www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

عرب دنیا میں اسلامی بیداری کا آغاز تیونس سے ھوا جس نے آگے چل کر دیگرعرب ممالک کوایسا اپنی لپیٹ میں لیاکہ ابھی تک عالم عرب اس 

مکافاتِ عمل سے باھرنھیں نکل سکااورلگتاہے کہ یہ تبدیلی کا یہ عمل ابھی اورملکوں کواپنی لپیٹ میں لےگا۔
 اس وقت یمن اور بحرین اور سعودی عرب دو ایسے مملک ہیں جھاں اسلامی بیداری کی لھر نے آمروں اور امریکہ نواز حکمرانوں کی نیندیں اڑا رکھی ہیں۔
تیونس بحیرہ روم میں واقع شمالی افریقہ کا ایک اھم ملک ہے جس کے جنوب مشرق میں لیبیا اور مغرب میں الجزائرواقع ہے۔ سابقہ ادوار پر نظرڈالی جائے تو یورپی قوتوں نے تیونس کے تمام وسائل پرقبضہ کر رکھا تھا۔ نوآبادیاتی دورکے اختتام پر تیونس نے عرب ممالک میں بڑھتے ھوئےآمرانہ کلچر کے نتیجےمیں یھاں بھی ایک آ مر زین العابدین بن علی نے ۱۹۸۷ء میںحبیب بورقیبہ کومعزول کرکے صدارت کے عھدے پرقبضہ کرلیا اوربعد ازاں اپنے اقتدارکو طول دینے کے لئے آئین میں من مانی تبدیلیاں کرتارھا۔
زین العابدین کے ابتدائی دورمیں معاشی ناھمواریاں اتنی کھل کر سامنے نھیں آئیں مگربدلتی ھوئی دنیاکی طرح یھاں بھی مھنگائی اوربے روزگاری کے اضافے نے عوام کی زندگی کو اجیرن بنادیا۔
۱۸دسمبر۲۰۱۰ء کو تیونس کے عوام کے صبرکاپیمانہ لبریزھوگیا اور ایک محنت کش کی خودکشی کے بعدعوامی مزاحمت سامنے آئی۔ عوامی مظاھروں کے نتیجے میں طویل عرصے حکومت کرنے والے زین العابدین کو جنوری ۲۰۱۱ء میں ملک سے فرارھونا پڑا، سعودی عرب نے بڑھ کر تیونسی عوام کے دھتکارے ھوئے شخص کو خوش آمدید کھا اور اپنے محلوں کے دروازے اس پر کھولدئیے جھاں و آرام آسائش کی زندگی گذار رھا ہے۔
النھضہ موجودہ تیونس کی سب سے مضبوط سیاسی جماعت ہے جس نے آزادانہ انتخابات کے بعد ملک انتظام سنبھالا ہے۔ تیونس کی سیاسی صورتحال بھی مصر سے مشابھت رکھتی ہے اوریھاں بھی بائیں بازوسے تعلق رکھنے والی بھت سی سیاسی جماعتیں موجود ہیں جواپنے حقوق کی آواز اٹھانے کیلئے کوشاں ہیں۔ان ھی نظریات کی حامل جماعتوں نے اپنے مطالبات منوانے کے لئے اکتوبر۲۰۱۲ء میں پاپولرفرنٹ کے نام سے اپوزیشن اتحادقائم کیا، کیونکہ اتحاد میں شامل جماعتیں تیونس میں بڑھتی ھوئی اسلام پسندی سے انتھائی خوفزدہ ہیں۔
حالیہ کچھ دنوں میں تیونس کی سیاسی صورتحال بگڑتی چلی جارھی ہے اوراسلام پسندوں اور سیکولر و لبرل جماعتوں کے درمیان بڑھتی ھوئی مخالفت نے تیونس کے سیاسی مستقبل پرسوالیہ نشان لگادیاہے اورموجودہ سیاسی بحران کی وجہ سے انقلاب تیونس بھی مصرکی طرح خطرے سے دوچارہے اوربھت سے ماھرین اس بات کابھی اشارہ دے چکے ہیں کہ تیونس کے موجودہ سیاسی بحران کی وجہ سے ملک کے حالات ۲۰۱۱ء کے حالات سے بھی زیادہ بگڑسکتے ہیں۔
حال ھی میں تیونس کے صدرمنصف مرزوقی بھی اپنے ایک بیان میں عوام اورسیاستدانوں سے متحدھونے کی اپیل کرچکے ہیں۔تیونس کی موجودہ بگڑتی ھوئی صورتحال کی ایک وجہ اپوزیشن کے دواھم رھنماؤں شکری بلعیداورمحمدبراھمی کاقتل بھی ہے جس میں شکری بلعیدکوفروری ۲۰۱۳ء میں قتل کیاگیاتھا۔
مخالفین کی جانب سے شکری بلعیدکے قتل کاالزام حکمران جماعت النھضہ پرعائدکیاگیاجبکہ النھضہ پارٹی کے سربراہ راشدالغنوشی نے اپنے ایک بیان میں واضح طورپراس قتل کاالزام زین العابدین کی باقیات پرعائدکیاہے۔
ان کے مطابق سابق صدر کے حمایتی تیونس میں جمھوریت کوپھلتے پھولتے نھیں دیکھناچاھتے۔ ابھی اپوزیشن کی جانب سے شکری بلعیدکے قتل کے خلاف حکومت مخالف مظاھرے جاری ھی تھے کہ جولائی ۲۰۱۳ء میں ایک اوراپوزیشن لیڈرمحمدبراھمی کوبھی قتل کردیاگیاجس سے اپوزیشن جماعتوں میں موجودہ اشتعال مزیدبڑھ گیا اوراپوزیشن نے اس قتل کاالزام بھی حکمران جماعت النھضہ پرعائدکردیا۔ایک طرف تیونس کااندرونی سیاسی بحران اس کیلئے دردِ سربناھواتھاتودوسری طرف الجزائرسے ملحقہ مغربی سرحدوں پرعسکریت پسندوں کے حملوں نے ان مسائل میں مزیداضافہ کر دیاہے۔
واضح رھے جولائی ۲۰۱۳ء میں تیونس کے وزیراعظم علی العریض عام انتخابات کیلئے ۱۷دسمبر۲۰۱۳ء کی تاریخ کااعلان کرچکے ہیں،ان کے مطابق دستورسازاسمبلی اپنا۸۰فیصد کام مکمل کرچکی ہے اوراکتوبرتک باقی کام مکمل کرلیاجائے گا۔
موجودہ تیونسی حکومت میں پارلیمنٹ فورم پربھاری اکثریت رکھنے والی النھضہ کے ساتھ دوبائیں بازوکی جماعتیں کانگرس اورالتکتل بھی شامل ہیں جس میں وزیراعظم علی العریض النھضہ سے، صدر منصف مرزوقی کانگرس سے اور دستور سازاسمبلی کے سربراہ مصطفیٰ بن جعفر التکتل سے تعلق رکھتے ہیں۔
النھضہ دسمبرمیں قومی انتخابات کی پیشکش کرچکی ہے مگراپوزیشن کی جانب سے غیرجماعتی حکومت کامطالبہ کیاجارھاہے جس کی وجہ سے تیونس ایک بڑے میں خطرے پڑگیا ہے، کچھ دنوں پھلے تک حکومت کے خلاف مظاھروں کی شکل میں قانون کی خلاف ورزی ھوتی رھی اب مظاھرے انتھا پسندی اوردھشت گردی میں تبدیل ھوگئے ہیں۔
تیونس اور الجزائر کی سرحد پردھشت گردانہ اقدام کے نتیجے میں تیونس کے نو فوجی ھلاک اورزخمی ھوگئے ۔یعنی اس ملک میں دھشت گردی کی گھنٹی بج گئی ہے ۔ تیونس کے صدر منصف المزوقی نے ملک میں دھشت گردانہ اقدامات کے بارے میں خبردار کرتے ھوئے کھا ہے کہ دھشتگردوں نے کسی مقصدکے بغیر جن حملوں کا آغاز کیا ہے اس میں صرف انقلاب مخالفین کافائدہ ہے ۔
انھوں نے اس نکتہ کی یاددھانی کرائی کہ دھشت گرد انقلاب کو نقصان پھونچانے کے لئے تیونس کے غریب جوانوں کو استعمال کررھے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ تیونس کے پڑوسی ممالک کے ساتھ سرحدوں پر صحیح امن اورسیکورٹی کے نہ ھونےکی وجہ سے دھشت گرد اس موقع سے استفادہ کررھے ہیں۔ لھذا تیونس کے وزیر اعظم علی العریض نے دھشت گردی سے مقابلے کا واحد راستہ قومی اتحاد کو قرار دیا ہے ۔
تیونس کے وزیر اعظم نے ملک کے ساٹھ سیاسی شخصیات سے ملاقات اور گفتگومیں دھشت گردی کو ملک کے لئے اھم خطرہ قرار دیا ہے اور ملک کے فوجی ، سیکورٹی اور عدلیہ کے اداروں نیز سیاسی گروھوں سےدھشت گردی سے مقابلے کےلئے جو وجود میں آرھی ہے آپس میں متحد ھونے کی تاکید کی ہے ۔
النھضہ تحریک کے سربراہ راشد الغنوشی نے جن کا سیاسی لحاظ سے تیونس میں کچھ وقار اور اعتبار باقی ہے ملک کو سیاسی بحران سے نجات دلانے کے لئے اقتدار کی منتقلی کے لئے عام ریفرنڈم کرانے کو کھھا ہے ، انھوں نے کھاہےکہ مخالفین اگر اقتدار کی منتقلی پر تاکید کررھے ہیں تو ھم ان سے کھتے ہیں کہ آؤ اس بارے میں ھم عام ریفرنڈم کراتے ہیں۔
اس وقت مصر میں رونماھونے والے واقعات تیونس کوبھت زیادہ متاثر کررکھا ہے۔ ان حقائق کے پیش نظر تیونس حکام بحران کے حل کے لئے مفاھمت آمیز راستے کی تلاش میں ہیں لیکن اس میں اس وقت کامیاب ھوسکتے ہیں جب حکومت اور مخالف گروہ کےدرمیان کسی نتیجہ خیز مفاھمت پر اتفاق ھوجائے حکومت اورمخالفین کے درمیان کسی مفاھمت پراتفاق نہ ھونے کی صورت میں تیونس ایک خطرناک سیاسی، سماجی بحران میں پھنس سکتا ہے۔
انتھاپسند سلفیوں کی جانب سے ماحول کوخراب کرنے کے لئے فوجیوں اور سرکردہ سیاسی شخصیات کے قتل کو اپنے ایجنڈے میں شامل کرنے کے اشارے مل رھے ہیں جبکہ شام کے تعلق سے بھی تیونس کا نام بار بار سننے میں آرھا ہے۔
واضح رھے کہ تیونس میں بھی اپوزیشن کی جانب سے حکومت سے اس طرز پرمطالبات کئے جارھے ہیں، جس طرح مصرمیں محمدمرسی کی حکومت سے وھاں کی سیکولر ولبرل جماعتیں مطالبہ کررھی تھیں جس کی وجہ سے ملک میں سیاسی بحران پیداھوا۔ چنانچہ خیال کیا جا رھا ہے انقلاب تیونس بھی انقلاب مصر کی طرح خطرے سے دوچار ھوچکا ہے لھذا اگر تیونس کے انقلابیوں نے سوجھ بوجھ کا مظاھرہ نہ کیا تو مغرب نواز قوتوں کو پھر سے اپنا رنگ دکھانے کا موقع ھاتھ آجائے گا۔
 

Add comment


Security code
Refresh