www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

شام میں خانہ جنگی ایک ایسے وقت شروع ھوئی جب مغربی حکومتیں اور خطے کے ڈکٹیٹر عرب حکمراں، تیزی سے پھیلنے والی

اسلامی بیداری کی موج خروشاں سے سخت خوفزدہ تھے۔ ان حکومتوں نے باھر سے کنٹرول ھونے والی خانہ جنگی کے ذریعے شام کو اسلامی مزاحمتی بلاک سے خارج کرنے کی کوشش کی تاکہ اس کے بعد اسلامی مزاحمت کی دوسری حکومتوں یا تنظیموں کی نابودی کا راستہ ھموار کیا جا سکے۔
مغرب و اور بعض عرب قوتوں نے اس مقصد کے حصول کیلئے ھر ممکن کوشش کی اور حتی عرب لیگ میں شام کی رکنیت بھی ختم کر ڈالی اور بعض ممالک نے شام کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات بھی منقطع کر لئے۔ لیکن اس مغربی و عربی گٹھ جوڑ کے مقابلے میں شام کی حکومت اور قوم نے انتھائی استقامت اور ثابت قدمی کا مظاھرہ کیا جس کے نتیجے میں اسرائیل کی غاصب صھیونیستی حکومت کی مرکزیت میں دسیوں ممالک سے شام کی طرف امڈ آنے والے تکفیری دھشت گردوں کو پے در پے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ تکفیری دھشت گرد دو بڑے گروھوں یعنی "فری سیرین آرمی" اور "النصرہ فرنٹ" کی صورت میں شام حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ھوئے۔ ان تکفیری دھشت گردوں کی مسلسل شکست نے ان کے مغربی و عرب حامیوں کو اس نتیجے پر پھنچا دیا ہے کہ ان کی تمام منصوبہ بندیاں اور کوششیں بے فائدہ ثابت ھوئی ہیں اور مسلح دھشت گرد گروھوں کے خلاف شام کی حتمی فتح اور کامیابی بھت نزدیک ہے۔ یہ خبر انتھائی تیزی سے خطے کا توازن اسرائیل مخالف اسلامی مزاحمتی بلاک کے حق میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور خطہ ایک ایسی سیاسی صورتحال سے دوچار ھو سکتا ہے جس گریز کبھی بھی ممکن نہ ھوگا۔
یہ امر عالمی سطح پر امریکہ اور اس کے حامیوں کی کمزوری کو ظاھر کرتا ہے۔ البتہ اس وقت تک بھی شام کے حکومت مخالف مسلح دھشت گردوں کی حامی حکومتیں ان کی شکست کے نتیجے میں پیدا ھونے والے اثرات سے محفوظ نھیں رھیں۔ مثال کے طور پر قطر کے سابق امیر جنھوں نے شام کے مسلح دھشت گروھوں کی حمایت میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا تھا اپنا عھدہ چھوڑنے پر مجبور ھو گئے اور اپنی جگہ اپنے جوان ولیعھد کو دے دی۔ اسی طرح ترکی میں رجب طیب اردوغان بھی شدید سیاسی مشکلات سے دوچار ھو چکے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے عرب اور مغربی اتحادیوں نے اب تک اس حقیقت کو قبول نھیں کیا کہ اعراب اور اسرائیل کے درمیان انجام پانے والی گذشتہ جنگوں کے برخلاف جن میں امریکی کی جانب سے وسیع پیمانے پر انٹیلی جنس اور فوجی امداد کے بل بوتے پر عرب ممالک پر حملہ کرکے اسرائیل اپنے اھداف حاصل کرنے میں کامیاب رھا تھا، اس بار ان کا مقابلہ اسلامی مزاحمتی بلاک سے ہے جس نےانقلاب اسلامی ایران کو اپنا رول ماڈل بنا رکھا ہے۔
اسلامی مزاحمتی بلاک تھاجو اسرائیل کے مدمقابل تمام معرکوں خصوصا22 روزہ جارحیت، 33 معرکہ آرائی اور 8 روزہ جنگ میں کامیابی سے ھمکنار ھوا اور شام کا محاذ بھی اسی اصول کی پیروی کرتا ھوا نظر آتا ہے۔
عرب اور مغربی شیطانی گٹھ جوڑ کو اب تک یہ دردناک خبر بھی قبول کر لینی چاھئے کہ شام، بیرونی حمایت یافتہ مسلح دھشت گردگروھوں کے مقابلے میں حتمی کامیابی سے ھمکنار ھوا چاھتا ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کر لینے سے یہ شیطانی قوتیں اپنی گذشتہ حماقتوں اور غلطیوں کے تکرار یعنی خطے میں ایک نئی جنگ کے آغاز سے بچ سکتی ہیں۔ کیونکہ اس نئی جنگ کے آغاز کی صورت میں امریکہ، مغرب اور اس کے مقامی عرب اتحادیوں کو ایسی زک پھنچے گی جس کے نتیجے میں مشرق وسطی جیسے اسٹریٹجک اھمیت کے حامل خطے میں ان کا سیاسی کردار اور اثرورسوخ ھمیشہ کیلئے ختم ھو جائے گا اور یہ امر بین الاقوامی سطح پر نیو ورلڈ آرڈر میں بنیادی تبدیلیوں کا پیش خیمہ بن جائے گا۔
اس نئے ورلڈ آرڈر کے معرض وجود میں آنے کے بعد امریکہ کے زیرتسلط بین الاقوامی اداروں خصوصا اقوام متحدہ اور سیکورٹی کونسل میں اصلاحات کی راہ بھی فراھم ھو جائےگی جس کے نتیجے میں مغربی قوتیں اپنے پاس موجود غیرعادلانہ پاورز کی بدولت اقوام عالم پر اپنا تسلط قائم رکھنے کی صلاحیت بھی کھو دیں گی۔
اس میں کوئی شک نھیں کہ امریکہ اور اس کے مغربی و عربی اتحادی شام حکومت پر کیمیائی ھتھیاروں کے استعمال جیسے اسلامی مزاحمتی بلاک کے خلاف جھوٹے الزامات اور زھریلی پروپیگنڈے کے ذریعے خطے کی صورتحال کو اپنے حق میں تبدیل نھیں کر سکتے۔
اگر عرب اور مغربی گٹھ جوڑ کی جانب سے شام کے خلاف فوجی کاروائی کی دھمکی کو عملی جامہ پھنایا جاتا ہے تو انھیں بھت جلد اپنے اس عمل پر شرمندگی اور پشیمانی کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ شام پر فوجی حملے کے فورا بعد اسرائیل کی غاصب صھیونیستی حکومت جس کے تحفظ کیلئے یہ سارا کھیل کھیلا جا رھا ہے انتھائی شدید خطرات سے دوچارھوتا نظر آئے گی۔
امریکہ اور اس کے مغربی و عرب پٹھو شام کے خلاف جنگ کے آغاز سے شام حکومت کے خلاف نبردآزما اپنے حمایت یافتہ مسلح دھشت گرد گروھوں کی شکست کو فتح میں تبدیل نھیں کر سکتے کیونکہ اگر ایسا ممکن ھوتا تو یہ شیطانی گٹھ جوڑ دو سال تک ھاتھ پر پاتھ رکھ کر نہ بیٹھا ھوتا۔
شام کے بارے میں امریکہ اور اس کے مغربی و عرب اتحادیوں کی نظر میں واحد چارہ یھی تھا کہ اپنے حمایت یافتہ دھشت گرد تکفیری گروھوں کو شام کے خلاف سرگرم کر دیا جائے جس کے نتیجے میں خطے میں وسیع پیمانے پر ایک مذھبی اور فرقہ وارانہ جنگ شروع ھو جائے۔ انھوں نے یہ راستہ بھی آزما لیا ہے جس میں انھیں شدید شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اب وہ غصے اور انتقام کی آگ میں جل رھے ہیں اور جنون آمیز رویئے اپنا رھے ہیں۔
شام میں حکومت مخالف مسلح دھشت گرد عناصر کی شکست امریکہ اور اس کے مغربی و عرب پٹھووں کیلئے ایک خوفناک خواب بن چکا ہے جس نے ان کی نیندیں حرام کر ڈالی ہیں۔ انھیں شام کی حکومت اور قوم کے خلاف سازشوں کی سزا ضرور ملے گی جو خطے میں اور بین الاقوامی سطح پر طاقت کے مراکز کھونے اور اپنے اتحادی ممالک کو ھاتھ سے گنوانے کی صورت میں ظاھر ھوگی۔
امریکہ اور اس کے اتحادی مغربی ممالک اپنی گذشتہ تسلط پسندانہ اور متکبرانہ پالیسیوں کے باعث آج شدیدترین نظریاتی، سیاسی اور اقتصادی بحرانوں کا شکار نظر آتے ہیں جس کے باعث وہ ایک لمبی جنگ کے ھرگز متحمل نھیں ھو سکتے۔ اور اگر اپنی غلطیوں کی وجہ سے ایک ایسی جنگ کی دلدل میں پھنس گئے جھاں ان کی مخالف قوتیں بھت زیادہ جنگی جذبے سے سرشار ہیں تو یقینا انھیں مزید ذلت اور زیادہ بڑی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
 

Add comment


Security code
Refresh