www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 شام پر امریکہ کی جارحیت کی صورت میں روسیوں کی جانب سے جوابی کاروائی کئے جانے کا امکان ظاھر کیا جا رھا ہے۔

رشیا ٹوڈے ویب سائٹ کے مطابق روسی فوجی کمان کے مطابق بحیرہ روم میں موجود روسی جنگي جھاز، شام کےخلاف امریکہ کے ممکنہ حملوں کے جواب میں کاروائياں کرسکتے ہیں۔ روسی فوج کے اس ذریعے نے کھا کہ اگر ضرورت پڑی تو مزید جھازوں اور آبدوزوں کو علاقے میں بھیجا جاسکتا ہے۔
درایں اثنا ریانووستی نیوز ایجنسی نے روسی مسلح افواج کی مشترکہ کمان کے ایک اعلی افسر کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ میزائلوں کا حامل جھاز بحیرۂ روم کی طرف روانہ ھوگيا ہے اور سترہ ستمبر تک وھاں پھنچ جائے گا۔ اس ذریعے نے کھا ہےکہ بحیرۂ اسود میں روسی جھازوں میں شامل دو جھاز بھی انتیس ستمبر تک بحیرۂ روم پھنچ جائيں گے۔ واضح رھے کہ امریکہ اور اسکے مغربی اور عرب اتحادی، مسلسل شام پر حملوں کی دھمکیاں دے رھے ہیں اور امریکی جنگی بحری بیڑے بحیرہ روم میں پھنچ چکے ہیں۔ امریکی دھمکیوں سے پتہ چلتا ہے کہ اب وھائیٹ ھاؤس میں وہ دم خم نھیں رھا جس کا اظھار گیارہ ستمبر کے بعد امریکی حکام کے بیانات میں نظر آتا تھا البتہ اس وقت صرف وہ جانتے تھے کہ وہ کچھ کھہ رھے ہیں اس کا حقیقت سے دور بھی واسطہ نھیں ہے لیکن اب ان کے ساتھ ساتھ سب کو معلوم ہے کہ شام کے تعلق سے امریکی حکام کذب بیانی سے کام لے رھے ہیں۔
سیدھی سادھی بات ہے کہ شام میں کیماوی ھتھیار استعمال ھوئے ہیں، فوج نے کئے ہیں یا دھشت گردوں نے، اس سے امریکہ کی قومی سلامتی کسطرح متاثر ھوئی؟ اس سوال کا جواب بھت تلاش کرنے کے بعد بھی کھیں نہ مل سکا۔ لیکن اگر یہ کھا جائے کہ اس خطے کے عوام کی سلامتی کو امریکہ اپنی قومی سلامتی سمجھتا ہے تو حال ھی میں مصری افواج نے سینکڑوں عام اور نھتے شھریوں کو گولیوں سے بھون ڈالا اور یہ عمل پوری شد و مد کے ساتھ جاری ہے، لیکن اس عمل سے امریکہ کی قومی سلامتی کوئی خطرہ کیوں لاحق نھیں ھوا عالمی رائے عامہ کے لئے یہ ایک سوال ہے؟ایک اوربات یہ ہے کہ امریکہ کس منہ سے کیماوی ھتھیاروں کے استعمال کی مذمت کر رھا ہے جبکہ اس کا ماضی ویتنام کے نھتے شھریوں کے خلاف ان ھتھیاروں اور زھریلی گیسوں کے استعمال کی بات بالکل سیاہ ہے۔
مغربی میڈیا کے مطابق گذشتہ ڈھائی سال کے دوران شامی فوج کے ھاتھوں ھزاروں کی تعداد میں لوگ مارے گئے ہیں لیکن امریکہ کو جو خود جنگ ویتنام میں اس قسم کے مھلک ھتھیاروں کے استعمال خاصا تجربہ رکھتا ہے صرف ان چند سو افراد کا غم مارے ڈال رھا ہے جو بقول اس کے کیماوی بمباری کے نتیجے میں جاں بحق ھوئے ہیں۔ یعنی اگر شامی فوجی اپنے مخالفین کو ٹینکوں اور توپوں کے ذریعے گولہ باری کرکے ھلاک کریں تو اس سے امریکہ کی قومی سلامتی کو کوئی نقصان نھیں پھنچتا۔ البتہ امریکیوں کی نرالی منطق کہ اسے اگر منطق کھا جائے تو اس سے کچھ بھی بعید نھیں ہے۔ امریکہ کی اس نرالی منطق کے تحت ھی جان کیری کا کھنا ہے کہ اگر امریکہ شام کیخلاف فوجی کارروائی کرنے میں ناکام رھا تو ایران، حزب اللہ اور امریکہ کے دیگر دشمن شیر ھوجائیں گے۔
جان کیری کا یہ بیان شام کے تعلق سے امریکہ اور اس دوستوں کے حقیقی عزائم کو آشکارا کرنے کے لئے کافی ہے۔ امریکہ وزیر جنگ چک ھیگل نے جو شام کے خلاف طبل جنگ بجانے کے بے چین نظر آتے ہیں یہ ظاھر کرنے کے لئے امریکہ اس جنگ میں تنھا نھیں ہے کھا کہ فرانس، ترکی، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت کئی اتحادی ممالک شام کے خلاف کسی بھی قسم کی فوجی کارروائی کی حمایت کے لیے تیار ہیں۔
حقیقت امر یہ کہ امریکہ اور اس علاقائی اور عالمی اتحادیوں نے یہ سوچ کر شام کی حکومت کے سیاسی مخالفین کی تحریک کو دیوار سے لگاکر ان کی جگہ مسلح باغیوں کی حمایت شرع کی تھی وہ نھیں چاھتے تھے کہ شام میں اصلاحات کا عمل پر امن طریقے سے انجام پائے اور خطے کی دیگر حکومتوں کے لئے مثال بن جائے جو چند خاندانوں کے اختیار میں ہے۔
چنانچہ ھم دیکھتے ہیں کہ سعودی عرب اور قطر نے جھاں دور دور تک جمھوریت اور آزادی کا شائبہ تک نھیں ہے، اپنے مضحکہ خیز بیانات میں یہ دعوی کرنا شروع کردیا کہ شام میں آزادی بیان اور جمھوریت کا فقدان ہے لھذا بشار اسد کو فورا حکومت سے علیحدگی اختیار کر لینی چاھیے۔ یہ بات اگر اس خطے میں امریک مفادات اور صھیونی حکومت کے حلیف یعنی ترکی کے وزریراعظم رجب طیب اردغان نے کھی ھوتی تو شائد اتنی مضحکہ خیز معلوم نہ ھوتی اور سعودی عرب اور قطر کی خاندانی اور مورثی حکومتوں پر لوگوں کو انگلیاں اٹھانے کا موقع نہ ملتا۔ لیکن چونکہ یہ باتیں امریکہ کی طرف سے ڈکٹیٹ شدہ تھیں اور آل سعود اور آل ثانی کے اندر اتنی صلاحیت نھیں تھی کہ وہ یہ تشخیص دی سکتے کہ یہ باتیں وہ ترکی وزیراعظم رجب طیب اردوغان سے کھلواتے لھذا جو کچھ امریکہ نے ان سے کھا تھا ایک رٹو طوطے کی طرح انھوں نے کھہ ڈالا۔ حتی امریکی وزیر خارجہ وقت ھلیری کلنٹن بھی قطر اور سعودی عرب کی اس سعادتمندی پر مسکراکر رہ گئیں۔
بھرحال امریکہ کی ماضی کی جنگوں کے سارے اخراجات خلیج فارس کے عرب ملکوں نے اٹھائے تھے اور اب شام کے خلاف جنگ کے لئے بھی یھی عرب ممالک سارا خرچہ اٹھانے کی ذمہ اری اپنے ذمے لے چکے ہیں۔ چنانچہ اوباما اور ان کی ٹیم جب افغانستان اور عراق میں اپنی ناکامیوں کی طرف دیکھتے ہیں تو وہ شام پر حملے کو اپنے لئے ایک اور رسوائی کا پیش خیمہ سمجھتے ہیں لیکن جب وہ سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کی فراخدلانہ پیشکشوں کا مشاھدہ کرتے ہیں تو انھیں شامی عوام اور سفید رنگت والے امریکیوں کی قومی سلامتی ایک نظر آنے لگتی ہے۔ لھذا اوباما علی اعلان یہ کھتے نظر آتے ہیں کہ شام کی حکومت کی جانب سے کیماوی ھتھیاروں کا استعمال امریکہ کی قومی سلامتی پر حملہ ہے۔
ایک اور چیز جسے امریکی حکام اپنے عوام اور عالمی برادری سے چپھارھے ہیں وہ شام میں القاعدہ اور اس سے وابستہ انتھا پسند گروپوں کا کردار ہے۔ جان کیری نے نھایت ڈھٹائی کے ساتھ اس امر کا انکار کیا ہے اور اتنا وضح جھوٹ بولا ہے کہ روس کے صدر پوٹن سفارتی آداب کو بالئے طاق رکھتے ھوئے جان کیری کو جھوٹا انسان کھنے پر مجبور ھوگئے۔ اوباما نے بھی جھوٹ بولتے ھوئے کیماوی ھتھیاروں کے استعمال کو اکیسویں صدی کا المیہ قراردیا اور یہ بھول گئے کہ صرف چند سال قبل یعنی بیسویں صدی کے آخری چند برسوں میں ان کا ایک چھیتا یہ مھلک ھتھیار ببانگ دھل استعمال کر چکا ہے۔ خود امریکی سرکاری دستاویزات کے مطابق عراق کے ڈکٹیٹر کی جانب سے کیمیاوی ھتھیاروں کے استعمال سے متعلق ساری تفصیلات سے امریکی حکام کو باخبر کردیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود اس بھیانک اور غیر انسانی جرم پر امریکی حکام نے صدام کی پیٹھ تھپتھپانےنے کے ساتھ ساتھ ایران کے خلاف جنگ میں اس کا ساتھ دیا اور اس کی دیکھا دیکی دیگر مغربی ممالک خصوصا، فرانس، جرمنی، اور برطانیہ نے جدید ترین سپر اٹینڈرڈ طیارے، ٹی 72 قسم کے ٹینک اور دور مارتوپیں صدام کے اختیار میں دیدیں تاکہ جنگ کا پانسا صدام کے حق میں پلٹ جائے۔
عراق کردستان کے شھر حلبچے میں اپنے کرد عام شھریوں کو کیماوی بمباری کا نشانہ بنانے پر بھی امریکہ مغرب اور انکے عرب اتحادیوں نے صدام کے اس غیر انسانی جرم پر خاموشی اختیار کرلی کہ جس میں چند سیکنڈ میں ھزاروں معصوم بچے، عورتیں بوڑھے لقمہ اجل بن گئے۔ اس خوفناک واقعے کی دل ھلادینے والی تصاویر آج بھی آنکھوں کو اشکبار کردیتی ہیں۔
بھر حال عرب اور اسلامی دنیا ایک بار پھر امریکیوں کے دوغلے پن اور اپنے غدار اور خیانت کار حکمرانوں کی بدولت خطرناک جنگ سے دوچار ھونے والی ہے کہ جس میں سارا جانی اور مالی نقصان مسلم امہ کا ھوگا اور اس کا خرچہ بھی مسلم امہ کی جیب سے دیا جائےگا۔
 

Add comment


Security code
Refresh