www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

شادی بیاہ کا سیزن شروع ھونے کے ساتھ بری رسومات عام ھونے سے ھزاروں بیٹیاں شادی کی اصل عمر کو پار کر چکی ہیں اور ان کے والدین اپنی بیٹیوں کی شادی کیلئے ترس رھے ہیں۔

شادی کے دوران سرمایہ دار کھلے عام اپنی دولت کی نمائش کر کے غریب لڑکیوں کو خون کے آنسو ں رونے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ دنیا میں آئے روز نمود و نمائش ، فضول خرچی ، بدعات ، سرمایہ داروں کی طرف سے نئے نئے اخراجات اور جھیز کی لعنت کو فروغ دینے کا اثر غریب خاندانوں کی بیٹیوں پر پڑ رھا ہے۔
شادی کے اخراجات میں بے تحاشا اضافہ اور بری رسومات عام ھو جانے سے جھاں ایک طرف دنیا میں لاکھوں بیٹیاں شادی کی اصل عمر پار کر چکی ہیں وھیں ان کے والدین اپنے بیٹیوں کی شادی کیلئے ترس رھے ہیں۔ جبکہ سماجی بدعات نے پھلے ھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔
منشیات کی وبا، نشہ آور ادویات کا استعمال ، نقب زنی ، اورقمار بازوں کی وجہ سے شریفوں اور کمزوروں کا عزت سے رھنا مشکل ھو گیا ہے۔
ادھر سیاسی لیڈران ، سرکاری انتظامیہ ، اور سماجی کارکنان ان سماجی بدعتوں کو ختم کرنے کے بارے میں زبانی جمع خرچ تو بھت کرتے ہیں تاھم عملی طور پر ان بدعتوں کو ختم کرنے کے لیے اقدامات نھیں کرتے ہیں۔
ان بدعتوں کے ساتھ ساتھ جن بری رسومات نے اپنی لپیٹ میں لیا ہے ان میں جھیز جیسی لعنت بھی شامل ہے جس نے کتنے ھنستے بستے گھرانوں کو تباہ کر دیا ہے۔ جھیز کم لانے یا نہ لانے کے جرم میں کتنی معصوم بچیاں ظلم و ستم برداشت کر رھی ہیں۔
شادیوں اور منگنیوں کی اکثر تقریبات کے دوران ظاھری طور پر بڑی مقدار میں دولت کی نمائش سے غریب لڑکیوں اور لڑکوں کا نکاح روز بروز مشکل ھوتا جا رھا ہے۔
دنیا میں لاکھوں کی تعداد میں ایسی بالغ لڑکیاں ہے جن کے والدین غربت کی زندگی گزار رھے ہیں۔ دولت کی ریل پیل نہ ھونے کی وجہ سے ایسی لڑکیوں کی شادی نھیں ھو پا رھی ہے۔
لوگوں کا کھنا ہے کہ پچھلے کچھ برسوں کے دوران شادی کے اخراجات میں کئی گنا اضافہ ھو چکا ہے جس کیلئے ان امیروں اور کروڑ پتی لوگوں کو ذمہ دار ٹھہرایا جا رھا ہے جو اپنے بچوں کی شادی کے موقع پر حرام کی دولت کو پانی کی طرح بھا دیتے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق دنیا میں بغیر محنت پیسے کمانے والے اور سرمایہ دار اپنی دولت کی نمائش شادیوں اور منگنیوں کی تقریبات میں خرچ کر دیتے ہیں جبکہ منوں کے حساب سے گوشت پکوا کر دعوتیوں کو کھلایا جاتا ہے۔
ان شادیوں کی تقریبات کے دوران پنڈال لگانے پر لاکھوں روپے کا سرمایہ بھی کھلے عام خرچ کیا جاتا ہے۔ شادیوں میں جھیز کا لین دین بڑے پیمانے پر ھو رھا ہے اور کئی ایسی شادیاں ظاھری طور پر سادگی کے ساتھ انجام دیکر سماج میں نام کمانے کی کوشش کی جا رھی ہے جبکہ پردے کے پیچھے ایسی شادیوں میں لاکھوں روپیے کے جھیز کا لین دین ھوتا ہے۔
شادی کے دوران سرمایہ دار کھلے عام اپنی دولت کی نمائش کر کے غریب لڑکیوں کو خون کے آنسو ں رونے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ نئی نئی رسومات کی وجہ سے ان گھرانوں کے جوان بیٹیاں جھاں اپنی شادی کے سپنے سجائے ھوتی ہیں وھیں ان کے والدین اپنی بیٹیوں کی شادی کیلئے ترس رھے ہیں۔
اس وقت غریب اپنی بیٹی کی شادی پر کم ازکم پانچ سے سات لاکھ روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں کیونکہ دولھا اور اس کے والدین شادی کے نام پر باضابطہ طور پر تجارت کرتے ہیں۔
شادی کے بعد لڑکی والوں سے نئی نئی فرمائش کرتے ہیں اور لڑکی والوں سے روپے، زمین ، گاڑی، جائیداد، وغیرہ کا مطالبہ کرتے ہیں اور لڑکی کے غریب والدین کی حثیت پر دھیان نھیں دیتے اور ان کے مطالبات پورے نہ ھونے کی صورت میں جلاد کا روپ دھارلیتے ہیں اور پھر معصوم لڑکی پر ظلم و ستم شروع کر دیتے ہیں جس کے نتیجے میں بعض اوقات لڑکی تنگ آ کر خودکشی کرنے پر مجبور ھو جاتی ہے جبکہ بعض اوقات معصوم لڑکی کو جلاکر ،گلا گھونٹ کر یا زھر دیکر موت کی نیند سلا دیا جاتا ہے۔
اس بات کا سنسنی خیز انکشاف ھوا کہ تیزی کے ساتھ پھیلنے والی بے راہ روی اور بد کاری کا ایک بنیادی سبب شادی کا تجارت بن جانا ہے ۔
اپنی شان و شوکت اور اپنی حرام کی کمائی کی نمائش کرنے کی خاطر ایسے افراد جھیز کو فروغ دے رھے ہیں اپنی بیٹیوں کو ھر قسم کا سامان آسائش سامان دینے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے ھمسائے میں کوئی بھوکا بھی ہے یا اسکی بیٹی دو جوڑے کپڑوں کیلیے ترس رھی ہے۔ اس دوران ایک اندازے کے مطابق جھاں ایک طرف مھنگائی کی مار سے غریب عوام کا حال بُرا ہے وھیں آئے روز کی نئی نئی رسومات اور بدعتوں کی وجہ سے دنیا میں لاکھوں بیٹیاں اپنے ھاتھ پیلے ھونے کے انتظار میں اپنے گھروں میں بوڑھی ھو گئی ہے۔
ادھر سنجیدہ فکر طبقے نے اس پر اپنی گھری تشویش کا اظھار کرتے ھوئے کھا کہ اس پریشان کن صورت حال کی طرف توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے اور اس کے لئے صحافیوں، علماء، مذھبی تنظیموں اور ماھرین تعلیم کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ھوئے اس بارے میں آگے آنا چاھیے ۔تاکہ سماج میں کینسر کی طرح پھیل رھی جھیز کی لعنت پر قابو پایا جاسکے۔
تحریر: سبط محمد حسن
 

Add comment


Security code
Refresh