھلے مصر کے صدارتی انتخابات میں اسلام پسند گروھوں کے نمائندے کے طور پر جناب محمد مرسی کی کامیابی نے دنیا والوں کو اس ملک میں جمھوریت کے پھلے مرحلے کے آغاز کی نوید دلائی تھی۔
ان انتخابات نے جس میں ووٹوں کے بھت کم اختلاف سے جناب محمد مرسی کامیاب قرار پائے تھے، مصر میں نیا سیاسی ماحول ایجاد کر دیا تھا جو اکثر سیاسی ماھرین اور سیاست دانوں کی جانب سے خوش بینانہ تجزیات اور پیش بینیوں کے باوجود زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا اور مصر ایک بار پھر ایک ایسی فوجی بغاوت کا شکار ھو گیا جس میں عوامی مطالبات نے مرکزی کردار ادا کیا۔
البتہ صدارتی انتخابات کے اگلے ھی دن سے مصر دو قطبی معاشرے کی طرف گامزن ھو گیا۔ جناب محمد مرسی کے مقابلے میں شکست کھانے والے سیاسی مخالفین جن کی تعداد 49 فیصد تھی اس شکست کو قبول کرنے کیلئے تیار نہ تھے۔
سکولر قوتوں نے حکومت میں اسلام پسند عناصر کی موجودگی پر تنقید کرنا شروع کر دی۔ دوسری طرف مصری جوانوں نے اخوان المسلمین پر یہ الزام لگانا شروع کردیا کہ وہ عوامی انقلاب کو اپنے قبضے میں لینے کی کوشش کر رھی ہے۔
مصر کی سابق حکومت سے وابستہ عناصر نے بھی جناب محمد مرسی کو سابق صدر حسنی مبارک کی طرح اقتدار کو اپنے اور اپنی حامی اخوان المسلمین کے مکمل قبضے میں لینے کی کوششوں میں مشغول پایا۔
معتدل اور شدت پسند اسلام پسند عناصر جیسے اخوان المسلمین اور سلفی گروھوں نے اس کامیابی کے دائرے میں مصری معاشرے میں اپنا اثرورسوخ بڑھانا شروع کر دیا۔ مصر کے انقلابی معاشرے میں اخوانی اور سلفی اسلام پسند عناصر کا پھلا قدم ھی اس قدر ناقابل برداشت تھا کہ ان کی حکومت کے آغاز سے ھی مصر میں یہ بحث چھڑ گئی کہ آیا اس انداز کا اسلام مصری عوام کی فردی اور اجتماعی زندگی میں ھونا چاھئے یا نہ؟
اس تناو کے نتیجے میں مذھبی فسادات رونما ھوئے اور کئی جانیں جاتی رھیں ۔ جناب محمد مرسی اور ان کے حامیوں کی جانب سے اسلامی شریعت پر سختی سے عمل پیرا ھونے اور عوامی احتجاج اور اعتراضات کو یکسر نظرانداز کر دینے کا نتیجہ یہ نکلا کہ انھوں نے ملک کے نئے آئین میں بھی اپنی جماعت اخوان المسلمین کی پوزیشن مضبوط کرنے کی کوشش کی۔ یہ امر مصر کی دوسری سیاسی جماعتوں اور قوتوں حتی مصری فوج کیلئے انتھائی پریشان کن ثابت ھوا اور ان کی جانب سے سنجیدہ ردعمل ظاھر ھونا شروع ھو گیا۔
جناب محمد مرسی نے صدر مملکت ھونے کے ناطے سپریم کورٹ کے جج اور جنرل طنطاوی سمیت کئی اعلی فوجی کمانڈروں کو معزول کر کے ملک کے دو خودمختار اور ھردلعزیز اداروں یعنی عدلیہ اور فوج کو اپنا نشانہ بنایا۔ اس طرح انھوں نے اپنے اور مصری معاشرے خلاف نئی دشمنیوں کی بنیاد رکھی اور سیاسی مخالفین کو مزید تنقید کا موقع فراھم کیا۔ لیکن جناب محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹے جانے میں اور بھی کئی قسم کے عوامل کارفرما تھے جیسا کہ مصری معاشرے کی پیچیدہ صورتحال، خطے اور عالمی سطح پر جناب محمد مرسی کی خارجہ پالیسی۔
اس کے علاوہ شام کا بحران، عراق میں بدامنی کی شدید لھراور ترکی میں حکومت مخالف مظاھروں نے امریکہ کے اندر یہ پریشانی پیدا کر دی تھی کہ کھیں مشرق وسطی میں اسلام پسند قوتیں زور نہ پکڑ لیں کیونکہ اس صورت میں اسرائیل کی قومی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ھو سکتے تھے۔ لھذا یہ کھنا غلط نہ ھو گا کہ امریکہ مصر میں آنے والی سیاسی تبدیلی سے خوش بھی ہے اور امیدوار بھی اگرچہ امریکہ نے کھلم کھلا اس بات کا اظھار نھیں کیا۔