آگ آگ آگ! یہ کسی انسان کی چیخ نھیں ہے، یہ آگ کسی ایک گھر میں نھیں لگی، کسی ایک گودام یا دکان میں نھیں لگی، کسی کھیت کھلیان میں بھی نھیں لگی، نہ ھی یہ آگ کسی ایک گاؤں یا کسی ایک محلے میں لگی ہے
بلکہ یہ آگ پورے جھان میں لگی ہے،تمام ممالک کے لوگ اس میں جھلس رھے ہیں، بھارت و پاکستان ھو یا اور کوئی ملک ھر خاندان اس میں جل رھا ہے، ھر انسان کے تن بدن میں یہ آگ لگی ہے، ھر عمر کے افراد جوان، بوڑھے، عورتیں سب اس آگ میں جل رھے ہیں، بچے بھی اپنے بڑوں کے ھاتھوں اس آگ میں جھونکے جانے کے منتظر ہیں، اس آگ سے انسانی گوشت کے جلنے کی بدبو آ رھی ہے، اس آگ میں زندگیاں جھلس گئیں، جوانیاں اس کی بھینٹ چڑھ گئیں، اس آگ میں دھڑا دھڑ شرافت، انسانیت، حیا، ایمان، رشتہ داریاں، جل کر دھواں دھواں ھو رھی ہیں۔
مگر کچھ لوگ اس آگ سے تاپ رھے ہیں، اس آگ سے گھر میں اجالا کر رھے ہیں، اس آگ پر اپنے چولھے ھانڈی چڑھا رھے ہیں! آپ حیران ھوں گے کہ میں کس آگ کی بات کر رھا ھوں اور کن خبیث لوگوں کی طرف اشارہ کر رھا ھوں، جو اسے ھوا دے رھے ہیں تو سنیئے بھیا اس آگ کا نام ہے شادی! اس کا ایندھن ہے جھیز، رسمیں، گھراتی، براتی اور وہ آدم خور جلاد ہیں دولھا اور دولھا کے گھر والے اور تمام خود فریب جو رسموں کے، شگن کے اور شکوک کے پجاری ہیں!
یہ تمام لوگ بیک وقت بھیڑ بھی ہیں اور بھیڑیئے بھی، ظالم بھی ہیں اور مظلوم بھی، رونے والے بھی یھی رلانے والے بھی، یہ ڈستے بھی ہیں اور ڈسے جاتے بھی ہیں، نوچتے ہیں اور نوچے جاتے بھی ہیں۔
اس معاشرے کو سب سے پھلے ایک پاگل کتے نے کاٹا، جس کا نام ہے "لوگ کیا کھیں گے۔" اس کتے کے اگلے پیروں کا نام ہے جھیز اور رسمیں اور اس کے پچھلے پیروں کے نام ہیں قرض مھر اور ساری زندگی لڑکی والوں سے خوفزدہ رھنا، اس کتے پر سوار ہیں دولھا میاں اور اس کے گرد جمع ہیں گھراتی، باراتی اور رسموں کے پجاری، اس پاگل کتے کے تیز دانتوں کا نام ہے دکھاوا! اس کتے نے اپنے تیز دانتوں سے دین و ایمان و شرافت و رحمدلی و قناعت و ۔۔۔ سب کو بھبھوڑ ڈالا ہے۔
پاگل کتا جسے کاٹ لیتا ہے وہ پاگل ھوجاتا ہے اور یہ پاگل جسے ناخن مار دے وہ بھی پاگل ھوجاتا ہے، سب پاگل کتے کی طرح بھونکتے ہیں اور سب کے منہ میں کتے کی شکل کے کیڑے پیدا ھوجاتے ہیں۔ "لوگ کیا کھیں گے" کو ملحوظ رکھ کر جو پھلی شادی ھوئی تھی، اس دن اس کتے کا جنم ھوا تھا اور جنم دن پر ھی جھاں اس نے لڑکی والوں کو جھیز کے نام پر خوب نوچا اور پھاڑا، وھاں لڑکے والوں کو بھی رسومات کے نام پر کاٹ کاٹ کر لھولھاں کیا۔ اس کے یکے بعد دیگرے خاندان کے خاندان اس پاگل کتے کے زیر اثر آتے چلے گئے اور پاگل ھوتے چلے گئے۔
دین کا ویکسین ناپید تھا یا اسے جان بوجھ کر ایک طرف رکھ دیا گیا تھا۔ آج ھم اور آپ اسی پاگل سماج میں جی رھے ہیں۔ حال یہ ہے کہ بیٹی رحمت ھوتی ہے، کے ماننے والے کے یھاں جب پھلی بیٹی ھوتی ہے تو پریشان ھوجاتا ہے، جب دوسری کی پیدائش ھوتی ہے تو کانپ اٹھتا ہے۔ اور پوری زندگی رعشہ کی یہ بیماری نھیں جاتی۔
حوا کی بیٹی جب سمجھدار ھوتی ہے تو اسے اپنے چاروں طرف جھنم کی سی جنسی آگ سلگتی ھوئی نظر آتی ہے، اس آگ سے بچانے والی پرمسرت شادی کے امکانات جھیز اور رسموں نے بلکل ختم کر دیئے ہیں۔
لیکن کیا کیجئے بھیا! بیٹی کی شادی کے وقت آٹھ آنسو رونے والے کے یھاں جب بیٹے کی شادی کی تیاری ھوتی ہے تو وہ لڑکی والوں کو آٹھ ھزار آنسو رلاتا ہے۔ اس طرح یہ آگ ہے کہ جس میں ھم ھی ایندھن ڈالے جا رھے ہیں۔
سچ کھہ رھا ھوں، رسمیں جھالت کا نتیجہ ہیں، دباؤ ڈال کر جھیز لینا حرام ہے، رسومات کی پابندی کا مطالبہ کرنا ناجائز ہے، ان کے ذریعے ملنے والا مال حرام، ھم منگنی سے لیکر رخصتی تک جو خرچ کرتے ہیں، اس میں 99٪ فضول خرچ ہے اور فضول خرچی ناجائز ہے۔
ھماری زبردستیاں، ھماری بے مھار نفسانی خواھشیں، معاشرے کی باتوں کا ھماری سوچ اور فکر پر غلبہ۔۔۔ ھم پر واجب ھوگیا ہے خود کو آگ میں جھونکنا! کیونکہ معاشرہ ھمیں آگ میں جھلستا ھوا دیکھنا چاھتا ہے، جو معاشرہ چاھے گا ھم کریں گے، ھر عمل معاشرے کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھ کر کریں گے، معاشرے کے خلاف کچھ نھیں کریں گے، معاشرے کے مقابلے میں اللہ کا حکم محمد و آل محمد (ع) کی سیرت بھی آگئی تو ترجیح معاشرے کی بات کو دیں گے۔۔۔ اور شام کو جا کر جانماز بچھا کر اللہ کے آگے سجدہ ریز ھوں گے!
حضرت علی علیہ السلام اورحضرت زھرا سلام اللہ علیھا کی شادی کے دن آئے تو جھوم جھوم کر خوشی منائیں گے! واہ میاں تمھاری نماز۔۔۔ واہ شیعہ تیرا علی (ع) و زھرا (س)کی شادی کا جشن منانا!
تو کسیے بجھے گی یہ آگ؟ محمد (ص) کے بتائے ھوئے طریقے سے، علی (ع) اور زھرا (س) کی شادی کی طرح اپنے گھر میں موجود علی اور زھرا کی شادیاں کرنے سے! اللہ نے تمھیں آزاد پیدا کیا ہے، یہ زندگی یہ اولاد تمھاری ہے، انھیں اس طرح پال پوس کر بڑا کرو، اللہ و اھل بیت (ع) کیلئے جینا سکھاؤ، اپنے لئے جینا سکھاؤ، سر پر لھراتی معاشرے کی تلوار کو ھٹا دو، اپنے لئے شادیاں کرنا سکھاؤ، "لوگ کیا سمجھیں گے" کی جگہ "میرا اللہ، میرے اھلبیت (ع) کیا سمجھیں گے" رکھ کر زندگی کا ھر عمل انجام دو، دین اطاعت کا نام ہے،ھم لوگ اپنے روز مرہ کے امور میں معاشرے کی اطاعت کر رھے ہیں یا اللہ و اھل بیت (ع) کی؟ سوچئے۔
(خیال: مرحوم سید مولانا غلام عسکری اعلی اللہ مقامہ)
تحریر: محمد زکی حیدری