شام کے معروف ٹی وی چینل الاخباریہ میں نشر ھونے والی اس ظلم کی داستان سے بعض واقعات کو حذف کیا گیا ہے کیونکہ
کوئی بھی غیرت مند اور باشرف انسان ظلم کی اس داستان کو نھیں سن سکتا ہے، نہ ھی پڑھ سکتا ہے۔
شام کے معروف ٹی وی چینل الاخباریہ نے حال ھی میں جھاد النکاح کا شکار ھونے والی ایک 15 سالہ شامی بچی کا انٹرویو جاری کیا ہے جس میں اس نے اپنی آپ بیتی سناتے ھوئے اھم انکشافات کئے ہیں۔
انٹرویو میں دھشت گردوں کی جنسی درندگی بننے والی نوجوان لڑکی بتاتی ہے کہ اس کا نام روان قداح ہے اور وہ 1997ء میں پیدا ھوئی ہے۔
روان قداح کا کھنا ہے:
میرے باپ کا نام میلاد موسی الدہ ہے۔ ھمارا گھرانہ 5 افراد پر مشتمل ہے۔ میں ایک کسان کی بیٹی ھوں جو جنگ سے پھلے کھیتوں میں کام کرتا تھا۔
اگر مجھ سے کوئی غلطی ھو جاتی تو گھر والے یقیناً مجھے سزا دیتے تھے۔ شام میں جنگ کے آغاز میں جب ملک میں احتجاجی مظاھرے ھو رھے تھے تو میرا باپ شامی باغیوں کو گھر میں لاتا تھا، جن کے ساتھ 3، 4 ھتھیار ھوتے تھے۔ لیکن میں نھیں جانتی تھی کہ وہ یھاں کیوں آتے تھے۔ ایک دن ایسا آیا کہ شدید خوفزدہ تھی کہ میرا باپ، ماں، بھن اور بھائی میرے کمرے میں نھیں آئے اور نہ ھی کسی قسم کی بات چیت کی۔ میرے پاس کسی قسم کی کوئی چیز نھیں تھی نہ ٹی وی، نہ ریڈیو اور نہ ٹیلی فون وغیرہ۔ میں حیران رہ گئی کہ میرا باپ مجھے خوراک یا جو کچھ میں چاھتی مجھے مھیا کرتا تھا، اور اس نے مجھے گھر سے باھر کچھ بھی کرنے سے منع کر دیا تھا۔ حتی ٰ کہ مجھے اسکول جانے کی اجازت بھی نھیں دی۔
15 دن کے بعد میرا باپ میرے پاس آکر کھنے لگا کہ جاکر نھالو، میں اپنے باپ کی یہ بات سن کر حیران ھوگئی۔ بھرحال میں نے اپنے باپ کی بات پر عمل کیا، میں غسل خانے میں تھی کہ ایک اجنبی شخص اندر آیا جس کی عمر 50 سال کے قریب تھی، اس نے کسی قسم کا خیال نہ کیا، اس نے مجھے بالوں سے پکڑا اور کمرے میں لے گیا جبکہ چیخنے چلانے کی آوازیں میرا باپ سن رھا تھا لیکن اس نے مجھے اس آدمی سے چھڑانے کی کسی قسم کی کوشش نہ کی۔ جو کچھ وہ میرے ساتھ کر سکتا تھا، کرلیا اور اسی دوران دوسرا آدمی بھی آگیا۔ اس نے بھی وھی کیا جو پھلے والا کر چکا تھا۔
اس وحشیانہ واقعے کے بعد ھوش و حواس کھو بیٹھی اور تقریبا 45 منٹ کے بعد مجھے دوبارہ ھوش آیا تو میں نے اپنے باپ کو بلایا جب وہ کمرے میں آیا تو اس سے پوچھا کہ جب میں چلا رھی تھی تو آپ مجھے اس مصیبت سے نجات دلانے کیوں نھیں آئے، تو اس نے کھا: یہ سب صحیح تھا اور یہ جھاد تھا، لھذا تم یہ والا جھاد ھر وقت کر سکتی ھو اور مجاھدین (!) تمھارے ساتھ ھم بستر ھو سکتے ہیں۔
مجھے اپنے باپ نے کھا: اس جھاد النکاح سے تمھارے گناہ مٹ جائیں گے اور تم مرنے کے بعد شھید کھلاؤ گی اور سیدھا جنت میں جاؤ گی۔
میں نے اپنے باپ سے کھا کہ مجھے دوائی لا دو یا ڈاکٹر سے معائنہ کراؤ لیکن اس نے انکار کردیا۔ صحت یاب ھونے کے بعد ان لوگوں کا آنا جانا ایک بار پھر شروع ھوا۔ یہ سلسلہ ایک ھفتے تک جاری رھا۔ جب بھی میرا باپ ان آدمیوں کو اندر آنے کی اجازت دیتا تو میں ان سے بچنے کی کوشش کرتی لیکن وہ مجھے زیادتی کا نشانہ بناتے۔ ٭ ایک بار ایک آدمی جس کو میں جانتی تھی کمرے میں آیا میں نے اسے کچھ نہ کرنے کا کھا تو اس نے کھا کہ آپ کا باپ مجھے آپ کے ساتھ ھم بستر ھونے سے منع نھیں کرے گا۔ میں وھاں سے فرار ھونا چاھتی تھی لیکن گھر کا دروازہ ایک ھونے کی وجہ سے فرار ھونا مشکل تھا۔ اگر میں وھاں سے فرار ھوتی تو باغیوں کی نظر میں آجاتی۔
جب شامی تکفیری باغی مجھے زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد کمرے سے باھر نکلے تو میں نے سنا کہ میرا باپ انھیں اس گاؤں چھوڑنے کا کھہ رھا تھا۔ جس کے بعد وہ دوسرے گاؤں تصل میں چلے گئے۔ اس کے بعد میری والدہ، بھائی اور بھن گھر واپس آئے تو میں نے اپنی والدہ سے پوچھا کہ مجھے اکیلا کیوں یھاں چھوڑ گئے تھے؟ اس نے کھا کہ تمھارے ساتھ جو کچھ ھوا ہے اچھا ھوا ہے؛ اور پھر ماں نے دھمکی دیتے ھوئے کھا: کسی کو بتانا نھیں ورنہ تمھیں مار دوں گی۔
[عجب ثم العجب] جب بھی میری ماں باھر جاکر واپس آتی تو نھا لیتی تھی۔ وہ بھی ان لوگوں کے ساتھ وھی کچھ کرتی تھی اور اس کو جھاد النکاح کھتی تھی۔
کچھ عرصے کے بعد میرے باپ نے ماں سے کھا کہ وہ مجھے روان لے آئے۔ جس سے مجھے فورا خیال آیا کہ وہ مجھے دوسرے گاؤں لے جانا چاھتے ہیں جھاں وہ جھاد النکاح کرنے جاتی ہے۔ میں اس کے باوجود ماں کے ساتھ جانے کے لئے آمادہ ھوگئی۔
جھاد النکاح نامی فحاشی اور زنا بالجبر کا نشانہ بننے والے پندرہ سالہ روان قداح نے مزید کھا:
ھم دوسرے گاؤں جانے کے لئے ٹیکسی میں سوار ھوئے، جب وہ گاڑی فوجی چیک پوائنٹ پر رکی تو میں نے چیخنا چلانا شروع کیا جس کے باعث ایک فوجی میرے پاس آیا اور گاڑی سے باھر نکالا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیوں چیخ رھی ھو تو میں نے اسے وہ پورا ماجرا کھہ سنایا جو میرے ساتھ روا رکھا گیا تھا۔
شامی فوجیوں نے مجھے کار میں بٹھا کر ایک پرامن گھر میں منتقل کیا، جھاں میں اب ان باغیوں سے دور ھوکر پرسکون زندگی گزار رھی ھوں۔
یہ رپورٹ اسلام ٹائمز کی ویب سائٹ میں درج ھوئی تھی جس میں ـ اسلام ٹائمز کی ٹیم سے معذرت کے ساتھ ـ مختصر سی اصلاحات کرکے قارئین و صارفین کی خدمت میں پیش کیا گیا۔