www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

اقتصادي اعتبار سے اھم ملکوں کے گروپ بيس کا اجلاس روس کے شھر سينٹ پيٹرز برگ ميں شروع ھوا ہے ۔ ماھرين کا کھنا ہے کہ اس 

اجلاس ميں اقتصادي معاملات سے زيادہ شام کا بحران حاوي رھے گا ۔ 
روس کي ميزباني ميں گروپ بيس کے رکن ملکوں کا سربراھي اجلاس شروع ھوگيا ہے ۔ روسي صدر پوتين نے يکم دسمبر دو ھزار بارہ سے گروپ بيس کي سربراھي سنبھال لي ہے ۔
روسي صدر پوتين سينٹ پيٹرزبزرگ ميں دنيا کے انيس ملکوں کے سربراھوں کي ميزباني کررھے ہيں جبکہ دنيا کے تينتيس ملکوں کے نمائندہ وفود بھي اس اجلاس ميں شريک ہيں ۔
گروپ بيس سن دوھزار آٹھ ميں عالمي معاشي بحران کے وجود ميں آنے کے بعد تشکيل پايا تھا ۔ روسي صدر پوتين کے بقول جمعرات سے شروع ھونےوالے گروپ بيس کے اجلاس کا سب سے اھم ايجنڈا روزگار کے مواقع کي فراھمي اور اقتصادي و معاشي رونق کو بحال کرنا ہے ۔ گروپ بيس کے ارکان پانچوں براعظموں سے تعلق رکھتے ہيں ۔
جنوبي امريکا سے برازيل اور ارجنٹينا شمالي امريکا سے امريکا اور کينيڈا مرکزي امريکا سے ميکسکو شامل ہيں جبکہ يورپ سے روس برطانيہ فرانس جرمني اور اٹلي شامل ہيں ايشيا سے ھندوستان چين جاپان انڈونيشيا جنوبي کوريا اور ترکي شامل ہيں بحرالکاھل سے صرف آسٹريليا اور عرب دنيا سے فقط سعودي عرب اس گروپ ميں نمائندگی کرتا ہے جبکہ براعظم افريقہ سے صرف جنوبي افريقہ ھي گروپ بيس کا ممبر ہے ۔
سينٹ پيٹرزبرگ ميں جمعرات سے شروع ھوئے اس اجلاس ميں صرف معاشي معاملات پر ھي بات چيت مرکوزنھيں ھوگي بلکہ شام پر امريکا اور اس کے اتحاديوں کے ممکنہ حملے کو مذکورہ اجلاس کا اھم ترين موضوع سمجھا جارھا ہے جبکہ يہ بھي کھا جارھا ہے کہ شام کا موضوع ھي اجلاس ميں شريک ملکوں کے رھنماؤں کے درميان اختلافات کا باعث بھي بنے گا ۔
امريکي صدر اوباما اور فرانس کے صدر اولينڈ اجلاس کے دوران کوشش کريں گے کہ شام پر حملے کے لئے مزيد ملکوں کو اپنا ھمنوا بنايا جائے ليکن ان ملکوں کا ميزبان يعني روس مشرق وسطي ميں امريکا کي يکطرفہ لشکرکشي کا سخت مخالف ہے چين بھي مشرق وسطي ميں فوجي مداخلت کا مخالف ہے جنوبي افريقہ اور ارجنٹينا نے بھي شام پر امريکا کے ممکنہ حملے کي مخالفت کي ہے جبکہ ھندوستان بھي کھہ چکا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کي اجازت کے بغير شام کے خلاف کسي بھي قسم کي فوجي مداخلت کا مخالف ہے
دوسري طرف امريکا کا سب سے اھم اتحادي برطانيہ پھلے ھي اپني پارليمنٹ کے فيصلے کي وجہ سے امريکا ساتھ دينے سے انکار کرچکا ہے ليکن امريکا کے يورپي اتحاديوں کي جگہ ترکي نے پر کرنے کي کوشش کي ہے اور وہ جنگ کا نقارہ بجانے ميں پيش پيش ہے ۔
ادھر سعودي عرب نہ صرف يہ کہ جنگ کا سب سے بڑا حامي ہے بلکہ اس نے تو شام کے خلاف جنگ ميں ھونےوالے تمام اخراجات برداشت کرنے کا بھي وعدہ کرليا ہے ۔ اور قطر نے اس کا ساتھ دينے کا اعلان کيا ہے ۔ جبکہ برازيل اور ميکسکو نہ تو جنگ کے سخت مخالفين ميں سے ہيں اور نہ ھي امريکا کے حاميوں ميں سے جبکہ شام پر حملے کے تعلق سے يورپي يونين کا موقف بھي مخمصے سے دوچار ہے ۔
ماھرين کا کھنا ہے کہ شام کے معاملے پر لے کر رکن ملکوں ميں پايا جانے والا يھي اختلاف اس اجلاس کو جس کا اھم مقصد معاشي معاملات پر تبادلہ خيال کرنا ہے بري طرح متاثرکرے گا ۔
 

Add comment


Security code
Refresh