خداوندعالم نے انسان کے لئے اس دنیا کو امتحان گاہ [1]اور آزمائش کی جگہ قرار دیا ھے، اس نے جہاں انسان کو جنبہ خیر عنایت کیا وھیں اس کو جنبہ شر بھی دیا ھے تاکہ وہ اس کے ذریعہ امتحان دے سکے،
اس کے ساتھ ساتھ خداوندعالم نے اس انسان کو عقل بھی عنایت کی ھے جس سے وہ اچھائی اور برائی کے درمیان امتیاز پیدا کرسکے، اس کے علاوہ خدا نے انبیاء اور مرسلین کو بھی بھیجا تاکہ خیر و شرّ کے راستہ کو معین کردیں، اس کے بعد خداوندعالم نے حق کی پیروی کو واجب قرار دیا اور شرّ اور برائی سے پرھیز کر نے کا حکم دیدیا، اس کے بعد انسان کو ارادہ و اختیار دیاتاکہ وہ اپنے ارادہ سے نیکیوں یا برائیوں کے انجام دینے پر عقاب و ثواب مستحق ھو سکے، ارشاد خداوندی ھوتا ھے:
"الَّذِی خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاةَ لِیَبْلُوَکُمْ اٴَیُّکُمْ اٴَحْسَنُ عَمَلاً"[2]
”جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمھیں آزمائے کہ تم میں سے کام میں سب سے اچھا کون ھے “۔
ایضاً:
"وَبَلَوْنَاہُمْ بِالْحَسَنَاتِ وَالسَّیِّئَاتِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُونَ"[3]
”اور دکھ (دونوں طرح)سے آزمایا تاکہ وہ (شرارت سے )بازآجائیں“۔
نیز ارشاد ھوتا ھے:
"وَ نَبْلُوکُم بِالشَّرِّ وَ الْخَیْرِ فِتْنَةً وَ اِٴلَیْنَا تُرْجَعُونَ"[4]
”اور ھم تمھیں مصیبت و راحت میں امتحان کی غرض سے آزماتے ھیں اور (آخر کار) ھماری ھی طرف لوٹائے جاوٴ گے “۔
اسی بنا پر دنیاوی زندگانی میں مختلف قسم کی پریشانیاں اور سختیاں، بیماری، صحت ، مالداری اور غربت اور برائیوں کا رجحان اور نیکیوں سے بے رغبتی پائی جاتی ھے، یہ امتحان اور آزمائش ھے، اوریہاںپر کوئی ایسی چیز نھیں ھے جو جزا یا سزا بن سکے، اور چونکہ فرائض اور واجبات کا ھونا اس بات کا تقاضا کرتا ھے کہ اس کے لئے جزا یا سزا ھو اسی لئے روز قیامت کا ھونا ضروری ھے تاکہ نیکی انجام دینے والوں کو نیک جزا دی جائے اور برائی کرنے والوں کو سزا دی جائے، اور اگر ایسا نہ ھو تو پھر فرائض اور واجبات کا کوئی فائدہ نھیں ھوگا اور واجبات و تکالیف لغو و بےکار ھوجائیں گے۔
اس سلسلہ میں علامہ فاضل مقداد ۺکہتے ھیں: اگر روز قیامت کا عقیدہ صحیح اور حق نہ ھو تو پھر واجبات و فرائض کا وجود قبیح اور بُرا ھوگا، اور واجبات و فرائض قبیح نھیںھیں تو پھر ماننا پڑے گا کہ عقیدہ قیامت بھی صحیح اور حق بجانب ھے کیونکہ فرائض اور تکالیف ایک مشقت اور کلفت ھے، پس مشقت بغیر معاوضہ(اور بدلہ) کے ظلم ھے، اور یہ بدلہ فرائض کی ادائیگی کے وقت نھیں ھے، تو اس کے لئے دوسرے جہان کا ھونا ضروری ھے تاکہ انسان کو اپنے اعمال کا بدلہ مل سکے، ورنہ تو واجبات اور محرمات کا معین کرنا ظلم ھوجائے گا، جو قبیح اور بُرا ھے، خدا ظلم سے پاک و پاکیزہ ھے۔[5]
وجود قیامت ،عدل الٰھی کا تقاضا ھے
علامہ نصیر الدین طوسیۺ صاحب قیامت کو ثابت کرنے کے لئے کہتے ھیں:”وعدہٴ (خدا) اور اس کی حکمت کا تقاضا یہ ھے کہ قیامت کا وجود ھو“۔ اس جملہ کی شرح میں علامہ حلی ۺ فرماتے ھیں: ”چونکہ خداوندعالم نے انسان سے ثواب و جزا کا وعدہ کیا ھے اسی طرح عذاب کا بھی وعدہ کیا ھے، تو اس صورت میں قیامت کا ھونا ضروری ھے تاکہ خداوندعالم اپنے وعد و وعید پر وفا کرے۔“[6]
کیونکہ اس بات میں کسی بھی انسان کو کوئی شک و شبہ نھیں ھے کہ انسان اس چند روزہ زندگی میں اپنے اعمال کی جزا یا سزا تک نھیں پہنچتا، لہٰذا وہ متدین افراد جنھوں نے اپنی عمر عبادت و بندگی میں گزاردی ھواور معاشرہ کی فلاح و بہبودی کے لئے زحمت اٹھائی ھو ، اس سلسلہ میں مشکلات، سختیاں اور پریشانیاں برداشت کی ھوں ، تو کوئی بھی حکومت اس کے اعمال کی جزا اور ثواب نھیں دے سکتی، اسی طرح انسانیت پر بڑے بڑے ظلم و ستم کرنے والے مجرمین کو جنھوں نے دوسروں پر ظلم و ستم کی وجہ سے اس دنیا میں مزے اڑائے ھوں ،بعض اوقات تو مجرم غائب ھوجاتے ھیں اور اگر گرفتار بھی کرلئے جائیں تو ان کی سزا ان کے جرائم سے بہت کم ھوتی ھے، مثلاً اگر اس نے پچاس انسانوں کا خون بہایا ھو تو اگر اس کی سزا میں اس کو سولی بھی دی جائے تو ایک انسان کا بدلہ ھوا ھے، اور باقی جرائم کا بدلہ باقی ھے، لہٰذا اس دنیا میں کوئی ایسی طاقت نھیں ھے جو اس کے تمام جرائم کی سزا دے سکے۔
لیکن جب انسان مرجاتا ھے اور ظالم و مظلوم، صالح اور مفسد بغیر عادلانہ ثواب و عقاب کے قبروں کے حوالے کردئے جاتے ھیںیعنی نیکی کرنے والوں کو ثواب نھیں ملتا اور ظلم و ستم کرنے والوں کو درد ناک عذاب نھیں ملتا، پس یہ چیز اس وعدہٴ الٰھی کے خلاف ھے جس کی بنا پر نیکی کرنے والوں اور ظلم و ستم کرنے والوں کے درمیان فرق قائم کرے اور نیک افراد کو ثواب دے اور برے لوگوں کو عذاب دے، اور چونکہ یہ کام اس دنیا میں نھیں ھوتا ھے لہٰذا ایک ایسی عدالت (قیامت) کا ھونا ضروری ھے جہاں پر خدا کا وعدہ عملی طور پر پورا ھو، اور انبیاء، اولیاء ، شہداء اور خدا کے نیک بندوں کے ساتھ کیا ھوا خدا کا وعدہ صادق ھو، اور ظالمین و مفسدین سے انتقام لیا جائے۔
چنانچہ قرآن کریم نے اس دلیل کو وضاحت اور تفصیل کے ساتھ بیان کیا ھے، ان لوگوں کے مقابلہ میں جو نیک اور برے افراد کو برابر سمجھتے تھے:
۱۔ جن آیات میں گناہگار اور اطاعت کرنے والوں میں روز قیامت فرق کیا جائے گا تاکہ ثواب و عذاب ، وعد و وعیدمحقّق ھو، اور یہ سب کچھ عدل الٰھی کا تقاضا ھے۔
ارشاد رب العزت ھوتا ھے:
" إِلَیْہِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیعًا وَعْدَ اللهِ حَقًّا إِنَّہُ یَبْدَاٴُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُہُ لِیَجْزِیَ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ بِالْقِسْطِ وَالَّذِینَ کَفَرُوا لَہُمْ شَرَابٌ مِنْ حَمِیمٍ وَعَذَابٌ اٴَلِیمٌ بِمَا کَانُوا یَکْفُرُونَ"[7]
”تم سب کو (آخر) اسی کی طرف لوٹنا ھے خدا کا وعدہ سچا ھے وھی یقینا مخلوق کو پہلی مرتبہ پیدا کرتا ھے پھر (مرنے کے بعد)وھی دوبارہ زندہ کرے گا تاکہ جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے اچھے کام کئے ان کو انصاف کے ساتھ جزائے خیر عطا فرمائے گا ۔ اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کے لئے ان کے کفر کی سزامیں پینے کو کھولتا ھوا پانی اور دردناک عذاب ھوگا“۔
نیز ارشاد الٰھی ھوتا ھے:
"فَاٴَمَّا مَنْ طَغَیٰ وَآثَرَ الْحَیَاةَ الدُّنْیَا فَاِٴنَّ الْجَحِیمَ ھِیَ الْمَاٴْوَیٰ وَاٴَمَّامَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ وَ نَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوَیٰ فَاِٴنَّ الْجَنَّةَ ھِیَ الْمَاٴْوَیٰ"[8]
”اور جس نے دنیا کی زندگی کو ترجیح دی تھی اس کا ٹھکانا تو یقینا دوزخ ھے ۔مگر جو شخص اپنے پرور دگار کے سامنے کھڑے ھونے سے ڈرتا اور جولوگوں کونا جائز خواہشوں سے روکتا رھا۔تو اس کا ٹھکا نا یقینا بہشت ھے “۔
۲۔ جن آیات میں دونو ں کے برابر ھونے کو استفہام انکاری کے ذریعہ بیان کیا گیا ھے ۔
ارشاد پروردگار ھوتا ھے:
"اٴَفَمَنْ کَانَ مُؤْمِنًا کَمَنْ کَانَ فَاسِقًا لاَیَسْتَوُونَ"[9]
”تو کیا جو شخص ایمان دار ھے اس شخص کے برابر ھو جائے گا جو بدکار ھے(ہر گز نھیں یہ دونوں) بر ابر نھیں ھوسکتے“۔
نیز خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے:
"اٴَمْ نَجْعَلُ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ کَالْمُفْسِدِینَ فِی الْاٴَرْضِ اٴَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِینَ کَالْفُجَّارِ"[10]
”کیا جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور (اچھے اچھے ) کام کئے ان کو ھم ان لوگوں کے برابر کردیں جو روئے زمین میں فساد پھیلایا کرتے ھیں ۔یا ھم پرھیزگاروں کو مثل بدکاروں کے بنادیں“۔
ایضاً:
"اٴَمْ حَسِبَ الَّذِینَ اجْتَرَحُوا السَّیِّئَاتِ اٴَنْ نَجْعَلَہُمْ کَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَحْیَاہُمْ وَمَمَاتُہُمْ سَاءَ مَا یَحْکُمُونَ"[11]
”جو لوگ برے کام کرتے ھیں کیا وہ یہ سمجھتے ھیں کہ ھم انھیں لوگوں کے برابر کر دیں گے جو ایمان لائے اور اچھے اچھے کام بھی کرتے رھے اور ان سب کا جینا مرنا ایک ساں ھوگا یہ لوگ (کیا ) برے حکم لگاتے ھیں “۔
" إِنَّ لِلْمُتَّقِینَ عِنْدَ رَبِّہِمْ جَنَّاتِ النَّعِیمِ اٴَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِینَ کَالْمُجْرِمِینَ مَا لَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُونَ"[12]
”بیشک پر ھیز گار لوگ اپنے پروردگار کے ہاں عیش و آرام کے باغوں میں ھوں گے ۔تو کیا ھم فرنبرداروں کو نافرمانوں کے برابر کر دیں گے (ہرگزنھیں)تمھیں کیا ھوگیا ھے تم کیسا حکم لگاتے ھو“۔
بعد زندہ (آباد)کرتا ھے اور اسی طرح تم لوگ بھی(مرنے کے بعد) نکالے جاوٴگے “۔
"وَاللهُ الَّذِی اٴَرْسَلَ الرِّیَاحَ فَتُثِیرُ سَحَابًا فَسُقْنَاہُ إِلَی بَلَدٍ مَیِّتٍ فَاٴَحْیَیْنَا بِہِ الْاٴَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا کَذَلِکَ النُّشُورُ"(سورہٴ فاطر/۹)
”اور خدا ھی وہ (قادر و توانا) ھے جو ھواوٴں کو بھیجتا ھے تو ھوائیں بادلوں کو اڑا ئے لئے پھرتی ھیں ،پھر ھم اس بادل کو مردہ (افتادہ)شہر کی طرف ہنکادیتے ھیں پھر ھم اس کے ذریعہ سے زمین کو اس کے مرجانے کے بعد شاداب کرتے ھیں یونھی (مردوں کو قیامت میں) جی اٹھنا ھوگا“۔
" وَمِنْ آیَاتِہِ اٴَنَّکَ تَرَی الْاٴَرْضَ خَاشِعَةً فَإِذَا اٴَنزَلْنَا عَلَیْہَا الْمَاءَ اہْتَزَّتْ وَرَبَتْ إِنَّ الَّذِی اٴَحْیَاہَا لَمُحْیِی الْمَوْتَی إِنَّہُ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ"(سورۂ فصلت/ ۳۹)
”اس کی( قدرت کی )نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ھے کہ تم زمین کو خشک و بے گیاہ دیکھتے ھو پھر جب ھم اس پر پانی برسادیتے ھیں تو لہلہانے لگتی ھے اور پھول جاتی ھے جس(خدا) نے (مردہ)زمین کو زندہ کیا وہ لقیناً مردوں کوجلائے گا وہ ہر چیز پر قادر ھے“۔
" فَانظُرْ إِلَی آثَارِ رَحْمَةِ اللهِ کَیْفَ یُحْییِ الْاٴَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا إِنَّ ذَلِکَ لَمُحْیِی الْمَوْتَی وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ"[13]
”غرض خدا کی رحمت کے آثار کی طرف دیکھو تو کہ وہ کیونکر زمین کو اس کی پڑتی ھونے کے بعد آباد کرتا ھے۔بیشک یقیناوھی مردوں کا زندہ کرنے والا اور وھی ہر چیز پر قادر ھے“۔
نیز ارشاد قدرت ھوتا ھے:
"وَہُوَ الَّذِی یُرْسِلُ الرِّیَاحَ بُشْرًا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِہِ حَتَّی إِذَا وَالَّذِی نَزَّلَ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً بِقَدَرٍ فَاٴَنشَرْنَا بِہِ بَلْدَةً مَیْتًا کَذَلِکَ تُخْرَجُونَ۔"(سورہٴ زخرف/۱۱۔)
”اور جس نے ایک( مناسب)اندازے کے ساتھ آسمان سے پانی بر سایا پھر ھم ھی نے اس کے ذریعہ سے مردہ (پڑتی)شہر کو زندہ(آباد)کیا اسی طرح تم بھی (قیامت کے دن قبروں سے) نکالے جاوٴگے“۔
" رِزْقًا لِلْعِبَادِ وَاٴَحْیَیْنَا بِہِ بَلْدَةً مَیْتًا کَذَلِکَ الْخُرُوجُ"(سورہٴ ق/۱۱۔)
”(یہ سب کچھ) بندوں کی روزی دینے کے لئے (پیدا کیا)اور پانی ھی سے ھم نے مردہ شہر (افتادہ زمین ) کو زندہ کیا اسی طرح (قیامت میں مردوں کو نکلنا ھوگا“۔
"إِلَیْہِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیعًا وَعْدَ اللهِ حَقًّا إِنَّہُ یَبْدَاٴُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُہُ لِیَجْزِیَ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ بِالْقِسْطِ وَالَّذِینَ کَفَرُوا لَہُمْ شَرَابٌ مِنْ حَمِیمٍ وَعَذَابٌ اٴَلِیمٌ بِمَا کَانُوا یَکْفُرُونَ"(سورہٴ یونس /۴)
”تم سب کو (آخر) اسی کی طرف لوٹنا ھے خدا کا وعدہ سچا ھے وھی یقینا مخلوق کو پہلی مرتبہ پیدا کرتا ھے پھر (مرنے کے بعد)وھی دوبارہ زندہ کرے گا تاکہ جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے اچھے کام کئے ان کو انصاف کے ساتھ جزائے خیر عطا فرمائے گا ۔اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کے لئے ان کے کفر کی سزائیں پینے کو کھولتا ھواپانی اور دردناک عذاب ھوگا“۔
" قُلْ ہَلْ مِنْ شُرَکَائِکُمْ مَنْ یَبْدَوٴُاالْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُہُ قُلْ اللهُ یَبْدَاٴُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُہُ فَاٴَنَّا تُؤْفَکُونَ"(سورہٴ یونس/ ۳۴)
”(اے رسول ان سے )پوچھو کہ تم نے جن لوگوں کو (خدا کا ) شریک بنایا ھے کوئی بھی ایسا ھے جو مخلوقات کو پہلی بار پیدا کرے پھر ان کو (مرنے کے بعد )دوبارہ زندہ کرے (وہ توکیا جواب دیں گے) تمھیں کھو کہ خدا ھی پہلے بھی پیدا کرتاھے پھر وھی دوبارہ زندہ کرتا ھے تو کدھر تم الٹے چلے جا رھے ھو “۔
" اٴَمَّنْ یَبْدَوٴُاالْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُہُ وَمَنْ یَرْزُقُکُمْ مِنْ السَّمَاءِ وَالْاٴَرْضِ اٴَءِ لَہٌ مَعَ اللهِ قُلْ ہَاتُوا بُرْہَانَکُمْ إِنْ کُنتُمْ صَادِقِینَ"(سورہٴ نمل آیت۶۴)
”بھلا وہ کون ھے جو خلقت کو نئے سرے سے پیدا کرتا ھے پھر اسے دوبارہ (مرنے کے بعد )
پیدا کرے گاان لوگوں کو آسمان و زمین سے رزق دیتا ھے تو کیا خدا کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ھے (ہرگز نھیں اے رسول ) تم ان مشرکین سے کہدو کہ اگر تم سچے ھو تو اپنی دلیل پیش کرو“۔
" اللهُ یَبْدَوٴُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُہُ ثُمَّ إِلَیْہِ تُرْجَعُونَ"(سورہٴ روم /۱۱۔)
”خدا ھی نے مخلوقات کو پہلی بار پیدا کیا پھر وھی دوبارہ (پیدا) کرے گا پھر تم سب لوگ اسی کو لوٹائے جاوٴگے“۔
" وَاللهُ اٴَنْبَتَکُمْ مِنْ الْاٴَرْضِ نَبَاتًا ثُمَّ یُعِیدُکُمْ فِیہَا وَیُخْرِجُکُمْ إِخْرَاجًا" (سورہٴ نوح /۱۷،۱۸)
”اور خدا ھی نے تم کو زمین سے پیدا کیا پھر تم کو اسی میں دوبارہ لے جائے گا اور (قیامت میں اسی سے)نکال کھڑا کرے گا “۔
"وَھُوَ الْغَفُورُ الْوَدُوْدُ"(سورہٴ بروج آیت۱۳)
”اور وھی دوبارہ( قیامت میں )زندہ کرے گا“
حوالہ جات:
[1] سورہٴ دخان آیات ۳۸تا۴۰۔
[2] جیسا کہ امام صادق علیہ السلام سے روایت ھے : ”الدنیا مزرعة الآخرة“ (دنیا آخرت کی کھیتی ھے)۔(مترجم)
[3] سورہٴ ملک آیت۲۔
[4] سورہٴ اعراف آیت۱۶۸۔
[5] سورہٴ انبیاء آیت۳۵۔
[6] النافع یوم الحشر فی شرح الباب الحادی عشر، / فاضل مقداد، ص ۸۶تا ۸۷، انتشارات زاہدی، اسی طرح علامہ حلی نے اپنے کتاب ”مناہج الیقین فی اصول الدین میں بیان کیا ھے۔
[7] کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد/ علامہ حلی رحمة اللہ علیہ ص۴۳۱۔
[8] سورہٴ یونس آیت۴۔
[9] سورہٴ نازعات آیت۳۷،۴۱۔
[10] سورہٴ سجدة آیت۱۸۔
[11] سورہٴ ص آیت۲۸۔
[12] سورہٴ جاثیة آیت۲۱۔
[13] سورہٴ قلم آیت ۳۴، ۶ ۳۔