ایسے حال میں کہ مزدوروں نے دوسری بار اپنی اجرت میں اضافے کے لئے ھڑتال کی کال دی ہے، تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اس ملک
میں سرمایہ داروں کی تعداد اور ان کی دولت، کسی بھی عرب ملک سے زیادہ ہے اور مشرق وسطی کے بڑے سرمایہ دار اسی ملک کے باشندے ہیں۔
ایسے حال میں کہ سعودی عرب کے اکثری عوام بےگھر ہیں اور سعودی خاندان سے وابستہ لوگ اس ملک کی اسی فیصد املاک کے مالک بنے بیٹھے ہیں اور مزدوروں نیز سرکاری ملازمین کی تنخواھیں ان کی معاشی ضروریات پوری نھیں کرتیں، سوئٹزرلینڈ کے یو بی ایس بینک نے معمول کی سالانہ رپورٹ میں بڑے سرمایہ دار متعارف کرائے ہیں۔ اس رپورٹ میں کھا گیا ہے کہ 2012 کے دوران بڑے سرمایہ دار یا سرمایہ دار حکام کا تعلق خلیج فارس کی ساحلی ریاستوں سے ہے۔
اس رپورٹ میں ہے کہ سعودی عرب، امارات، کویت اور قطر میں سرمایہ داروں کے سرمائے اور دولت میں 25 فیصد اضافہ ھوا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق بڑی دولت کے معنی یہ ہیں کہ ایک فرد کی سالانہ آمدنی تین کروڑ ڈالر ھو۔
اس رپورٹ کے مطابق سعودی عرب پر مسلط 1360 سرمایہ داروں کی دولت [جن میں غالب اکثریت سعودی خاندان سے ہے یا پھر اس خاندان کے قریبی ہیں] 285 ارب ڈالر ہے اور 2012 میں ان کی دولت میں گذشتہ سال کی نسبت 17 فیصد بڑھ گئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق 64 اعلی سعودی سرمایہ داروں کا سرمایہ 204 ارب ڈالر ہے۔
متحدہ عرب امارات دوسرے نمبر پر تھا جس میں بسنے والے نھیانی ارب پتیوں کی تعداد 1050 ہے جن کا کل سرمایہ 190 ارب ڈالر ہے۔
تیسرے نمبر کویت ہے جس میں 845 سرمایہ داروں کی پوری دولت 145 ارب ڈالر ہے۔
اس رپورٹ میں کھا گیا ہے کہ امارات کے 37 بڑے سرمایہ داروں کا سرمایہ 45 ارب ڈالر ہے جبکہ مشرق وسطی کے 5300 سرمایہ داروں کی پوری دولت 880 ارب ڈالر ہے۔
واضح رھے کہ سعودی عرب کے سرکاری ملازمین نے حال ھی میں اپنی تنخواھوں میں اضافے کے لئے مظاھرے کئے ہیں اور پھر بھی مظاھروں اور جلسے اور جلوسوں کی کال دی گئی ہے کیونکہ سعودی باشندے اس وقت شدید معاشی مشکلات کا سامنا کررھے ہیں اور انھیں روزمرہ کے اخراجات پورے کرنے میں دشواریوں کا سامنا ہے۔
حالیہ دو مھینوں کے دوران سعودی عرب میں ملازمین اور مزدوروں کی تحریک بعنوان "اجرتیں ضروریات پوری کرنے کے لئے کافی نھيں ہیں" جاری ہے۔ Twitter میں ایک کروڑ ستر لاکھ سعودیوں نے اس کال کو مثبت جواب دیا اور اس پر اپنی رائے درج کردی۔
آل سعود کی حکومت اس مشکلات کا اعلانیہ جائزہ لینے کی اجازت نھيں دیتی اور وہ اس مشکلات کو خفیہ رکھنے پر اصرار کرتی ہے۔ بعض سعودی حکام نے کھا ہے کہ سماجی نیٹ ورکس پر احتجاج کی کال اس ملک کی بین الاقوامی ساکھ کے لئے نقصان دہ ہے۔
سعودی وزراء بورڈ کے سیکریٹری جنرل "عبدالرحمن السدحان" نے ٹویٹر پر احتجاج کی کال کو ایک "فتنہ" قرار دیا ہے جس کے پیچھے خاص قسم کے لوگ ہیں جو یہ نھیں چاھتے کہ سعودی عرب بعض ممالک میں کشمکش اور جنگوں و بدامنیوں کے باوجود، امن و امان اور صلح و استحکام سے مالامال رھے۔
آل سعود کی دیرینہ عادت ہے کہ اس ملک میں کاروں کا تصادم بھی ھو تو اس کا الزام بیرونی ممالک پر لگایا جاتا ہے گوکہ یھاں کسی بیرونی قوت کا نام نھیں لیا گیا ہے لیکن پھر بھی بظاھر اشارہ بیرونی قوتوں کی طرف سے گو کہ کسی حکومت کے زوال میں یہ عنصر بھت اھم کردار ادا کرتا ہے کہ حکومت مسائل کو حل کرنے کے بجائے ان کا الزام بیرونی ممالک پر دھرتی ہے اور قابل حل مسائل ناقابل حل ھوجاتے ہیں۔
یھاں عبدالرحمن السدحان نے کھا ہے کہ علاقے کے ممالک میں بدامنیاں ہیں اور ان کا اشارہ عراق اور شام کی طرف ہے جن میں دھشت گردی کا راج ہے لیکن السدحال نے یہ نھیں کھا ہے کہ ان ممالک میں بدامنیوں کا ذمہ دار کون ہے! اور اس نے اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ نھیں کیا ہے کہ ان ممالک میں تمام تر بدامنیوں کے پیچھے آل سعود کا ھاتھ ہے جو اسرائیل کے تحفظ میں امریکہ کا ھاتھ بٹانے پر مامور ہے۔