www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

شام کے بارے میں دو عرب سفارتکاروں اور اخضر ابراھیمی کے مذاکرات اور ان کے نتائج سے 40 فیصد تک ظاھر ھوا کہ شام پر امریکی 

حملے کا امکان کمزور ہے جبکہ ایران کے طرف سے اعلان ھوا کہ کسی بھی امریکی حملے کا نھایت سخت جواب دیا جائے گا جس نے امریکیوں کو اپنے فیصلے میں تذبذب سے دوچار کیا۔
لبنانی اخبار "الاخبار" نے شام کے مسئلے میں اقوام متحدہ کے ایلچی اخضر ابراھیمی کے ساتھ دو عرب سفارتکاروں کے مذاکرات کی تفصیل شائع کیا ہے اور لکھا ہے: ابراھیمی نے کھا ہے کہ امریکی حملے کا امکان پچاس فیصد سے بھی کم ہے۔
سن پیٹرز برگ میں جی 20 سمٹ کے آغاز پر بارک اوباما نے شام پر حملے پر زور دیا تھا لیکن اس سمٹ کے بعد مسائل پیچیدگی کا شکار ھوئے اور گذشتہ ھفتے کے آخر میں عرب سفارتکاروں نے الابراھیمی سے بات چیت کی اور الابراھیمی نے کھا کہ متعدد دلائل کی بنا پر شام پر امریکی حملے کا امکان پچاس فیصد سے بھی کم ھوچکا ہے اور اس دلائل میں سے بعض کچھ یوں ہیں:
امریکہ کے اندر حکومت پر شدید عوامی دباؤ جو ابتداء ھی سے بھت مؤثر انداز میں ظاھر ھوا اور کیتھولک کلیسا نے اس منظم احتجاج کا خود ھی منظم کیا تھا اور معلوم ھوا کہ کیتھولک پادری اور کارڈینلز شام پر امریکی حملے کا سد باب کرنے کے لئے غیر معمولی طور پر فعال ھوگئے ہیں۔ اور ان کا دباؤ کانگریس کے فیصلے پر اثر انداز ھوسکتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ امریکی کانگریس کے اندر بھی جنگ مخالف تحریک مزید وسیع اور مؤثر ھوسکتی ہے۔
الابراھیمی کے مطابق اوباما نے اعلان جنگ کے بعد بعض اھم رابطے کئے ہیں۔ 21 اگست کو غوطہ میں کیمیاوی حملوں کے دعوے کے بعد اوباما نے جی 20 سمٹ تک جنگ پر زور دیا اور روس نے کچھ دن خاموشی اختیار کی کیونکہ وہ امریکہ کے سامنے آکر لڑنے کے بجائے جنگ کو روکنے کی پالیسی پر کاربند تھا اور اس کا خیال تھا کہ شام پر حملے کی صورت میں ماسکو کو 48 گھنٹوں تک خاموش رھنا چاھئے اور اس کے بعد جواب دینا چاھئے لیکن ایران نے موقف اپنایا کہ شام پر حملہ خواہ چند گھنٹوں کے لئے ھو یا چند روزہ ھو، بھرصورت جارحیت سمجھا جائے گا اور اسی وجہ سے علاقے میں مختلف قسم کے رد عمل اور جنگ کی وسعت کو پیش نظر رکھنا چاھئے جس سے پورا علاقہ متاثر ھوگا۔
روس نے بھی ایران کے موقف کے بعد اپنا موقف تبدیل کیا اور کھا کہ وہ شام کے عسکری سھولیات کو تقویت پھنچائے گا اور اگر حملہ ھوا تو تباہ شدہ ھتھیاروں کی قیمت شام کو ادا کرے گا اور ھر قسم کے حملے کی صورت میں اپنے تزویری حلیف کی امداد کرے گا۔ روس نے اس کے بعد ایک بحری جھاز بھی شام کے ساحل کی طرف بھجوایا ہے جو مختلف قسم کے ھتھیاروں اور بکتر بند گاڑیوں یا پھر ایس 300 میزائل دفاعی سسٹم کو شام منتقل کرچکا ہے۔
تیسرا اھم سبب امریکی سیکورٹی اداروں کی یہ رپورٹ ہے کہ شام کے پاس امریکی مفادات پر داغنے کے لئے میزآئلوں کا ایک بھت عظیم ذخیرہ موجود ہے جو ریڈ الرٹ کی حالت میں ہے اور پھر امریکی مطمئن ھوچکے ہیں کہ روس نے شام کے اطراف میں کامیاب میزائل شکن و میزآئل شکن دفاعی نظام کامیابی کے ساتھ متعین کیا ہے اور یہ وہ مسئلہ ہے جس نے شام پر حملے کی کسی بھی کوشش کو ناکام بنا دیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ دیرینہ حلیف ملک شام کی حمایت میں ایران کی سنجیدگی اس قدر تھی کہ روس کو اطمینان ھوا کہ اگر جنگ ھوئی تو ایران ھمہ جھت طور پر اپنے حلیف کا ساتھ دے گا اور اگر ماسکو پسپائی اختیار کرے تو حلیفوں کے درمیان اس کے لئے کوئی عزت و آبرو نہ رھے گی چنانچہ روس نے اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرکے اعلان کیا کہ شام پر حملے کی صورت میں عالمی جنگ چھڑے گی اور اعلان کیا کہ وہ میزائلوں کو نشانے سے منحرف کرنے والے لیزر آلات اور الیکٹرک و الیکٹرانک وار فیئر کے متعلقہ ھتھیار شام منتقل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
ادھر شام کی حکومت نے باضابطہ طور پر اپنے کیمیاوی ھتھیاروں کو بین الاقوامی نگرانی کے لئے کھولنے کا اعلان کیا ہے اور وزیر خارجہ ولید المعلم نے کھا ہے کہ ان کا ملک اپنے ایٹمی ھتھیاروں پر بین الاقوامی نگرانی کی تجویز کا خیرمقدم کرتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق آج منگل کے روز ولید المعلم نے روسی پارلیمان "دوما" کے سربراہ سرگئی نارشکین" سے ملاقات کے وقت کھا ہے کہ ان کا ملک اپنے کیمیاوی ھتھیاروں پر بین الاقوامی نگرانی کی روسی تجویز سے اتفاق کرتا ہے۔
 

Add comment


Security code
Refresh