www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 رھبرانقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے فرمایا ہے کہ سامراجی نظام کو اس وجہ سے اسلامی انقلاب سے دشمنی ہے 

کہ اسلامی انقلاب ظلم سے مقابلہ کرنے اور دوسروں پرظلم کرنے سے پرھیز کرنے پر تاکید کرتا ہے۔
 رھبرانقلاب اسلامی حضرت آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نےآج سپاہ پاسداران کے سابق اور موجودہ کمانڈروں اور عھدیداروں سے ملاقات میں فرمایا کہ سامراج نے دنیا کو دو حصوں یعنی ظالم اور مظلوم میں تقسیم کررکھا ہے لیکن اسلامی انقلاب اپنے ھمراہ ظلم کی مخالفت اور ظلم سے پرھیز کا پیغام لے کر آیا اوراسی پیغام کی وجہ سے قوموں نے اسلامی انقلاب کا استقبال کیا اور یہ انقلاب ایرانی سرحدوں میں محدود نھیں رھا۔
 آپ نے فرمایا کہ سامراجی ملکوں کے تمام اقدامات و بیانات، منجملہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں امریکہ کے پروپگينڈوں کا سامراج کے مقابل اسلامی انقلاب کے اسی پیغام کے تناظر میں تجزیہ کرنا چاھیے۔
 رھبرانقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ظالم و جابر اور سامراج سے وابستہ حکومتیں نیز عالمی لٹیروں کے نیٹ ورک، تین بنیادی پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں جو جنگ پسندی، غربت کو ھوا دینا اور برائياں پھیلانے سے عبارت ہیں اور چونکہ اسلام ان پالیسیوں کا مخالف ہے لھذا اسی وجہ سے سامراج اسلام کی مخالفت کرتا ہے۔
 رھبرانقلاب اسلامی حضرت آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ ایران امریکہ اور غیر امریکہ کی خاطر نھیں بلکہ اپنے اسلامی عقائد کی بنا پر ایٹم بم بنانے اور اسکے استعمال کا مخالف ہے لیکن ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کے مخالفین کا حقیقی ھدف کچھ اور ہے۔
 رھبرانقلاب اسلامی نے سپاہ پاسداران کی درخشاں کارکردگي کو ملت ایران کے تشخص اور کامیاب تجربوں کا ثبوت قراردیا۔ آپ نے فرمایا کہ انقلابی باقی رھنا اور انقلاب کی اقدار پر عمل پیرا ھونا اور ثبات قدم سپاہ پاسداران کے وجود کے خوبصورت جلوے ہیں۔
 رھبرانقلاب اسلامی نے فرمایا کہ سپاہ پاسداران کبھی بھی دنیا میں آنے والی تبدیلیوں اور اندرون ملک تبدیلیوں کی ضرورت کی بنا پر اپنے بنیادی اور صحیح موقف سے پیچھے نھیں ھٹی ہے۔
 رھبرانقلاب اسلامی نےفرمایا کہ اسلامی انقلاب کی حفاظت کرنے کےلئےسپاہ کو مختلف میدانوں میں آنے والی تبدیلیوں سے آشنا ھونا چاھیے اور حالات کی مکمل شناخت رکھنی چاھیے۔
آپ نے فرمایا کہ یہ ضروری نھیں ہےکہ سپاہ پاسداران سیاسی میدان میں بھی سرگرم عمل ھو لیکن انقلاب کے نگھبان کی حیثیت سے مختلف انحرافی، غیر انحرافی اور وابستہ گروھوں نیز دیگر سیاسی دھڑوں پر بھر پور نظر رکھنی چاھیے۔
آپ نے سفارتکاری کی پيچيدگيوں کی طرف اشارہ کرتے ھوئے فرمایا کہ سفارتکاری کا میدان، مذاکرات کی خواھش اور مذاکرات کا میدان ہے لیکن یہ سارے کام بنیادی چیلنج کے تناظر میں آنے چاھیں۔
آپ نے داخلی اور خارجی میدانوں میں صحیح اور منطقی پالیسیوں کی حمایت کرتے ھوئے فرمایا کہ فاتحانہ لچک جو بنیادی شرائط پر مبنی ھو بعض موقعوں پر ضروری ھوتی ہے۔
آپ نے فرمایا کہ ملت ایران منطق اور علمی راستے پر آگے بڑھ رھی ہے لیکن دشمن اپنے ذاتی تضاد کی بنا پر پسپا ھونے پرمجبور ہے گرچہ وہ اسکا اعتراف نہ کرے اور اس صف آرائي میں کامیابی اس کےنصیب میں ھوگي جو منطق اور علمی طریقے سے آگے بڑھ رھا ہے۔
 

Add comment


Security code
Refresh