www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

صدر دھڑے کے سربراہ نے زور دے کر کھا: میں پوری قوت سے شیعہ، اھل سنت اور دوسرے مذاھب کے پیروکاروں کے قتل عام اور مساجد 

اور مقدس مقامات پر دھشت گردوں کے حملوں کی روک تھام کروں گا۔
عراق کے صدر دھڑے کے سربراہ نے روز ھفتہ (20 ستمبر 2013) ملت عراق کو خون میں نھلانے کے سلسلے میں "منحوس مثلث" کے اقدامات کی طرف اشارہ کرتے ھوئے کھا: میں شیعہ اور سنی مسلمانوں اور دوسرے ادیان کے پیروکاروں، مساجد اور مقدس مقامات اور عبادتگاھوں کو نشانہ بنانے جیسے اقدامات کہ فیصلہ کن انداز سے سد باب کروں گا۔
انھوں نے "السومریہ نیوز" سے بات چیت کرتے ھوئے کھا: عراق کے شیعہ یا سنی مسلمانوں کے خلاف دھشت گردانہ حملے عراق کو تباھی کے دھانے پر پھنچاتے ہیں؛ عراق کے شیعہ کار بم دھماکوں، قتل عام اور گرفتاریوں کی وجہ سے بڑے مصائب جھیلے ہیں اور ھزاروں افراد ان حملوں کے بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔
صدر نے کھا: عراقی سنیوں پر کسی قسم کا کوئی بھی حملہ انسداد دھشت گردی کے زمرے میں نھیں آتا اور ان عناصر کے خلاف اقدام بھی شمار نھيں کیا جاسکتا جنھوں نے دھماکوں اور قتل عام کو اپنا "دینی فریضہ" سمجھا ھوا ہے؛ بلکہ یہ امر دھشت گردوں اور گمراھوں کا اصل مقصد ہے اور ان سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے عراقیوں کو متحد ھونا پڑے گا۔
انھوں نے کھا: شیعیان عراق کو کار بم دھماکوں کا نشانہ بنانا اھل سنت کا کام نھیں ہے بلکہ دوسرے فریقوں کا کام اور اس سلسلے میں تین احتمالات پائے جاتے ہیں:
اول: امریکہ ـ اسرائیل ـ برطانیہ کا مثلث،
دوئم: صرف قابض طاقت،
سوئم: وہ لوگ جو اھل سنت کھلوانے پر اصرار کرتے ہیں جبکہ حقیقی اھل سنت ان سے بیزاری کا اعلان کررھے ہیں۔
مقتدا صدر نے عراقی عوام سے اپیل کی کہ وہ ذمہ داری محسوس کریں اور ھر مذھب اور ھر تفکر کے حامل عراقیوں کی خونریزی کا سد باب کریں اور عقل و منطق کا سھارا لے کر قومی مفادات کو شخصی اور جماعتی مفادات پر ترجیح دیں۔
صدر نے شیعہ مراجع تقلید اور مصر کی جامعۃالازھر کے علماء سے درخواست کی کہ اس فتنے کی آگ بحھانے اور عراقیوں کو وحدت اور یکجھتی کی طرف ھدایت دیں۔
واضح رھے کہ امریکی قابض افواج کے عراق سے انخلاء کے بعد سے اب تک عراق میں دھشت گردانہ کاروائیوں میں اضافہ ھوتا رھا اور جب میں عراق میں استحکام کے آثار نظر آنے لگتے ہیں اس مظلوم اور مجروح ملک میں دھشت گردانہ حملوں کو وسعت اور شدت دی جاتی ہے اور جب سے عراق مزاحمت محاذ کا حصہ بن کر امریکہ اور اسرائیل کے سپنے چور چور کرچکا ہے اور شام کے مسئلے میں امریکہ اور آل سعود کی خواھشات کے مطابق عمل کرنے سے انکار کرچکا ہے، اس ملک میں تشدد آمیز حملے اور بےگناہ عوام کے قتل عام میں اضافہ ھوا ہے۔
مثال کے طور پر سید مفتدا صدر کے اس بیان کے دن ھی بغداد کے شیعہ علاقے "صدر سٹی" میں دو شدید کار بم دھماکوں میں پچاس افراد شھید ھوگئے۔
دھشت گردوں نے اس حملے میں ایک مجلس فاتحہ کو نشانہ بنایا۔
فرانس پریس کے مطابق صدر سٹی میں ایک مجلس فاتحہ کے موقع پر دو کار بم دھماکے بیک وقت ھوئے جن کے نتیجے میں 50 افراد شھید اور درجنوں زخمی ھوئے۔
 

Add comment


Security code
Refresh