www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 کوئی دن ایسا نھیں ہے کہ شام ،عراق، پاکستان اور دیگر بعض اسلامی ملکوں سے بم دھماکوں اور خود کش حملوں کی خبریں نہ سنی جاتی ھوں ۔

 شام اورعراق دھشت گردوں کے اھداف میں سرفھرست ہیں ، دھشت گردانہ کاروائیوں کا اصل ھدف عام شھریوں خصوصا بچے،عورتیں اور عمر رسیدہ لوگ ہیں ۔شام کے دھشت گردوں نے چند دنوں پھلے دردناک مظالم کاارتکاب کرتے ھوئے120 بچوں اور300 سے زیادہ عورتوں اور عمر رسیدہ لوگوں کا بھیمانہ طریقہ سے قتل عام کردیا ۔شام میں تکفیری دھشت گردوں کے ھاتھوں 400 سے زائد بچوں اور عورتوں کے قتل عام کے ساتھ ساتھ ویڈیو پر ایک دردناک تصویر شائع کی گئی جس میں دکھایا گيا ہے کہ انتھا پسند دھشت گرد گروہ النصرہ کے افراد نے شام کے تین فوجیوں پر پیٹرول چھڑک کر انھیں زندہ زندہ جلاڈالا ۔ شام میں حالیہ ایک برس کے دوران اس طرح کے دلخراش واقعات بھت زیادہ رونما ھوئے ہیں ۔ ابھی دنیا شام کے شھر حلب کے خان العسل کے علاقے میں 51 شھریوں کے بھیمانہ اور دلخراش قتل کو نھیں بھولے تھے کہ شام میں ایک اور دردناک واقعہ رونما ھوا ۔
  عراق میں تکفیری گروہ کی دھشت گردانہ کاروائیوں میں اضافہ ھوگیا ہے۔ یہ مظالم شام میں رونما ھونے والے واقعات سے بے تعلق نھیں ہیں۔ شام میں بحران پیداکرکے بشار اسد کی حکومت کاتختہ الٹنے میں علاقائی اور غیر ممالک کوجب اپنے اھداف میں ناکامی ھوئی تو انھوں نے عراق میں بدامنی اور بحران پھیلانا شروع کردیا ۔ حالیہ ھفتوں میں عراق کے عوام نے دوھزار تین میں اپنے ملک پرامریکہ کے قبضے کے بعد سےخونریز ترین دن دیکھے ہیں،پھلی جولائی سے دھشت گردانہ حملوں میں اب تک سات سو سے زیادہ عراقی شھری مارے جاچکے ہیں ۔ ان حملوں میں بغداد، کرکوک اور موصل شھروں کےشیعوں اور سنیوں کو نشانہ بنایاگیا ہے ۔ دھشت گردانہ حملوں کا مقصد عراقی عوام کے درمیان اختلاف پیدا کرنا ہے عراق اور شام میں لوگوں کے قتل عام کے بارے میں اھم نکتہ دھشت گرد گروھوں کے سلسلے میں انسانی حقوق کے دعویدار مغربی ممالک کا رد عمل ہے ۔ مغربی ممالک نے ان مظالم کے بارے میں خاموشی اختیار کررکھی ہے اور مسلسل شام کے مخالفین کی مالی اور اسلحہ جاتی حمایت اور مدد کررھے ہیں ۔
شا م کے وزیر داخلہ نے حالیہ دنوں میں شھر حمص کے الخالدیہ علاقے کا دورہ کرتے ھوئے کھا ہے کہ اس وقت دنیا کے اسی سے زیادہ ممالک کے دھشت گرد شام میں حکومت کے خلاف لڑ رھے ہیں ۔ اس وقت شام ،عراق ،پاکستان اور مختلف اسلامی ملکوں میں ھونے والے دھماکوں اور قتل عام کا اصل ذمہ دار القاعدہ سے وابستہ سلفی اور تکفیری گروہ ہے ۔ القاعدہ وھی دھشت گردگروہ ہے کہ امریکہ جسےگيارہ ستمبر کے واقعہ کا اصل ذمہ دار قرار دیتا ہے ، امریکہ نے علاقے پر حملے کا اصل مقصد دھشت گردی سے مقابلے اور القاعدہ کو سرکوب کرنا بتایا تھا ، لیکن آج سلفی اور تکفیری گروہ اور سرفھرست القاعدہ دھشت گرد گروہ حکومت امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے اھداف کو عملی جامہ پھنانے میں تبدیل ھوچکا ہے ۔اس وقت مغربی ممالک سلفی اور تکفیری اور ان میں سرفھرست القاعدہ دھشت گرد گروہ سے دوھرا استفادہ کرررھے ہیں، ایک طرف ان دھشت گرد گروھوں سے اسلام کے انصاف پسندانہ چھرے کو مخدوش کر نے کے لئے استفادہ کر رھے ہیں اوردوسری طرف ان دھشت گردانہ گروھوں کے دھشت گردانہ اقدامات کی حمایت اور اقدامات کے مقابلے میں خاموشی اختیار کرکے انھیں مشرق وسطی کے علاقے میں اپنے طویل المیعاد اھداف کے لئے استعمال کررھے ہیں ۔
اس طرح عالم اسلام کو داخلی طور پر تکفیری گروھوں کا سامنا ہے جو انسان ساز اسلامی تعلیمات سے منحرف ھوکر اسلامی معاشروں کے درمیان اختلاف اور تفرقہ ڈالنے کی کوشش میں مصروف ہیں ۔ سلفی اورتکفیری گروہ اپنے تشدد آمیز اور دھشت گردانہ اقدامات کی توجیہ کے لئے قرآن کریم کی آیات اورپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث سے غلط استفادہ کرتے ہیں یہ لوگ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت اور عفو ودرگذشت کی سیرت کو چھوڑ کرپیغمبر اکرم (ص) کی طرف ایسے مسائل کی نسبت دیتے ہیں جن کا اسلامی تعلیمات سے کوئی ربط یا تعلق نھیں ہے ،یہ ایسی حالت میں ہے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس لئے مبعوث بہ رسالت ھوئے کہ تاکہ دنیا سے تعصب آمیز افکار کی جڑوں کو خشک کردیں.سلفی اور تکفیری گروھوں کے افکار کا اصلی محور اس اصول پر استوار ہے کہ جو مسلمان ان کا ھم عقیدہ نھیں ہے وہ اسلام سے خارج اور کافر ہے اور اس کا قتل جائز ہے ۔یہ ہیں سلفی تکفیریوں کے افکار جو مشرق وسطی میں صھیونیزم اور مغربی حکومتوں کی پالیسیوں اور اھداف کو عملی جامہ پھنانےمیں بھت زیادہ ممد ومعاون ہیں ۔ عالم اسلام کے لئے ایک خطرہ مغربی حکومتوں کی وہ ناپاک پالیسیاں ہیں جس کے تحت وہ اسلامی ملکوں میں تفرقہ ڈال کر مشرق وسطی کو کئی حصوں میں تقسیم کرنا چاھتی ہیں۔
مشرق وسطی کے ملکوں میں اسلامی بیداری کی تحریک کے پھیلنے کی وجہ سے سلفی تکفیری گروہ مزید فعال ھوگیا ہے ۔ اس لئے کہ لوگوں کی آگاھی اوربیداری متعصب سلفی اور تکفیری گروہ کے افکار وعقاید کے خلاف ہیں ۔ سلفی اور تکفیری تحریک درحقیقت اسلامی بیداری سے مقابلے کے مقصد کے تحت فعال ھوئی ہے ۔ علاقے کے بعض ممالک خصوصا سعودی عرب ،قطر امریکہ ،برطانیہ اور صھیونی حکومت کے خفیہ اداروں کی حمایت کے نتیجہ میں سلفی اور تکفیری تحریک فعال ھوگئی ہے ،پس پردہ یھی ممالک بنیادی کردار ادا کررھے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ جن اسلامی ملکوں میں انتھا پسند سلفی اور تکفیری گروہ فعال اور سرگرم ھوچکے ہیں وھاں تشدد ، قتل وغارت گری مذھبی اور فرقہ وارانہ اختلافات میں بھی اضافہ ھوچکا ہے ۔ اب تک انتھا پسند سلفی اورتکفیری گروھوں کے دھشت گردانہ اقدامات کے نتیجے میں ھزاروں بے گناہ مسلمان مارے جاچکے ہیں ۔ عراق ،شام یمن ، مصر ، تیونس ، الجزائر ، پاکستان سمیت بھت سے دوسرے اسلامی ملکوں میں القاعدہ ،طالبان اور سلفی اور تکفیری گروہ امریکہ کی غلامی میں تبدیل ھوچکے ہیں ، یہ لوگ اپنے متعصبانہ اور جاھلانہ افکار سے اسلام کی تصویرکو دنیا کے سامنے مخدوش اور بگاڑ کرپیش کررھے ہیں۔
حکومت امریکہ اور اس کے اتحادی یورپی ممالک بھی اپنی اسلام دشمنانہ پالیسیوں کی توجیہ کے لئے سلفی اور تکفیری گروھوں کے تشدد آمیز اوردھشت گردانہ اقدامات کواھل مغرب اور عالمی رائے عامہ کے سامنے اسلام کو تشدد آمیز دین کی حیثیت سے متعارف کرانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ سلفیوں نے دوھزار تین میں عراق پر امریکہ کے قبضے کے بعد اپنے ھتھیاروں کو دشمنوں کے خلاف استعمال کرنے کے بجائے شیعوں کے خلاف استعمال کرنا شروع کردیا اور شیعوں کو اپنے ھدف کا نشانہ بنایا ۔ سعودی عرب کی آل سعود حکومت جس کا اثر رسوخ علاقے میں روبہ زوال ہے سلفیوں کی سیاسی حمایت اور مالی اور فوجی مدد کے ذریعہ عراق میں ایک طاقتور اور مضبوط حکومت کے برسر اقتدار آنے اور سیاسی اورمذھبی گروھوں کے درمیان تعاون اوراتحاد قائم ھونے کو روکنے کی کوشش کررھی ہے ۔ حکومت امریکہ بھی عراق میں چونکہ اپنے اھداف کے حصول میں ناکام رھی ہے سلفیوں کے تشدد آمیز اقدامات کو حکومت عراق سے اپنے مطالبات منوانے اور اس پر دباؤ ڈالنے کے لئے مناسب موقع سمجھتی ہے ۔
سلفی اورتکفیری گروہ شام میں ان کے ساتھ تعاون نہ کرنے والوں کا بھیمانہ طریقہ سے قتل عام کررھا ہے اور ان کی نظر میں مرد وعورت اور بچوں کے درمیان کوئی فرق نھیں ہے ۔ سلفی اورتکفیری گروہ انتقام لینے کے لئے بچوں کے سروں کو ان کے تن سے جداکرتے ہیں، امریکہ کی قومی پالیسی کونسل کی خارجہ پالیسی سے متعلق جریدے نے جو اس ملک کی اھم اور بڑی پالیسیوں کی تعیین میں اھم کردار کا حامل ہے اس سلسلے میں لکھا ہے کہ اس وقت بھت سے ماھرین اس فرقہ پرست سلفی گروہ کو نئی روایت قرار دیتے ہیں جو علاقے کی کی پالیسیوں کو پھر سے لکھ رھا ہے ۔ بروگینگيز ادارے کے ماھر جنیوعبدو نے ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ شیعوں اور سنیوں کے درمیان شگاف کی جگہ کو مسلمانوں اور عربوں کے درمیان ایک بڑی جنگ لے رھی ہے اوراس بات کا امکان ہے کہ مسئلہ فلسطین جھا ن عرب کی سیاسی زندگی میں ان کے اصلی اتحاد کا سبب بن جائے گا ۔ ان تجزیوں سے پتہ لگایا جاسکتاہے کہ اپنے دھشت گردانہ اقدامات کے ذریعہ اسلام پسندی کا دعویدارسلفی اور تکفیری گروہ خطے میں کونسی سیاسی تحریک کا ساتھ دے رھا ہے ۔
 

Add comment


Security code
Refresh