www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

آج کل نفسہ نفسی کا دور ہے ھمارے معاشرے میں لاتعداد مسائل نے لوگوں کی زندگیوں کو اجیر بنا رکھا ہے ان مسائل میں ایک اھم اور بڑا مسئلہ جھیز بھی ہے

 جو موجودہ دور میں وبا کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ عام طور پر سلیقہ مند ،پڑھی لکھی ،خوب رو اور خوب سیرت لڑکیاں بھی قیمتی جھیز نہ ھونے کے باعث آنکھوں میں دلھن بننے کے خواب بسائے ساری زندگی اپنے ماں باپ کے گھر گزار دیتی ہیں اور پھر ایک خاص عمر کے بعد تو یہ سھانا خواب بھی دیکھنا چھوڑ دیتی ہیں اور اپنی تقدیر سے سمجھوتہ کرکے بقایا زندگی کا جبر مسلسل کی طرح کاٹنے پر مجبور ھو جاتی ہیں دلھن بننا ھر لڑکی کا خواب ھی نھیں اسکا حق بھی ہے لیکن افسوس اسے اس حق سے محض غربت کے باعث محروم کر دیا جاتا ہے سرمایہ داروں کے اس دور میں‌ لڑکیوں کو بھی سرمایہ سمجھا جاتا ہےاور اس سرمایہ کاری کے بدلے انکے گھر والے خصوصا مائیں بھنیں اور زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کےلئے سرگرداں رھتی ہیں۔ وہ لڑکی کا رشتہ لینے جاتی ہیں یا یوں کھیں اپنے بیٹے ،بھائی کا کاروبار کرنے نکلتی ہیں لڑکی سے زیادہ اس کی امارات دیکھتی ہیں، لڑکی والوں کے ھاں جا کر انکا ذھنی کیل کولیٹر بڑی تیزی سے حساب کتاب مکمل کر لیتا ہے اور وھاں‌ سے کچھ ملنے یا نہ ملنے کے بارے میں وہ پوری طرح سے آگاہ ھوجاتی ہیں گاڑی،کوٹھی اور دیگر قیمتی سازوسامان تو ان کی فھرست میں‌لازمی مضامین کی طرح شامل ھوتے ہیں ان کے بعد کھیں جا کر لڑکی کی باقی خوبیوں (جن میں اسکا خوش شکل ھونا بھی شامل ہے) کو پرکھا جاتا ہے چنانچہ جس خوش قسمت لڑکی کے پاس دینے کو قیمتی اور‌ڈھیر سارا جھیز ھو نیز خوبصورت بھی ھو وہ تو بیاھی جاتی ہے اور جن بدقسمت لڑکیوں کے پاس یہ سب کچھ موجود نھیں ھوتا وہ سوائے اپنی تقدیر سے گلہ کرنے کے اور کچھ نھیں کر سکتی۔
ھمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نھیں جو دیکھنے میں انتھائی با اخلاق و مذھبی ہیں اور اٹھتے بیٹھتے آیات قرآنی اور ‌احادیث نبوی بیان کرتے نھیں تھکتے لیکن معاملہ اپنے بیٹے کی شادی کا ھو تو ساری آیتیں ،حدیثیں بھلا کر اس کے دام وصول کرنے لگتے ہیں ۔
میرے ایک دوست شکستہ دلی کے ساتھ بتا رھے تھے کہ ان کی خوش شکل و نیک سیرت بیٹی(جو فائنل ائیر کی طالبہ ہے ،کو دیکھنے لڑکے کے ماں باپ اور انکی شادی شدہ بیٹی اپنے شوھر سمیت ان کے گھر گئے لڑکے کے ماں باپ پانچ وقت کے نمازی ہیں اور دوران گفتگو زیادہ تر اسلام ھی کے حوالے سے باتیں کرتے رھتے لیکن ساتھ ھی ساتھ وہ اور ان کی شادی شدہ بیٹی گھر کے درودیوار اور ھر چیز کا بغور جائزہ بھی لیتے رھے خوب خاطر تواضع کروا کر بغیر کوئی جواب دیئے واپس چلے گئے ۔
بعد ازاں انھوں‌ نے کسی کے ذریعے کھلوا بھیجا کہ انھیں لڑکی اور لڑکی کے گھر والے تو بے حد پسند آئے لیکن لڑکی پڑھی لکھی زیادہ ہے اس لئے وہ رشتہ نھيں کر رھے حالانکہ انکے بقول انکا بیٹا ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہے۔ پھر خود وہ یعنی لڑکے کے ماں باپ بھی علمی ذوق رکھتے تھے۔
سوچنے کی بات ہے کہ لڑکی اگر ان پڑھ مھذب ھوتی ہے تو اس قسم کی پڑھی لکھی فیملی کا اسے اپنی بھو بنانے سے انکار ایک معقول وجہ ھوسکتی تھی لیکن اسکا تعلیم یافتہ ھونا ھی ایک عیب کیوں بن کر رہ گیا ۔
 بات دراصل یہ ہے کہ میرے وہ شریف النفس دوست کے پاس انھیں دینے کےلئے وہ مال و جواھر نھیں ہیں جن کا عکس انھوں نے لڑکے کے نیک والدین کی آنکھوں میں حرص ‌بن کر چمکتے ھوئے دیکھا اور محسوس کیا تھا-
گویا پیسے کی کمی اسکی خوبصورت،سلیقہ شعار ،تعلیم یافتہ بیٹی کا رشتہ نہ ھونے کا باعث بن گئی ۔
ھم بطور مسلمان اٹھتے بیٹھتے" اسلام یہ کھتا ہے اسلام وہ کھتا ہے"دھراتے نہیں تھکتے ھر معاملے میں اسلام کے بارے میں زبانی جمع خرچ ھماری عادت بن چکی ہے لیکن جب عمل کی باری آتی ہے تو کچھ نھیں کرتے ھم صرف اپنے مفادات اور پسند نہ پسند ھی کو عزیز جانتے ہیں لیکن اسلامی ملک میں اور بحثیت مسلمان جب ھم جھیز کی لمبی چوڑی فھرست تیار کر کے لڑکی کا رشتہ دیکھنے جاتے ہیں تو ھمارا ضمیر کھاں سویا ھوتا ہے؟
سچ تو یہ ہے کہ دیگر کئی معاملات کی طرح جھیز لینے کے معاملے میں بھی ھم بے ضمیر ھو چکے ہیں اور شریف لٹیرے بن کے لڑکی بھی اپنے گھر میں لے آتے ہیں‌ اور اس کے ساتھ جھیز کے نام پر سازوسامان بھی اور اگر ھماری منشاء کے مطابق لڑکی جھیز نہ لائے تو اس کا جینا دو بھر کر دیتے ہیں بلکہ اسے زندہ آگ میں جلا ڈالتے ہیں ۔
 اس جرم اس گناہ پر نہ تو ھماری بدنامی ھوتی ہے اور نہ ھی ھمیں قانون و معاشرہ کوئی سزا دیتا ہے۔ ھم بیٹوں کا کاروبار کر رھے ہیں اور دھڑلے سے کر رھے ہیں کوئی ھمیں پوچھنے والا نھیں اور ان بے بس لڑکیوں کےلئے جو جھیز نہ ھونے کے باعث ادھوری زندگی گزارنے پر مجبور ہیں رحم و ھمدردی کا ضفیف سا جذبہ بھی ھمارے دلوں میں موجزن نھیں ہے۔
مال و زر کی ھوس نے تو لوگوں کے دل پتھر سے بھی زیادہ سخت بنا ڈالے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جھیز کی لعنت ختم کرنے کےلئے باقاعدہ سیمینار منعقد کروائے جائیں نیز میڈیا بھی جھیز کے‌خلاف منظم مھم چلاۓ تاکہ نوجوان لڑکوں میں بالخصوص اور معاشرے میں‌اجتماعی طور پر جھیز کے خلاف ردعمل بیدار ھو جھیز کی لعنت سمیت تمام ایسی رسومات جو غریبوں کےلئے باعث عذاب کا باعث ہیں سے ترک تعلق ھم پر فرض بھی ہے اور معاشرے کی ضرورت بھی۔
 

Add comment


Security code
Refresh