www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

ھرانسان (بلااستثنا) اپنی خداداد فطرت سے، اچھے اور برے کام میں فرق کو محسوس کرتا ہے اور نیک کام کو (اگرچہ اس پر عمل نہ کرتا ھو)اچھا اور لازم العمل جانتا ہے اور برے کام کو(اگر چہ اس میں پھنسابھی ھو)برااورلازم الاجتناب جانتا ہے ۔

اس میں  کسی قسم کا شک و شبھہ نہیں ہے کہ اچھائی اور برائی ،نیکی اور بدی ان دو نوں صفتوں میں  موجود سزا اور جزاکی جھت سے ہے اور اس میں  کوئی شک و شبھہ نھیں ہے کہ اس دنیا میں  کوئی ایسادن نھیں ہے جس میں اچھے اور برے انسانوں کوان کی اچھائی اور برائی کی سزا اور جزا دی جائے، کیونکہ ھم اپنی آنکھوں سے مشاھدہ کرتے ہیں کہ بھت سے نیک انسان اپنی زندگی انتھائی تلخی اور سختی میں  گزارتے ہیں اور بھت سے برے انسان جو گناہ اورظلم وستم میں آلودہ ھیں لیکن پھر بھی خوشی اورآرام وآسائش میں زندگی گزارتے ہیں ۔

 اس بناءپر ،کہ اگر انسان کے لئے اپنے مستقبل میں  اور اس دنیا کے علاو دوسری دنیا میں  ایک ایسا دن نہ ھو کہ جس میں  اس کے نیک اور برے اعمال کا حسا ب کر کے اسے مناسب سزا و جزا دی جائے ،یہ نظریہ (نیک کام اچھا اور واجب الاطاعت ہے اور برا کام برا اور واجب الاجتناب ہے)انسان کی فطرت میں  قرار پایا ہے ۔

  یہ تصور نھیں کیا جانا چاھئے کہ نیک کام کرنے والوں کی جزاجسے انسان اچھا سمجھتا ہے۔ یہ ہے کہ اس کے ذریعہ معاشرہ کے انتظامات بر قرار ھوتے ہیں اور نیک لوگ زندگی کی سعادت حا صل کرتے ہیں اور نتیجہ میں اس منافع کا ایک حصہ خودنیکی کرنے والے کو ملتا ہے اوراسی طرح بدکار اپنے نا مناسب کردار سے،معاشرہ کو درھم برھم کردیتا ہے اوراسکا نا مناسب کام آخرکار خود اس کو بھی اپنی لپیٹ میں  لے لیتا ہے،کیونکہ یہ تصور اگر چہ سماج کے پسماندہ اور مفلس طبقہ کے لوگوں  میں  کسی حد تک پایا جاتاہے .لیکن جو لوگ اپنی قدرت کے عروج پر پھنچے ہیں اور معاشرہ کا انتظام وخلل ان کی خوشبختی اور کامیابی میں موشر نھیں ہے،بلکہ معاشرہ میں  جس قدرافراتفری اورفساد ھو اور لوگوں کے حالات بدتر ھوں وہ زیادہ خوشحال اور کامیاب ھوتے ہیں اور کوئی دلیل نھیں ہے کہ ان افراد کی فطرت نیک کام کو نیک اوربرے کا م کو برا جانے!یہ بھی تصورنھیں کرنا چاھئے کہ یہ لوگ اگر چہ اپنی چند روزہ زندگی میں  کامیاب رھے ھوں، لیکن کسی وجہ سے ان کا نام ھمیشہ کے لئے عام طور پر آنے والی نسلوں کی نظروں میں  ننگ و عار سمجھاجائے گا، کیونکہ ان کے نام کا ننگ وعار کی صورت میں  ظاھر ھونا اور لوگوں کا ان کے بارے میں  خیال رکھنا اس وقت ھوگا، جب وہ مرچکے ھوں گے اور اس ننگ و عار کا ان کی اس دنیا میں گئے خوشحال او رلذت اندوز زندگی پر کسی قسم کا اثر نھیں پڑے گا۔

 اس صورت میں  کوئی دلیل نہیں ھوگی کہ انسان نیک کام کو اچھا جان کر اسے انجام دے اور برے کام کو براجان کراس سے پرھیز کرے،اور اس طرح مذکورہ نظریہ کا قائل ھو۔ اگر معاد کا وجود نہ ھو تو یہ اعتقاد قطعا ایک خرافائی اعتقاد ھوگا۔

 لہذا ھمیں خالق کائنات کی طرف سے ھماری فطرت میں ودیعت کئے گئے اس مقدس اورمستحکم اعتقاد سے یہ سمجھنا چاھئے کہ معاد کا ھوناضروری ہے اور انسان کے لئے ضرور ایک دن ایسا آئے گا، جس دن اسے خالق کائنات کے حضور اس کی رفتار و کردار کے حساب و کتاب کے لئے پیش کیا جائے گا جھاں پر اسے نیک کاموں کی جزااوربرے کاموں کی سزادی جائے گی۔

Add comment


Security code
Refresh